2015میں شروع ہونے والے چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) منصوبہ کے تحت کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ کچھ پر کام جاری ہے۔ سی پیک کے اگلے مرحلے میں ایل ون کی اپ گریڈیشن،خصوصی اقتصادی زونز اور زراعت پر کام جاری ہے،سی پیک کی سکیورٹی میں پاک فوج کا کلیدی کردار ہے۔سی پیک کے ثمرات کے خلاف مغربی میڈیا پر منفی پراپیگنڈا منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ سی پیک پاکستان کے جنوب مغربی گوادر کی بندرگاہ کو شمال مغربی چین کے کاشغر (سنکیانگ )سے ملاتا ہے جس سے توانائی، نقل و حمل اور صنعتی شعبوں میں تعاون مضبوط ہو رہا ہے۔ سی پیک کا اعلان اس وقت کے چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ کے دورہ پاکستان کے موقع پر کیا گیا تھا اور اسے 2015 میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ پاکستان کے دوران ایک زبردست تقویت ملی ۔ منصوبے سے پاکستان کے مختلف شعبوں میں زبردست نتائج برآمد ہوئے ہیں۔سی پیک کی تکمیل میں پاکستان آرمی انتہائی مثبت کردار ادا کررہی ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر بروقت عملدرآمد اور انکی کامیابی کے لیے سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ سی پیک منصوبوں کی سکیورٹی کے لیے ایک خصوصی ڈویژن بھی قائم کیا گیا ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر ، مواصلات اور توانائی کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ فلاحی منصوبوں بالخصوص پسماندہ اور ترقی سے محروم علاقوں میں عوام کو ترقی کے عمل میں شامل کرنے میں بھی پاک فوج اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری21 ویں صدی کا اہم ترقیاتی اور سفارتی اقدام ہے،چین عالمی سطح پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبوں میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرچکا ہے اور40 ملین سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکال کر ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ۔
پاکستان اور چین تیسرے فریق کی شمولیت کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں، یعنی بہت سے غیر ملکی اداروں اور حکومتوں نے اس اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے۔ اس منصوبے کے ٹھوس فوائد نے پاکستان کے سماجی اقتصادی منظرنامے کو تبدیل کر دیا ہے اور اگلے مرحلے میں بہت کچھ سامنے آئے گا۔ سی پیک پاکستان اور خطے کی سماجی اقتصادی ترقی کے لیے نیا محرک بنے گا۔ سی پیک کھلی راہداری ہے اوردونوں ممالک کسی بھی تیسرے فریق کی شمولیت کا خیرمقدم کریں گے۔سی پیک نے دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعاون کو وسعت دی، پاکستان کی صنعتوں کو درآمدی پرزہ جات اسمبل کرنے سے لے کر پرزوں کی مقامی پیداوار تک فروغ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں توانائی کی بچت والی صنعتوں کی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے چینی کاروباری اداروں کی مختلف شکلوں کو پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ سی پیک نے کیمیکلز اور فارماسیوٹیکل، انجینئرنگ کے سامان، زراعت، مینوفیکچرنگ اور تعمیراتی مواد جیسے شعبوں میں صنعتی صلاحیت کے تعاون کو فروغ دیا ہے ۔ ترقیاتی عمل میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سی پیک چینی سرمایہ کاری اور امداد کے تعاون سے ملک میں ترقیاتی بیانیے کو اپ گریڈ کرکے طویل المدتی ترقی کے لیے مقامی بنیادی ڈھانچے کو جدید بنا رہا ہے۔
سی پیک کی ترقی پہلی دہائی میں اپنے پہلے مرحلے میں ان کامیابیوں کے بعدپاکستان نے ادائیگیوں کو سنبھالنے کی اپنی مالی صلاحیت کے مطابق سی پیک فریم ورک کے تحت چین کے ساتھ منصوبوں پر بات چیت کی ہے۔ دونوں ممالک اپنے تزویراتی تعلقات کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں جو خطے کی ترقی، امن اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہیں۔ سی پیک کا مذاکراتی فریم ورک چینی صدر شی جن پنگ کے حقیقی وژن کے تحت آتا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بی آر آئی کے تحت آگے بڑھنے والے تمام منصوبے مثبت نتائج پیدا کرنے کے لیے باہمی اور بامعنی مشاورت کی عکاسی کرتے ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو سے شروع ہونے والے پیغام سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور اپنے شراکت داروں کی ہمیشہ حمایت کرے گا جو موجودہ عالمی اقتصادی نظام کے تحت پہلے ہی مغربی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں۔
حکومت پاکستان نے کئی بار مغربی تھنک ٹینکس اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے نام نہاد قرضوں کے جال کے دعوؤں پر تبصرہ کرکے صورتحال کو واضح کیا ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ سی پیک کے بارے میں مغربی میڈیا کی رپورٹس غلط معلومات، مسخ شدہ حقائق اور افراد کی یک طرفہ رائے پر مبنی ہیں۔سی پیک مالیات کو حکومت سے حکومت کے قرضوں، سرمایہ کاری اور گرانٹس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر سیکٹر کو بلاسود یا سرکاری رعایتی قرضوں کے ذریعے ترقی دی جا رہی ہے۔ گوادر پورٹ گرانٹ یا سرمایہ کاری پر مبنی ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت پاکستان کو بندرگاہ کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی گئی رقم واپس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ توانائی کے منصوبے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)موڈ کے تحت چلائے جا رہے ہیں اور مالیات بنیادی طور پر نجی کمپنیاں چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور چائنا ایگزم بینک سے ان کی اپنی بیلنس شیٹ سے لیتی ہیں، لہٰذا، کوئی بھی قرض چینی سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستانی حکومت کی ذمہ داری سے لیا جاتا ہے ۔پاکستان نے سازگار مالیاتی انتظامات کی وجہ سے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری کا انتخاب کیا ہے۔ چین ایک ایسے وقت میں پاکستان کی ترقی میں مدد کے لیے آگے بڑھا جب غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہو چکی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں توانائی کی قلت اور بنیادی ڈھانچے کے خلا کی وجہ سے مفلوج ہو رہی تھیں۔ سی پیک قرضوں کی ادائیگی اور توانائی کے شعبے کے اخراج کے حوالے سے کوئی فوری بوجھ نہیں ڈال رہا ہے۔ پاکستانی معیشت کو اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہونے والے فوائد ان قرضوں سے کہیں زیادہ ہوں گے۔
سی پیک نے پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کرنے کے بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ اقتصادی ترقی کے لیے ایک انجن ہے اور اس سے پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں 2 سے 3 فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔اس نے توانائی، ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے اور سپلائی چین کی رکاوٹوں پر قابو پانے میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔ سی پیک کے تحت گوادر کی ترقی سے سمندری شعبے بالخصوص ساحلی سیاحت اور مقامی ماہی گیری کی صنعت کو تقویت ملے گی جس سے مقامی کمیونٹیز کو فائدہ پہنچے گا۔ پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ سی پیک کے لیے پوری طرح پرعزم ہے، جس پر پاکستان کے تمام اداروں اور سیاسی قوتوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے ہے۔ یہ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے مستقبل کی کلید ہے۔ پہلے سے منظور شدہ سی پیک فریم ورک کے وسیع پیرامیٹرز کے اندر موجودہ حکومت کی باہمی مشاورت سے چین سی پیک کو وسیع کر رہا ہے اور رفتار کو تیز کر رہا ہے۔ سی پیک میں تیسرے فریق کو شامل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار تیار کیا جا رہا ہے اور میگا پراجیکٹ کی اس جہت کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے ایک الگ ورکنگ گروپ قائم کیا جا رہا ہے۔ گوادر کو ترجیحی طور پر جاری رکھا گیا ہے اور اسے بلیو اکانومی کے اصولوں پر مبنی ایک اسٹینڈ اسٹون پروجیکٹ اور ٹرانس شپمنٹ حب کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔
مضمون نگار ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان(اے پی پی) کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے