کیپٹن سید حیدر عباس شہید(تمغہ بسالت)کی والدہ محترمہ سیدہ نصرت زہرا بڑے فخرو انبساط سے بیان کررہی تھیں کہ میرا بیٹا حیدر عباس ابھی صرف چار سال کا تھا کہ اسے سکول میں یومِ دفاعِ پاکستان (6 ستمبر) کی تقریب کے لیے منتخب کرلیا گیا اور کہا گیا کہ آپ نے کل فوجی آفیسر کی یونیفارم میں آنا ہے۔ درجن بھر بازاروں میں تلاش کے باوجود جب اتنی چھوٹی وردی نہ ملی تو اس کی جسامت کے قریب کی وردی خرید کر، میں نے ساری رات اسے مختلف جگہوں سے کاٹ اور ادھیڑ کر اپنے بیٹے کے چھوٹے سے جسم کے مطابق ڈھال دیا۔ اگلے روز، 6 ستمبر کو جب حیدر عباس اس وردی کو زیبِ تن کر کے تقریب میں پہنچا تو ہر کسی نے چشمِ بد دور کہہ کر اس کا استقبال کیا اور ٹیبلو انچارج نے بے ساختہ اِن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ بظاہر حیدر عباس فقط چار سال کا نوخیز بچہ نظر آتا ہے مگر جوش و جذبے اور اٹھان میں مکمل جوان فوجی آفیسر دکھائی دیتا ہے۔
حیدرعباس کے والد محترم سید عباس حسن نے اپنے نورِ نظر کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا، میرا یہ لختِ جگر پرائمری سکول سے ہی بہترین مقرر، ہاکی کا پھرتیلا کھلاڑی، برق رفتار تیراک اور آغازِ زندگی ہی سے قابل ترین طالب علم رہا۔ کم سنی میں انتہائی شرارتی تھا۔ مگر چھٹی جماعت سے اس نے سنجیدہ ہونا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچپن ہی سے پراعتماد اور ارادوں میں پختہ دکھائی دیا۔ والد کے لہجے میں شہید بیٹے کے لیے بے پناہ شفقت و شیرینی تھی۔ پچیس سال چار ماہ کے کیپٹن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے ذہن کے پردہ پر اجاگر ہوتا نظر آرہا تھا۔ بقول ان کے وہ 21 اکتوبر 1996 کو کراچی میں پیدا ہوا۔ دادا، دادی اور نانی کی صحبت سے فیض حاصل کیا، 2001 سے لے کر 2008 تک حبیب پبلک سکول سے تعلیم حاصل کی- ہمیشہ جماعت میں A-1 گریڈ سے کامیاب ہوا اور والدین سے فرمائش کی کہ اب میری اگلی منزل کیڈٹ کالج ہے۔ لہٰذا وہ صرف ساڑھے بارہ سال کی عمر میں کیڈٹ کالج لاڑکانہ روانہ ہو گیا۔ والدِ مکرم خود اسے اپنی گاڑی میں لاڑکانہ چھوڑ کر آئے۔ پھر پانچ سال کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں گزارنے کے بعد A-1گریڈ کے ساتھ ایف ایس سی تک کی تعلیم اعزاز کے ساتھ مکمل کی اور گھر آنے سے قبل ہی پی ایم اے لانگ کورس کے لیے درخواست دی۔ والد کو پتا چلا تو انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ ضروری تو نہیں کہ تم کاکول کے لیے منتخب ہو جاؤ، لاکھوں طالب علم کوشش کرتے ہیں مگر صرف گنتی کے کچھ امیدواروں کو چنا جاتا ہے۔
تمہارے نمبر اتنے اعلیٰ ہیں کہ تمہیں میڈیکل کالج میں بھی آسانی سے داخلہ مل جائے گا۔ لہٰذا متبادل پیشے کے طور پر میڈیکل کالج کے لیے بھی درخواست دے دو تاکہ وقت ضائع نہ ہو۔ مگر اس نے کہا "نہیں، میرا انتخاب ہوجائے گا!" اسکی شخصیت کے اعتماد نے یہاں بھی کرشمہ دکھایااوراسے پی ایم اے کاکول اکیڈمی کے لیے چن لیا گیا۔ والد نے انگلیوں کی پوروں پر گِن کر بتایا کہ حیدر عباس نے درجہ شہادت پر فائز ہونے تک صرف پچیس سال چار مہینے کی عمر پائی، جس میں وہ مجموعی طور پر ہمارے ساتھ فقط تیرہ سال رہا۔ وہ اس تمام عرصے میں ایک دن، دو دن، ہفتہ یا زیادہ سے زیادہ مہینہ، مہمانوں کی طرح وقت گزارتا اور ہمیں اداس کر کے واپس اپنی یونٹ روانہ ہو جاتا۔
نومبر 2014 میں گھر کے تمام افراد، والدین، دونوں بھائی اور دونوں بہنیں، اسے چھوڑنے کے لیے کراچی سے ایبٹ آباد گئے۔ طویل سفر کی تھکان سے چور ماں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، "بیٹا یہ تو بتاؤ کہ بھلا ماں کس طرح یہ لمبی مسافتیں طے کر کے اپنے لختِ جگر سے ملنے یہاں آیا کرے گی؟" حیدر نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "اماں آپ دیکھ رہی ہیں اکیڈمی اورکالج کس قدر خوبصورت اور روح افزا مقام پر واقع ہیں، اللہ کریم! خیر کرے گا یہ وقت بہت تیزی سے گزر جائے گا اور پھر آپ میری پاسنگ آؤٹ کے لیے یہاں تشریف لائیں گے۔ بس اماں آپ دعا کریں کہ میں تربیت کے دوران کبھی زخمی نہ ہوں اور اپنی تعلیم و تربیت کے تمام مراحل کامیابی سے بروقت مکمل کر کے کامیاب ہو جاؤں۔"
والد بتا رہے تھے کہ زندگی کے کسی موقع پر اس کے لبوں پر شکوہ نہیں آیا۔ اب ہمیں بھی آہستہ آہستہ یقین ہو چلا تھا کہ یہ مقدس پیشہ سپاہ گری اس کی سوچوں کا محوراور اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ کبھی یونیفارم میں گھر پر نہیں آیا۔ مگر جب بھی آیا اپنی چال ڈھال سے چاق چوبند سپاہی کے روپ میں ہماری نظروں میں جچنے لگا۔ اِس مختصر سی زندگی میں ہم نے اسے صرف دو مرتبہ وردی میں دیکھا۔ پہلی مرتبہ پاسنگ آؤٹ پریڈ کے دوران، 16 اپریل 2016 کو جب وہ اپنے پورے134 پی ایم اے لانگ کورس کے ہمراہ نعرہ تکبیر اللہ اکبرکے فلک شگاف نعروں میں خدائے بزرگ و برتر کی گواہی دیتا ہوا پریڈ سیکٹر میں داخل ہوا۔ مدھر بینڈ کی دھنوں میں، پاس آؤٹ ہونے والے سپوتوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ ہمارے بیٹے کو لائٹ ائیر ڈیفنس بٹالین میں کمیشن ملا، یہ دن ہمارے خاندان کے لیے جشن کاروز تھا۔
سبھی سینئرز اور جونئیرز شروع ہی سے نوخیز لیفٹیننٹ حیدر عباس کی قائدانہ صلاحیتوں، جذبۂ ایثار اور پیشہ ورانہ خوبیوں کے معترف ہو گئے۔ ضرورت کے وقت اپنی یونٹ کے جوانوں کی مدد کرنا اور ان کی تربیت کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانا، حیدر عباس کا طرۂ امتیاز تھا۔ یہاں تک کہ وہ جولائی 2018 میں ایس ایس جی کورس کی مشکل ترین مہمات کو سر کرنے کے لیے تربیلا پہنچ گیا۔ مارچ 2019 میں پاسنگ آؤٹ ہونا تھا مگر دو ماہ قبل ہی ماں سے پرزور اصرار کر دیا کہ آپ سب نے میری پاسنگ آؤٹ میں ضرور شامل ہونا ہے۔ یہ اس کی دوسری پاسنگ آؤٹ تھی اور ہمارے لیے بھی دوسرا موقع تھا کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوبارہ اسے یونیفارم میں دیکھا اور بے انتہا خوش ہوئے۔ حیدر عباس وردی کی حرمت کے بارے میں بہت حساس تھا۔ وہ کبھی بھی یونیفارم پہن کر گھر نہیں آیا اور نہ کبھی اپنی خوبصورت وردی کی نمائش کسی اور جگہ پر کی۔ پہلی مرتبہ ہمارے پڑوسیوں کو بھی حیدر عباس کے ایس ایس جی میں کمانڈو ہونے کا علم اس وقت ہوا جب حیدر عباس کی شہادت کے بعد اس کی یونٹ کے آفیسرز اورجوانوں نے نوخیز شہید کی تعزیت و تدفین کے لیے ہمارے غریب خانے پر آنا شروع کیا۔ والد بیک وقت غمی اور خوشی کے آنسو آنکھوں میں لیے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے محوگفتگو تھے کہ میرے اس بیٹے کی سوچ بچپن ہی سے بڑی منفرد اور عظیم تھی۔ ایک مرتبہ حیدر عباس کی جبکہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی کم سن ہی تھے، اپنے لاڈلے چھوٹے چچا سے عملی بحث چل نکلی، مباحثے کا موضع تھا حیات و ممات، ذہین عباس حیدر نے گھریلو ادبی مباحثے کو اپنے اس مختصر سے جملے میں سمیٹتے ہوئے اور دریا کوکوزے میں بند کرتے ہوئے جاوداں بنا دیا، ''انسان نے زندگی جیسی بھی گزاری ہو مگر موت اچھی ہونی چاہیے۔ اگر موت اچھی ہو گی تو بری سے بری زندگی بھی اچھی شمار ہو گی۔''
اپنی شہادت سے چند روز قبل حیدر عباس نے اپنی ماں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے کہا ماں مجھے ڈر بالکل نہیں لگتا ماں نے بھی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ ماشاء اللہ میرے بیٹے تم بہادر فوجی جوان ہو، تمہیں ڈر لگنا بھی نہیں چاہیے۔ اب بیٹے نے شہادت کی اشارتاً خبر دیتے ہوئے کہا ماں مجھے قبر سے بالکل بھی ڈر نہیں لگتا۔ ماں نے مضطرب ہو کر دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بیٹا آج 27 دسمبر ہے تمہاری چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں، کل والدین کی شادی کی سالگرہ ہے ایک دن کی اور چھٹی لے لو اور سالگرہ کی تقریب میں شمولیت کر کے جائو۔ ساتھ ہی عید بھی ہے لہٰذا ہمارے ساتھ چلو اور عید کی خریداری بھی کر لو۔ اب حیدر عباس نے کسی تجربہ کار بزرگ محبِ وطن سپاہی کی طرح پرانا جملہ دہرایا۔ ''ماں، جوان میری فیملی اور یونٹ میرا گھر ہے۔ لہٰذا پردیسی، مسافر اور اپنے خانہ بدوش بیٹے کو رخصت ہونے کی اجازت دو۔'' اللہ حافظ کہا اور کوئٹہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ آج اس کی شہادت کے سوادو سال بعد محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک کے تمام شہیدوں، غازیوں کے ذوق وشوق، ولولے، حوصلے اور جذبائے شہادت مشترک ہوتے ہیں۔
ماں اپنے بیٹے کی شادی کے بارے میں سوچ رہی تھی اور بیٹا کسی اور دھن میں مگن نظر آتا تھا۔ ایک دن اچانک ماں نے خواب دیکھا کہ حیدر عباس اپنے مرحوم دادا، دادی کے درمیان کسی چھوٹے بچے کی مانند لیٹا ہوا ہے اور سینے پر ہاتھ رکھ کر زخمِ جگر کو چھپا رہا ہے۔ جیسے وہ اپنا زخم بزرگوں کو دکھا کر پریشان نہ کرنا چاہتا ہو۔ خواب بہت پریشان کن تھا۔ ماں ذہنی طور پر انتہائی مضطرب تھی کہ اس خواب کی نجانے کیا عجیب تعبیر سامنے آنے والی ہے۔
بلوچستان کے علاقے میں عباس حیدر کا زیادہ تر رابطہ اپنے بھائی اسد عباس سے رہتا۔ وہ انہیں اپنی خیریت بھجواتا رہتا۔شہید کے حوالے سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک کمانڈو ساتھی جو حوالدار تھا، نے اُنہیں کہا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں وطن دشمن دہشت گرد آئی ای ڈی کے ذریعے سب سے پہلے قیادت کرنے والی گاڑی کو نشانہ بناتے ہیں۔ صاحب، آپ شادی شدہ ہیں اس لیے میں نہیں چاہتا کہ آپ کی جان کو نقصان پہنچے، لہٰذا آپ اپنی گاڑی کو پیچھے لے آئیں اور میری گاڑی کو فوجی قافلے کی قیادت کرنے دیں۔ اگر مجھے کچھ ہو گیا تو خیر ہے۔ میں چھڑا ہوں۔ ہمارے دشمن بھی ہماری اس روایت سے واقف ہیں کہ فوج میں کوشش کی جاتی ہے کہ امکانی شہادت کے موقع پر جوان افسروں پر اور افسر جوانوں پر سبقت لے جائیں۔
حیدرعباس نے فوج میں کیپٹن بن کر اور وہ بھی کمانڈو الصمصام بٹالین میں لڑنے کا فیصلہ اپنے شوق اور مرضی سے کیا تھا۔ انہوں نے ہر موقع پر اپنے جوانوں کی پیشہ ورانہ مہارت کو عملی طور پر نکھارنے اور آزمانے کا نصب العین ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ آپ کے جوان بھی بخوشی آپ کی قیادت میں کسی بھی پر خطر معرکے سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ و عزم اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے بہترین نشانہ بازوں کو اچھی طرح اعلیٰ پائے کا ماہر بنا کر ایسے پرخطر حساس راستوں پر تعینات کیا تھا کہ دشمن کو اپنی سانسیں رکتی اور اکھڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ کشمیر میں تعیناتی کے دوران بھی ان کی فہم و فراست پر مبنی جنگی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے الصمصام بٹالین نے کافی حد تک دہشت گردی کے امکانات کو معدوم کر دیا تھا۔ ذاتی طور پر کیپٹن حیدرعباس نے اپنے جوانوں کے لیے ایسی حکمت عملی اپنائی اور شب و روز انہیں ایسی مشقیں کروائیں کہ ان کی جنگی صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ مہارت میں قابلِ قدر اضافہ ہوا۔
الصمصام کمانڈو بٹالین، سپیشل سروسز گروپ کے قابلِ رشک اور لائق کیپٹن حیدرعباس نے بیرون ملک بھی پاکستان آرمی کی نمائندگی کی اور قطر میں منعقدہ 10 روزہ مشقوں میں حصہ لیا، جہاں دنیا کی صفِ اول کی اسپیشل فورسز نے شرکت کی۔ وہاں بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیں اور ملک و ملت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ کے قد کاٹھ میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔ ان کے بہترین آفیسر بننے میں ان کے شوق مطالعہ کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ بلوچستان سرحدی آپریشن کے دوران بھی حیدر نے مختصر سے وقت میں 52 کتابیں پڑھیں۔ جبکہ 200 کے قریب کتابوں کے مطالعے سے اپنے بٹالین ہیڈ کواٹر زاٹک میں لطف اندوز ہو چکا تھا۔ والد نے آگاہ کیا کہ وہ میرے گھر کی لائبریری کی تمام نایاب کتب پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ اس کی یاداشت ایسی تھی کہ جو سطر اس کی چشم بینا سے گزرتی اس کے ذہن پر نقش ہو جاتی۔ اس لحاظ سے اسے بجا طور پر صاحبِ سیف و قلم سپاہی کہا جاسکتا ہے۔
19 فروری 2022 کو کیپٹن سید حیدر عباس دیگر چار لڑاکا دستوں کے ہمراہ خفیہ طور سے سول بسوں پر سبی کے لیے روانہ ہوئے، کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محمد قمر اعجاز، تمغہ بسالت کو کوئٹہ سے پہلی پرواز میں جبکہ کیپٹن سید حیدر عباس اور ان کی ٹیم کو تیسری پرواز میں سبی سے طے شدہ ہدف پر ہیلی ڈراپ کیا جانا تھا۔ اس اہم ترین خفیہ مشن میں پہلی ٹیموں کا فرض ممکنہ دہشت گردوں کے فرار کے راستوں کو مسدود کرنا تھا۔ یہ ٹیمیں ایک دوسرے سے 500 سے 600 میٹر کے فاصلے پر موجود تھیں۔ روانگی سے قبل کیپٹن حیدر عباس نے اپنے ساتھیوں کو تلقین کی کہ وہ باوضو رہیں اور جس نماز کا وقت آئے ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہوئے پڑھ لیں۔ نجانے کونسی نماز زندگی کی آخری نماز ہو جائے۔ ہدف پر اترنے کے بعد کیپٹن سید حیدر عباس نے حالات کا جائزہ لیا اور اپنی ٹیم کو دو سیکشن میں تقسیم کیا۔کیونکہ دہشتگردوں کا فائر ہدف کے اطراف سے آ رہا تھا۔ لہٰذا انہوں نے مزید آنے والی ٹیموں کا انتظار کیے بغیرکارروائی کا فیصلہ کیا تاکہ دہشتگردوں کے فائر کے باعث ہدف کے اطراف میں موجود ٹیموں کو نقصان نہ پہنچے۔
کیپٹن سید حیدر عباس اپنی ٹیم کے ایک سیکشن کو لے کر آگے بڑھے جبکہ دوسرے سیکشن کو فائر کور اور کمک کے لیے رکھا۔اس موقع پر انہوں نے اپنے سیکشن کی قیادت کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے 3کمپائونڈ کلیئر کیے اوروہاں موجود بھاری مقدار میں گولہ بارود اپنے قبضے میں لیا۔
یہاں کیپٹن سید حیدر عباس شہید کے سامنے یہ موقع تھا کہ وہ مزید ٹیموں کے آنے کے بعد دہشتگردوں کا تعاقب کریں۔ تاہم، زمینی حقائق کودیکھتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دہشتگرد بہترین کور اور علاقے سے زیادہ باخبر ہونے کی وجہ سے موجود دستوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے تھے۔ لہٰذا ایک شجاع اور ذمہ دار افسر کی حیثیت سے وہ سینہ سپر ہوگئے اور اپنی ٹیم کو لے کر'' فائر اور موو'' کی تکنیک کے تحت آگے بڑھتے ہوئے دہشتگردوں کی پوزیشن کا تعین کیا تاکہ انکو کیفرِ کردار تک پہنچا سکیں۔
کیپٹن سید حیدر عباس اور انکی ٹیم کی پیش قدمی اور فائرنگ سے کچھ دہشتگرد چھپے ہونے کے باوجود زخمی ہوئے اور بزدلی سے فرار ہونے کے لیے شدید برسٹ فائر کرنے لگے۔کیپٹن سید حیدر عباس اور انکی ٹیم نے فوری طور پر زمین پر چھلانگ لگا کر عارضی کور لیا۔ تقریباً ایک منٹ کے بعد کیپٹن حیدر عباس شہید نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انتہائی استقامت اور قیادت کے جذبے کے تحت اٹھنے میں پہل کی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ بھگوڑے دہشتگردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔انکے ساتھیوں نے اس موقع پر کہا کہ وہ آگے جاتے ہیں لیکن کیپٹن حیدر عباس شہید نے پاک فوج کی قائدانہ روایات کے مطابق ایک جری کمانڈر کی حیثیت سے انہیں کور دینے کا کہا اور دہشتگردوں کی سمت میں فائرنگ کرتے ہوئے خود آگے بڑھے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب یہ شجاع اور فرض شناس نوجوان افسر اپنی انتہائی کامیابی سے ہمکنار ہوا اور شہادت پائی۔کیپٹن سید حیدر عباس شہید کو انتہائی کم فاصلے پر چھپے ہوئے دہشتگردوں کی طرف سے ایک گولی چہرے کی بائیں جانب لگی جو انکے سر سے پار ہو گئی۔ بعد ازاں انٹیلی جنس کے ذریعے معلوم ہوا کہ دہشتگردوں کو اپنے ایک ساتھی کی گولیوں سے چھلنی لاش قرب و جوار کے علاقے میں ملی جو یقینا کیپٹن حیدر عباس شہید سے فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہوا اور فرار ہوتے ہوئے کیفر کردار کو پہنچا۔
کیپٹن سید حیدر عباس کی پہلی نماز جنازہ کوئٹہ میں ادا کی گئی اور دوسری کراچی کی امام بارگاہ میں۔نماز میں شریک ہونے والے افراد گواہی دیتے ہیں کہ وہاں اتنی بڑی نمازجنازہ اس سے پہلے کبھی نہ پڑھی گئی۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کراچی کی کثیر آبادی اپنے اپنے علاقوں کی نمائندگی کے لیے وطن کے ہیرو کو آخری خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اُمنڈ آئی ہو۔ وادی حسین کے خوبصورت قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ حیدرعباس کے بھائی اسد عباس نے اُن کو لحد میں اتارا، ماں خوشی کے آنسو بہاتی ہوئی اظہار تشکر کچھ اس انداز سے ادا کررہی تھی۔
'حیدر تم میرے شیر دلیر بیٹے ہو اور تم نے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا اور اب ہم تمہاری وجہ سے پہچانے جائیں گے۔ خدا حافظ میرے لال میں نے تمھیں خداوندِذوالجلال کے سپرد کیا۔'
شہید کیپٹن سید حیدر عباس کی بے مثل شجاعت، بے لوث حب الوطنی، قیادت کے شاندار مظاہرے اور فرض کے لیے جان سے گزر جانے کے انمول جذبے کے اعتراف میں تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
تبصرے