شہادت کا مطلب ہے گواہی اور اسلام میں شہادت سے مراد رب تعالی کی گواہی اور اپنی جان کی قیمت پر گواہی ہے یعنی رب تعالیٰ کے ہونے کی گواہی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دی جائے ۔ گویا اپنے وسیع معنوں میں حق کی گواہی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرجانے کو شہادت کہتے ہیں ۔ گواہی دینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے ۔ شہید کی موت کو حیات کامل کہا گیا ہے اور زندگی سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔
شہید، اس پاکیزہ روح کا مالک ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے اپنے آپ کو قربان کیا۔ شہادت ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شہید کو بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ قرآن پاک میں اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا، بلکہ وہ تا ابد زندہ رہتا ہے۔ وہ اپنے پروردگار کا مقرب ہے، اسے اپنے رب کے پاس سے رزق دیا جاتا ہے، وہ جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ قرآن و سنت میں شہید کے مقام و مرتبے کے حوالے سے جو ارشادات ملتے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں شہید کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے: ولا تقولوا لِمن یقتل فِی سبِیلِ اللہِ اموات بل احیا ولکِن لا تشعرون (البقر: 154) ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مُردوں کی طرح) مُردے ہیں ، بلکہ وہ تو (ایک ممتاز حیات کے ساتھ) زندہ ہیں، لیکن تم(ان)حواس سے (اس حیات کا)ادر اک نہیں کرسکتے ''۔.
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: ولا تحسبن الذِین قتِلوا فِی سبِیلِ اللہِ امواتا بل احیا عِند ربِھِم یرزقون فرِحِین بِمآ اٰتٰھم اللہ مِن فضلِہ ویستبشِرُون بِِالَّذِین لم یلحقوا بِِھِم مِن خلفِھِم ا لا خوف علیھِم ولا ھم یحزنون۔ (آل عمران: 169) ''اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مُردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے ۔وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے۔''
سورة النساء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شہدائے کرام کوان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے جن پراللہ تعالیٰ نے اپناخاص فضل وکرم اورانعام واکرام فرمایا اور انہیں صراطِ مستقیم کامعیاروکسوٹی قرار دیا ہے۔ شہادت کا عظیم رتبہ اور مقام قسمت والوں کوہی ملتا ہے اور وہی خوش قسمت اسے پاتے ہیں جن کے مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے۔ شہادت کا مقام نبوت کے مقام سے تیسرے درجے پر ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: " ومن یطِعِ اللہ والرَّسولَ فاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنعم اللّٰہُ علَیْہِم مّن النَّبِیِّیْن والصِدِیقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ والصالِحِین وَحَسُن اُولٰئِکَ رَفِیقاً (النسا:69)''جوکوئی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول ۖکی(ایمان اورصدقِ دل کے ساتھ) اطاعت کرتاہے،پس وہ(روزِقیامت)ان لوگوں کے ساتھ ہوگا، جن پراللہ تعالیٰ نے (اپناخاص )انعام فرمایا ہے، جوکہ انبیا، صدیقین، شہدا اورصالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں".
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپۖ نے فرمایا: ''جو شخص بھی جنت میں داخل ہوتا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے اور اسے دنیاکی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید (اس کا معاملہ یہ ہے)کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ واپس لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ راہِ خدا میں باربار شہید کیا جائے(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا:''جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے ،وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی ہوگی''۔(صحیح بخاری ومسلم)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ''جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے ان سے خون بہہ رہا ہوگا وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے۔ پوچھا جائے گا یہ کون ہیں ۔ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی ''۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: شہید کو(راہِ خدا میں) قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ (ترمذی،نسائی، دارمی)
شہادت کے فضائل سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی رُو سے ایک مسلمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید ہو جائے، لہٰذا ایک مومن کی تودلی تمنا یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں شہادت سے سرفراز ہو۔
اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید کیوں کہتے ہیں ؟
اس بارے میں کئی اقوال ہیں جو احکام القرآن جصاص،احکام القرآن قرطبی اور دیگرمستند تفاسیر میں مذکور ہیں۔
٭کیونکہ شہید کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دی گئی ہے کہ وہ یقینا جنتی ہے۔ ٭کیونکہ ان کی روحیں جنت میں شاہد یعنی حاضر رہتی ہیں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں،جب کہ دوسرے لوگوں کی روحیں قیامت کے دن جنت میں حاضر ہوں گی۔ نضر بن شمیل فرماتے ہیں کہ شہید بمعنی شاہد ہے اور شاہد کا مطلب جنت میں حاضر رہنے والاہے۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں یہی قول صحیح ہے۔
٭ جب اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے اس کی جان کو خرید لیا اور اس پر لازم کیا کہ وہ اس عہد کو پورا کرے تو شہید نے جان دے کر گواہی دے دی کہ اس نے یہ عہد پورا کردیا ہے۔
٭ابن انبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اس کے لیے جنت کی شہادت یعنی گواہی دیتے ہیں، اسی لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔
٭اس کی روح نکلتے وقت اس کا اجر اور مقام اس کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے شہید کہتے ہیں۔
٭اس کے پاس ایک شاہد گواہ ہے جو اس کی شہادت کی گواہی دیتا ہے اور وہ ہے خون، کیونکہ قیامت کے دن شہید جب اٹھے گا تو اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا۔
حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا : ''شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سات انعامات ہیں۔''
٭خون کے پہلے قطرے کے ساتھ اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اسے جنت میں اس کا مقام دکھا دیا جاتا ہے۔
٭اسے ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔
٭عذاب قبر سے اسے بچا دیا جاتا ہے۔
٭قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے اسے امن دے دیا جاتا ہے۔
٭اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے جس کا ایک یاقوت دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
٭بہتر حورین سے اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔
٭ اپنے اقارب میں ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (مسند احمد )۔]ترمذی[
خدا کو جس قوم، جس ملک کی حفاظت اور دوام مقصود ہوتا ہے انہیں شہداء عطا کرتا ہے۔ شہداء اپنی قوم کا جلال ہوتے ہیں ۔
غازی بھی کسی قوم کے لیے کم شاندار نہیں ہوتے ان کا رعب و دبدبہ جنگوں کے مقدر بدل دیتا ہے اور شہداء کا جلال جنگوں کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔
شہداء کی دلیری سے جنگیں باوقار ہوجایا کرتی ہیں ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کسی کے جذبۂ ایثار و وفا کی سچائی کا اس سے بڑا اور کوئی ثبوت نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے ۔
اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیے اور ان ماں باپ کے جذبے اور ایمان کو دیکھیے جو اپنے جوان بیٹوں کی شہادتوں پر رب ذوالجلال کے سامنے سرخروئی کی تمنا کو ماتھے پر سجا کر تشکر بجا لاتے ہیں ۔ ان بہن بھائیوں ، بیٹوں بیٹیوں اور بیویوں کا سوچیے جو اپنے پیاروں کی میت وصول کرتے ہوئے سر فخر سے بلند رکھتے ہیں ۔
شہادت ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان کی ذات سراپا ایثار میں ڈھل کر نظریے کی آبرو کی شکل اختیار کر جاتی ہے ۔ دنیا میں ایسا پاکیزہ ایسا مخلصانہ اور ایسا آبرو مندانہ اور کوئی عمل کیا ہوگا جس میں چھوٹی چھوٹی ملکیت کے لیے ضد کرنے والا انسان جان جیسی اپنی سب سے قیمتی اور حقیقی ملکیت اپنی مرضی سے نظریے پر قربان کر دیتا ہے ۔ دین ، ایمان ، انسانیت ، خیر اور وطن وہ نظریے ہیں جن کی ترجیح انسان کو اولیت اور دوام عطا کرتی ہے ۔
اسلام دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کو سب سے زیادہ خوف ہی ہمارے جذبۂ شہادت سے آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اور پاکستان دشمنوں کے تھنک ٹینکس ہمہ وقت اسی تگ و دو میں رہتے ہیں کہ کسی طرح جذبۂ شہادت مسلمانوں اور پاکستانیوں کی روحوں سے نکال باہر کیا جائے ۔ اس کے لیے وہ جس جس طرح کے حربے استعمال کرسکتے ہیں کرتے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف رب تعالیٰ پاکستان کے جوانمردوں اور جذبۂ شہادت سے سرشار سپوتوں کے دلوں کو کیسے منور رکھتا ہے ۔اس کا بیان راشدمنہاس کے کلام میں دیکھیے ۔ جو نہ صرف جذبۂ شہادت سے سرشار غازی ہیں بلکہ ہمارے غازیوں اور شہدا کو اپنے روح پرور کلام سے نذرانہ عقیدت پیش کرنے میں بھی اول اول ہیں ۔
میری وفا کا تقاضہ ہے جاں نثار کروں
میرے وطن تیری مٹی سے ایسا پیار کروں
میرے لہو سے جو تیری بہار باقی ہو
میرا نصیب کہ میں ایسا بار بار کروں
جو خونِ دل سے چمن کو بہار سونپ گئے
اے کاش ان میں کبھی خود کو میں شمار کروں
خدا کرے کہ کفن بھی مجھے نصیب نہ ہو
جسدِ خاک کو پرچم سے استوار کروں
مِری حیات ہو کامل خدا کرے ایسی
کہ اپنی موت سے لاکھوں کو سوگوار کروں
مِری دعا ہے میں راشد شہید کہلائوں
میں کوئی کام کبھی ایسا یادگار کروں
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے