عوام کواداروں سے لڑانے کی سازش بری طرح ناکام ہوگئی،عوام آج بھی ریاست اورریاستی اداروں کے بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قوم ہر مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں افواج پاکستان کی طرف دیکھتی ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا کاغلط استعمال روکنے ، آزادی صحافت اورپروپیگنڈے کے فرق کوواضح کرنے کی ضرورت ہے
9 مئی کا سانحہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، اس سانحے کی منصوبہ بندی کئی ماہ سے چل رہی تھی، پہلے انتشار پھیلایا گیا، پھر لوگوں کے جذبات کو اشتعال دلا کر اداروں کے خلاف اکسایا گیا۔سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی بیانیہ پھیلایا گیا۔انتہائی شرانگیز بیانیے سے لوگوں کی ذہن سازی کی کوشش کی گئی۔ اس حوالے سے بہت سے شواہد مل چکے ہیں، یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔جو کام ہمارا ازلی دشمن نہ کر سکا وہ افسوسناک کام مٹھی بھر شرپسندوں نے کردیا۔ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی۔وہ شہدا جنہوں نے ہماری خاطر اپنی زندگیاں اس ملک وقوم پرقربان کردیں۔ بدقسمتی سے 9مئی 2023ء کو طاقت کے ذریعے ریاست کودبانے کی کوشش کی گئی ۔سازش کا جال بچھانے والے چاہتے تھے کہ عوام ریاست کے خلاف بغاوت کردیں اور قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ ہم جانتے ہیں کسی جمہوری ریاست میں ایسا ممکن نہیں۔
سیاسی مقاصد کے لیے اپنے ہی قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، لوگوں کواشتعال دلا کر توڑپھوڑ اورآگ لگانے کے لیے اکسانا،کس جمہوری ملک میں ایساہوتاہے؟ کیاامریکہ،برطانیہ اوریورپ میں عوام اورسیاسی جماعتوں کویہ آزادی حاصل ہے؟ معاف کیجیے گا یہ آزادی اظہارکامعاملہ نہیں بلکہ یہ ریاست اورآئین کے خلاف عوام کوبغاوت پراکساناہے۔نومئی کو اقتدار کی ہوس نے آئین وقانون کوپاؤں تلے روندڈالا ۔ہمیں معلوم ہوناچاہیے معاملات کوہمیشہ فہم وفراست اورشعورکے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔توڑپھوڑ سے معاملات اورالجھ جاتے ہیں،اپنے جذبات کوکنٹرول میں رکھناچاہیے۔اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ملک کوبہت پیچھے لے جاتی ہے۔کیاہمیں یہ معلوم نہیں؟
اُس وقت کی نگران وفاقی حکومت نے سانحہ 9مئی سے متعلق کابینہ اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے سانحہ کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیا۔ اِن واقعات میں کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) لاہور جلانے اور جی ایچ کیو میں توڑ پھوڑ کے علاوہ میانوالی، مردان اور کراچی سمیت دیگر کئی شہروں میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، پشاور ریڈیو سٹیشن کو بھی جلا دیا گیا جس میں بہت سانادر سامان موجود تھا۔
کسی بھی قوم کے شہدا اس کافخرہوتے ہیں،شہدا ہمارے ماتھے کاجھومر ہیں اورہم ان کے مقروض۔وطن پراپنی جان قربان کرنیوالوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کسی قیمت پرقبول نہیں کی جاسکتی۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گھناؤنی سازش تھی جس کامقصد ہی شہدا کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرناتھا۔ شہادت ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف وہی حاصل کر سکتا ہے جس کے دل میں ایمان اوروطن سے سچی محبت ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے شہید کو بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ قرآن پاک میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ شہید کبھی نہیں مرتا، بلکہ وہ تا ابد زندہ رہتا ہے ، وہ اپنے پروردگار کا مقرب ہے، اسے اپنے رب کے پاس رزق دیا جاتا ہے، وہ جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ قرآن و سنت میں شہید کے مقام و مرتبے کے حوالے سے جو احکامات ملتے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ شہید کی عظمت اور شہادت کا مقام و مرتبہ انتہائی بلند ہے۔ان شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی سمجھ سے بالاترہے۔ریاست کوایسے شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے اورقانون کے مطابق سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہیے۔یہ پوری قوم کامطالبہ ہے ۔
اس دن جو بھی ہوا بہت افسوسناک ہے۔اس کے بہت سے ذمہ داروں نے ان واقعات پرافسوس اورشرمندگی کااظہارکیا۔بہت سے سزا بھگت رہے ہیں اورکئی کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض لوگ سیاست وجمہوریت کوعوام کی خدمت سمجھنے کی بجائے اسے ہرقیمت پر اقتدار حاصل کرنے کاذریعہ سمجھتے ہیں۔ مفادپرستوں کے لیے ہرچیز ان کی ذات سے شروع ہوتی ہے اورانکی ذات پرہی ختم ہوجاتی ہے۔انھیں ملک وقوم کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اورنہ وہ آئین وقانون کی بالادستی کے لیے مخلص ہوتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ آئین وقانون کوموم کی ناک کی طرح ان کے حق میں موڑ دیاجائے۔ ہم سب جانتے ہیں ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ماں کواس کی ساری اولاد پیاری ہوتی ہے۔بچوں میں آپس میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن ماں سب کوایک نظرسے دیکھتی ہے۔تمام ریاستی ادارے آئین وقانون کے پابند ہیں۔ اب اگرکوئی ادارہ کوئی غیرقانونی، غیر آئینی کردار ادا کرنے سے انکار کرتاہے تو اس کے خلاف مہم شروع کرنا اوراپنے حامیوں کواداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کی طرف لے جانا کہاں کاانصاف اورحب الوطنی ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہوتاہے۔ پالیسیاں چاہے بہت اچھی ہوں لیکن اگرکوئی ملک سیاسی عدم استحکام اورانتشار کاشکارہوگا تووہاں معاشی ترقی اورغیرملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابرہوگی۔ پاکستان میں بعض افراد کی جانب سے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ٹکرائو کی پالیسی کسی کے مفاد میں نہیں ہوتی۔اس پالیسی اوررویے کوختم ہوناچاہیے۔پاکستان مزید کسی انتشاروخلفشار کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ہمیں اس بات کویاد رکھناچاہے کہ ہم ایک کشتی کے سوار ہیں،کشتی کونقصان پہنچتا ہے تویہ نہیں ہوسکتا کہ ہمیں نقصان نہ پہنچے۔ مختلف ایشوز پرسوچ اوررائے کامختلف ہونا اور بات ہے جبکہ ٹکرائو اورانتشار بالکل مختلف اورخطرناک چیزیں ہیں۔ہمارا ایک بڑا مسئلہ ایک دوسرے پراعتماد کی کمی بھی ہے۔بعض اوقات کسی معاملے کویا چھوٹی سی بات کورائی کاپہاڑ بنادیاجاتاہے،بس اب توسب کچھ ختم ہے۔ہماری سیاست کاالمیہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں میں برداشت اورسیاسی پختگی نہیں ہے،ہم میں سے ہرایک یہ سمجھتاہے کہ وہ جوکہہ رہاہے صرف وہی بات ٹھیک ہے۔ جواس سے آگے پیچھے ہے وہ غلط ہے۔اپنے مخالفین سے ہاتھ ملانے اورمفاہمت کے لیے ہم تیارہی نہیں۔ ہم اپنے کام کوتوٹھیک طرح کرتے نہیں دوسروں کونصیحتیں کرنے اورانکی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے کمربستہ رہتے ہیں۔ہم کچھ غلطیاں توخود کرتے ہیں اورکچھ لاشعوری طورپرہوجاتی ہیں۔ہم جانتے ہیں قوم ہر مشکل اور آزمائش کی گھڑی میں فوج کی طرف دیکھتی ہے۔قوم کی تمام امیدیں اورتوقعات فوج سے وابستہ ہیں۔
سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی نے بھی ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے ،ہمارا سوشل میڈیا جتنا آزاد ہے امریکہ اوریورپ میں اس کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ ملک میں سیاسی انتشار اورافراتفری پھیلانے والوں میں وہ نام نہاد تجزیہ نگار بھی شامل ہیں جنھیں سیاست، معیشت،خارجہ امور کی الف بے کانہیں پتہ لیکن پاکستان سمیت دنیا بھرکے مسائل کاحل ان کے پاس ہے ۔ماضی میں حکومت کی جانب سے آنکھیں بند کرنے کی پالیسی اورقوانین نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان غیرذمہ دار عناصر کوحوصلہ ملا۔ہمارے سامنے بہت سے جمہوری ممالک کی مثالیں ہیں جہاں پہلی ترجیح قومی مفاد ہے۔وطن عزیز کوجوچیلنجز درپیش ہیں ان کاتقاضاہے کہ ملک میں انتشار پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔
افواج پاکستان اورقانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف جو جنگ لڑرہے ہیں ہمارے سامنے ہے۔ٹی ٹی پی کے دہشت گرد ہوں یابلوچستان میں دہشت پھیلانے والے گروپ۔سکیورٹی فورسز کے جوان ان کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان ملک وقوم پرنچھاور کررہے ہیں۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہیں سے دہشت گردوں کے حملے،فورسز کی جوابی کارروائی اور جوانوں کی شہادت کی خبر نہ آتی ہو۔ہم سکون کی نیند اس لیے سورہے ہیںکیونکہ یہ جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ پوری قوم بہادر سپوتوں اور اْن کے لواحقین کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کے امن و سلامتی کی خاطر قربان کر دیں۔دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں قربانیوں کایہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔پوری قوم اپنے شہدا پرفخر کرتی ہے اوران کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔
یہ ان شرپسند اور ملک دشمن عناصر کی خام خیالی تھی کہ ایسا کرکے وہ عوام کے دلوں سے افواج پاکستان کی محبت کو ختم کردینگے مگر تاریخ نے ایک مرتبہ پھر دیکھا کہ اللہ کی مدد سے ریاست پاکستان اور اس کے محافظ کی عزت و تکریم پوری دنیا میں کم نہیں ہوئی اور الٹا شرپسند اور ان سے جڑی جماعت کو ہی جگ ہنسائی اور شدید تنقیدکا سامنا کرنا پڑا۔
اگر موزانہ کیا جائے پاک فوج نے مخصوص سیاسی جماعت کی قیادت اور اس کے شرپسندوں کے پروپیگینڈوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملکی سلامتی کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ترقیاتی سوچ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عوامی فلاح کے منصوبوں پر جاری کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی، آرمی چیف کی سربراہی میں پہلے نگران حکومت اور اب منتخب حکومت کے ساتھ ان منصوبوں کو عملی شکل دینے کیلئے مضبوط حکمت عملی تیار کی گئی۔اللہ کے کرم سے آج ریکوڈک منصوبے اور گرین انیشیٹیوپروگرام کے ذریعے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تعاون سے غیر ملکی سرمایہ کارپاکستان میں معاہدے کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے بیرون ملک دوروں جن میں سعودی عرب، ایران، ترکی، چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان، کویت، بحرین، برطانیہ، آذربائیجان اور امریکا کے دورے نے نہ صرف ملکی وقار اور قومی تشخص میں اضافہ کیا بلکہ ان دوست ممالک کی جانب سے آرمی چیف کا پرتباک استقبال کیا گیا۔ اسی طرح سعودی و ایرانی وفود کی پاکستان آمد کامیاب خارجہ پالیسی اور ملٹری ڈپلومیسی کی اعلی مثال ہیں۔
دوسری طرف ترقی کی راہ پر گامزن ایک اہم سنگِ میل دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو فعال کرنے کے سلسلے میں نیشنل لاجسٹکس سیل (این ایل سی) نے اسلام آباد اور کراچی سے کاشغر اور شنگھائی تک باقاعدہ کارگو سروس کا آغاز کر دیاگیا۔اس کارگو سروس کے اجرا سے مستقبل میں چین، پاکستان، کرغزستان اور قازقستان کے مابین چار ملکی ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدیاور بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ(ٹی آئی آر)کنونشن کے عملی نفاذ کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔یہ دونوں معاہدے علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے واضح روڈ میپ متعین کرتے ہیں جو خطے کی مجموعی معاشی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا۔
کوئی بھی حکومت یاادارہ کسی کو بھی ریاستی رٹ کوچیلنج کرنے کی اجازت نہیں دیتا،ریاستی رٹ کامطلب ہے آئین و قانون کی حکمرانی ۔اب ذرا تصورکیجیے جس ملک میں قانون کی حکمرانی یاعمل داری نہیں ہوگی وہ ایک جنگل یاوحشی معاشرہ تصور ہوگاجہاں طاقتور اپنی طاقت کے بل بوتے پراپنی مرضی کرتاپھرے گا۔ نو مئی کوصرف جلاؤگھیراؤ نہیں کیاگیابلکہ ریاستی رٹ کوچیلنج کیاگیا۔اس کے پیچھے سیاسی مقاصد تھے کہ حکومت کودباؤمیں لاکرمن مانی کی جائے۔دنیا بھرمیں احتجاج ہوتاہے تحریکیں چلتی ہیں لیکن کہیں بھی ریاستی رٹ کوچیلنج نہیں کیاجاتا۔احتجاج کرنا جمہوری حق ضرور ہے لیکن کسی کوبھی احتجاج کرنے کاحق آئین وقانون کے اندر رہ کرحاصل ہے۔اگرریاستی رٹ کوقائم نہ رکھاجائے توملک انتشار کاشکارہوجائے گا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیوں ہورہاہے؟اس لیے کہ دہشت گرد ریاستی رٹ کوچیلنج کررہے ہیں۔ وہ پاکستان کے آئین وقانون کونہیں مان رہے اپنی مرضی چلاناچاہتے ہیں ،اب اگرکوئی گروپ سیاسی جماعت کے لبادے میں ملک پرقبضہ کرنے اوراپنانظام رائج کرنے کی کوشش کرے توکیاریاست کوخاموش تماشائی کاکردارادا کرناچاہیے؟ پوری دنیا میں یہ ہی جواب ہوگا، ہرگز نہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ قانون شکنی کرنیوالوں سے نمٹے اورانہیں کچل دے۔اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کادستوربھی یہی کہتاہے کہ چند افراد طاقت کے بل بوتے پرکسی ریاست یامعاشرے کویرغمال نہیں بناسکتے،دوسروں کی آزادی سلب نہیں کرسکتے ۔9 مئی کاسانحہ ریاستی رٹ کوچیلنج کرنے کامعاملہ تھا ،جولوگ بھی اس میں ملوث ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔پوری قوم ریاست اورریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے