• یاہوفنانس کی رپورٹ کے مطابق چندسال بعد پاکستان دنیا کی 16ویں بڑی معیشت بن جائیگا۔
• لنکڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت بھی دنیا کااکیسواں اثرورسوخ رکھنے والاملک ہے۔
• پاکستان چند دہائیوں میں جی 8 ممالک میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔
• چند سال بعد ہی ہم کئی پورپی ممالک اورجنوبی کوریاکوپیچھے چھوڑچکے ہوں گے۔
• ایک اورعالمی ادارے پی ڈبلیو سی کے مطابق 2050 میں پاکستان کی معیشت 3.3 ٹریلین امریکی ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔پاکستان کاجی ڈی پی 2.8 جبکہ فرانس،جرمنی اوربرطانیہ کاسالانہ گروتھ ریٹ پاکستان سے کم ہوگا۔
ایک بڑے سرچ انجن یاہوفنانس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان چند سال میں جی 20میں شامل ہوگا۔ 2070 میں دنیا کے معاشی طورپرطاقت ترین ممالک میں پاکستان 16ویں نمبرپرہوگا۔ہم بہت سے ترقی یافتہ یورپی ممالک اورجنوبی کوریا سے آگے نکل چکے ہوں گے۔یاہوفنانس نے اس کی وجہ پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کوبتایاہے۔ایک اورعالمی ادارے پی ڈبلیو سی کے مطابق 2050 میں پاکستان کی معیشت 3.3 ٹریلین امریکی ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔پاکستان کاجی ڈی پی 2.8 جبکہ فرانس،جرمنی اوربرطانیہ کاسالانہ گروتھ ریٹ پاکستان سے کم ہوگا۔
دنیا کے معاشی ماہرین اورمعروف ادارے اس بات کی پیش گوئی کرچکے ہیں کہ یہ صدی ایشیاکی صدی ہے۔ایشیائی ممالک خاص کر چین دنیا کی نئی معاشی قوت بن کرابھراہے۔پاکستان بھی 2030ء تک دس ار ب ڈالرسے زیادہ کی معیشت کے ساتھ دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا۔ ان بڑی معاشی طاقتوں کو جی 20 کے نام سے جاناجاتاہے۔ پاکستان کواس وقت دنیا کی 41ویں بڑی معیشت سمجھا جاتاہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان آبادی کے اعتبارسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک اور چوتھی بڑی جمہوریہ ہے۔ہمارے باصلاحیت نوجوان پاکستان کی قوت ہیں۔
لنکڈان پرایک عالمی ماہرمعاشیات مائیکل کی تحقیق کے مطابق پاکستان تمام ترمشکلات کے باوجود اس وقت دنیا کا21واں اہم ترین اوراثرورسوخ رکھنے والاملک ہے۔ پاکستان اگربحرانوں پرقابو پا لیتاہے تو چند دہائیوں میں جی 8 ممالک میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتاہے۔
ایک بڑے سرچ انجن یاہوفنانس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان چند سال میں جی 20میں شامل ہوگا۔ 2070 میں دنیا کے معاشی طورپرطاقت ترین ممالک میں پاکستان 16ویں نمبرپرہوگا۔ہم بہت سے ترقی یافتہ یورپی ممالک اورجنوبی کوریا سے آگے نکل چکے ہوں گے۔یاہوفنانس نے اس کی وجہ پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کوبتایاہے۔ایک اورعالمی ادارے پی ڈبلیو سی کے مطابق 2050 میں پاکستان کی معیشت 3.3 ٹریلین امریکی ڈالرز تک پہنچ جائے گی۔پاکستان کاجی ڈی پی 2.8 جبکہ فرانس،جرمنی اوربرطانیہ کاسالانہ گروتھ ریٹ پاکستان سے کم ہوگا۔
معروف امریکی سرمایہ کاری بینکنگ فرم گولڈمین کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان 2075 تک دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن سکتا ہے۔'دی پاتھ ٹو 75' کے عنوان سے یہ تحقیقی رپورٹ آنے والی دہائیوں اور 2075 تک عالمی معیشت کی حالت کی پیش گوئی کرتی ہے۔رپورٹ کے مطابق چین 2050 میں امریکا کو شکست دے کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں پاکستان بھی شامل ہوگا۔ یہ ایک بڑی اورحیران کردینے والی رپورٹ ہے جومفروضوں اورخواہشات پرمبنی نہیں بلکہ اعدادوشمار پرمشتمل ہے۔اس وقت تک پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی 12.7 ٹریلین ڈالر اور اس کی فی کس جی ڈی پی 27,100 ڈالر تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹس میں اس بات کوتسلیم کیاہے کہ معاشی اصلاحات اوردرست اقدامات کے باعث 2047 میں پاکستان ایک بڑی معیشت ہوگا اورایک بہت بڑی اپرمڈل کلاس ملک کومزید تیزی سے آگے لے جائے گی۔اس وقت کئی ممالک کی معیشت بدلتی عالمی صورتحال کے باعث منفی گروتھ میں ہے جبکہ ورلڈ بینک نے پاکستان کے بارے میں کہاہے کہ اس جاری معاشی سال میں پاکستانی معیشت 2.4فیصد سے ترقی کرے گی۔ہم جانتے ہیں کہ ہم مائنس میں بھی رہے ہیں لیکن اب مسلسل بہتری ہورہی ہے۔ظاہر ہے بے روزگاری یکسر ختم تونہیں ہوگی کچھ کم ضرور ہوجائے گی۔عالمی بینک نے اس بات کابھی اعتراف کیاہے کہ دنیا میں کرونا کے منفی اثرات اب بھی باقی ہیں جبکہ یوکرین جنگ نے بھی عالمی معیشت کومتاثرکیاہے۔
ہماری 25کروڑ کی آبادی، نوجوانوں کی بڑی تعداد اورمعدنی وسائل ہماری ترقی کاذریعہ بنیں گے۔دنیا جانتی ہے کہ 60کی دہائی میں پاکستان ایشیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت تھا۔مسلم ممالک کی سب سے بڑی طاقت۔دنیا ہماری طرف دیکھتی تھی،ہماری پالیسیوں سے سیکھتی تھی۔70 کی دہائی میں تجارتی ادارے قومیانے کے باعث معیشت کوبہت بڑا دھچکا لگا۔ سرمایہ کاروں نے اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل کرناشروع کردیا۔
یہ سوال ہم میں سے ہرشخص کے ذہن میں آتاہے کہ مستقبل میں دنیا کی عالمی طاقت یاطاقتیں کون ہوں گی؟ اس سوال کاجواب تلاش کرناکوئی مشکل نہیں،بس چند اعدادوشمار اورریاستوں کی پالیسیاں ہیں جن سے اس بات کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ چند سال میں کون ساملک کس پوزیشن پرہوگا۔چنددہائیوں پہلے ایک دورتھا جب دنیا میں صرف دوطاقتیں تھیں، ایک امریکہ اوردوسری سوویت یونین۔ہم نے دیکھا گورباچوف کے دورمیں سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیا اوردوسری عالمی طاقت روس معاشی مشکلات کاشکار ہوگیا۔ اس سے پہلے دنیا پربرطانیہ کاراج تھا،برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتاتھالیکن اب وہ ہی برطانیہ قصہ ماضی بنتاجارہاہے۔ چین چند دہائیوں پہلے عالمی منظرنامے میں کہیں نہیں تھا،بلکہ چالیس پچاس سال پہلے یہ کہاجاتاتھا کہ بہت بڑی آبادی کے باعث چین ترقی نہیں کرسکے گا،لیکن چینی رہنماؤں کے مدبرانہ اوردرست فیصلوں نے چند دہائیوں میں چین کوعالمی معاشی طاقت بنادیا۔فوجی اعتبارسے امریکہ آج بھی بڑی فوجی طاقت ہے،اب یہ چین کی پالیسیوں پرمنحصر ہے کہ وہ عالمی فوجی طاقت میں بھی امریکہ کی جگہ لیناچاہتاہے یانہیں۔ایک دور تھا امریکہ دنیا کے معاشی اورسیاسی فیصلے تنہالیتا تھا لیکن آج اسے یورپی ممالک کی مالی اورسیاسی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے لیے سب سے خوش آئند بات تویہ ہے کہ چین سے ہماری دوستی شہد سے میٹھی اورہمالیہ سے بلند ہے۔سی پیک گیم چینجرمنصوبہ ہے،چین اب تک اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکاہے اورمزیدمنصوبے جاری ہیں۔امریکہ سے تعلقات میں جوپیچیدگیاں اوراختلافات پیداہوئے تھے وہ اب دور ہورہے ہیں۔ عرب ممالک خاص کرسعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سے بھی ہمارے برادرانہ اوردوستانہ تعلقات ہیں۔سعودی عرب اوریواے ای پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔برطانیہ اوریورپی ممالک سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ایک اہم بات یہ کہ لاکھوں پاکستانی ان ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں،میرے کہنے کامقصد یہ ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں، ہمارے برادرانہ اوردوستانہ تعلقات بہت وسیع ہیں۔ ہمارے لیے ایک بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ہم اپنی مصنوعات امریکہ اوریورپی منڈی میں باآسانی بھیج سکتے ہیں،صرف ہمیں منصوبہ بندی اورمصنوعات کی کوالٹی بہتربنانے کی ضرورت ہے۔ ہم عالمی زبان انگلش سمجھتے ہیں،نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب چینی زبان سیکھنے پربھی توجہ دے رہی ہے۔ یہ سب ہمارا اثاثہ ہے۔ چین نے اپنی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے دنیا بھرسے انگلش زبان کے چالیس ہزار ماہرین چین بلائے تھے جنہوں نے چینی نوجوانوں، تاجروں اورصنعت کاروں کوانگریزی سکھائی تاکہ وہ امریکہ اوریورپی تاجروں سے بات چیت کرسکیں۔ہمارے لیے یہ رکاوٹ یالینگوئج بیر یئر بھی نہیں ہے۔عالمی تجارت میں اپناحصہ لینے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہی ہے کہ دنیا کی جودوسری طاقتیں ہیں آپ ان کے ساتھ مل کرچلیں۔چین کی پالیسی ہمارے سامنے ہے امریکہ اورچین میں اختلافات کے باوجود اربوں ڈالرکی تجارت ہورہی ہے اوریہ اس وقت بلند ترین سطح پرہے۔آج کی دنیا میں تمام ممالک کے ایک دوسرے سے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔میرے خیال میں آئندہ چند دہائیوں میں بہت سے ممالک عروج اورزوال کاشکارہوں گے۔
پاکستان کامعاشی مستقبل بہت روشن ہے۔ معاشی بحران پرقابو پانے کے بعد ترقی کاجوسفرشروع ہواہے وہ تیزی سے 5فیصد اورپھر 10 فیصدکی رفتارسے بڑھے گا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان کاجی ڈی پی 6.1 فیصد سے زیادہ اوربعض مالی سالوں میں سات فیصد بھی رہاہے۔حکومت کی پالیسیوں اورعالمی حالات کے باعث جی ڈی پی میں منفی اورمثبت تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ہم نے دنیا میں دوطاقتوں،ایک عالمی طاقت امریکہ کا(یونی پولر ورلڈ )مختصر دور دیکھا اب جو نیا دو رہے وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی طاقت کادور ہے۔ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کایہ دور حکومتوں یاکسی ملک کے کنٹرول میں نہیں ہوگا بلکہ یہ نجی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہوگا۔ہم گوگل کی طاقت دیکھ رہے ہیں، روس کے خلاف یوکرین میں اسٹارلنک محاذ جنگ پریوکرینی فوجیوں کی مدد کررہاہے۔امریکی ایوان نمائندگان نے ٹک ٹاک پرپابندی کابل منظورکرلیاہے۔امریکی حکام کو خدشہ ہے کہ چین کی ملکیتی کمپنی 17 کروڑ امریکی صارفین کے ڈیٹا کا غلط استعمال کر سکتی ہے جس سے امریکی قومی سلامتی کے لیے بھی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔پہلے دوسرے ممالک اوراس کے اداروں پرپابندیاں لگتی تھیں لیکن اب ٹیکنالوجی کمپنیوں پربھی پابندیاں لگ رہی ہیں۔شاید آپ کے لیے یہ بہت حیرت کاباعث ہوکہ گوگل،یوٹیوب اورفیس بک پاکستان سے اربوں روپے کمارہے ہیں۔جواشتہارت پہلے پاکستانی اخبارات اورنیوزچینلز کوملتے تھے اب ان کاایک بڑا حصہ سوشل میڈیا اورسرچ انجنز کوچلاجاتاہے۔ پاکستان کی بہت سے کمپنیاں اورسافٹ وئیر ہاؤ سز دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ پہلے جدید سے جدید اورمہلک سے مہلک ہتھیاربنانے کی دوڑتھی تواب جدیدسے جدید سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنانے کادور ہے۔یہ دور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کادور ہے۔ہمیں اس کے لیے خود کوتیارکرناہے۔انٹرنیٹ ایجاد ہواتوہم اس کی طاقت کاصحیح اندازہ نہیں لگاسکے اورپیچھے رہ گئے لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے دورمیں ہمیں اپنی صلاحیتوں کامطاہرہ کرتے ہوئے اس کی ترقی میں اپناحصہ ڈالناہے۔ہم نوجوان صرف اے آئی استعمال نہ کریں بلکہ اس ٹیکنالوجی میں نئی راہیں تلاش کرکے دنیا کی رہنمائی کرنیوالے بنیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مڈل کلاس یامتوسط طبقے کی تعداد 3کروڑ کے قریب ہے۔یہ متوسط طبقہ پاکستان کی سیاست،معیشت اورسماجی شعبے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ پرانی اپرمڈل کلاس کے مقابلے میں پڑھی لکھی نیواپرمڈل کلاس صنعت وتجارت پرتوجہ دے رہی ہے۔اپنے کاروبار کوعالمی مارکیٹ میں پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔یہ وہ کلاس ہے جوبہترزندگی گزار رہی ہے اورمہنگی چیزیں خریدنے کی سکت رکھتی ہے۔پاکستانی امراء کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ آپ صرف چند بڑے شہروں کراچی،لاہور،اسلام آ باد، راولپنڈی،فیصل آباد کی مثال لے لیں۔ان شہروں میں کئی ہزار پوش رہائشی کالونیاں ہیں۔ جہاں ایک عام گھر کی قیمت پانچ سے دس کروڑ روپے ہے۔اب اگراس قیمت کا یورپ اورامریکہ کی بعض رہائشی کالونیوں سے مقابلہ کریں تویہ قیمت ان کی قوت خریدسے بھی زیادہ ہے۔
مَیں اور صنعت کاراوربرآمد کنندگان اپنی تجاویز دیتے رہتے ہیں۔کئی کمیٹیاں بھی کام کررہی ہیں۔ان تمام ترپالیسیوں کودیکھتے ہوئے یہ پیشن گوئی ضرورکی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹ میں بھی آئندہ چند سال میں نمایاں اضافہ ہوگا۔امپورٹ کم ہوجائے گی۔زراعت پرخصوصی توجہ دینے کے باعث زرعی پیداوار بھی بڑھے گی ۔امید ہے ہمیں اس سال گندم، چینی اوردیگراجناس درآمد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ توانائی کے بحران پربہت حد تک قابوپالیاگیا ہے اب اگلا مرحلہ توانائی کے حصول کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کاہے،تاکہ عام آدمی کوبھی ریلیف ملے اورمختلف مصنوعات کی پیداواری لاگت کوبھی کم کیاجاسکے۔
پاکستان میں اس وقت دنیا کے چند بڑے شہر آباد ہیں۔ہمارے دوبڑے شہروں کراچی اورلاہورکی آبادی ڈیڑھ سے دوکروڑکے لگ بھگ ہے۔ان دونوں شہروں کا شمار دنیا کے پچیس میگا شہروں میں ہوتا ہے۔پاکستان کے تقریباً 20 شہر ایسے ہیں جن کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ اسلام آباد کی خوبصورتی اورمنصوبہ بندی کی دنیا بھرمیں تعریف کی جاتی ہے۔ لاہور، راولپنڈی،گوادریاکہہ لیں کراچی کے سمندرسے لے کر دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں سے ہوتاہوا پاک چین بارڈر تک شاہراؤں کاایک شاندار نظام موجود ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے یہ انفراسٹرکچرریڑھ کی ہڈی کاکردار ادا کرتاہے۔ چند ہفتے پہلے سوئٹزرلینڈسے آئے ایک نوجوان نے برملااس بات کااعتراف کیاکہ پاکستان کی سڑکیں روس اورکئی یورپی ممالک سے بہترہیں۔یہ نوجوان ہنزہ اوراسکردو کی سیر کرکے لاہورآیا اورچند دن شہرکے ایک فائیوسٹارہوٹل میں گزارے، اس نوجوان نے اس بات کااعتراف کیاکہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اس کے اپنے ملک سوئٹزلینڈ سے زیادہ خوبصورت اورقدرت کے قریب ہیں۔ اسی طرح اگر لاہور، اسلام آباد اورکراچی کے رہائشی علاقوں کاترقی یافتہ ممالک کے بعض رہائشی علاقوں سے موازنہ کیاجائے توہماری کئی رہائشی کالونیاںان ممالک کی رہاشی کالونیوں سے بہترہیں۔ ملکوں کامستقبل صنعت وتجارت کے ساتھ ساتھ شہروں سے وابستہ ہے۔شہروں کی بڑھتی ہوئی آ بادی کوبنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔صرف لاہور کی بات کریں توروڈا یعنی راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی دریائے راوی کے کنارے ایک نیاشہرآباد کررہی ہے۔جس پرتعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے۔ یہ نیا شہر بلندوبالاعمارات اورجدیدترین فن تعمیر کانمونہ ہوگا۔ لاہور کوانفارمیشن ٹیکنالوجی کاشہر بنانے کے منصوبے پربھی کام جاری ہے۔اسی طرح دوسروں شہروں خاص کرکراچی اوراسلام آباد میں بہت سے بڑے منصوبوں پرکام ہورہاہے۔
ہمارے بعض سرمایہ کاروں نے ماضی میں نئی فیکٹریاں اورکارخانے لگانے کی بجائے فوری منافع کے لیے رئیل اسٹیٹ میں اربوں، کھربوں روپے انویسٹ کیے۔آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹس میں اس کی نشاندہی کی ہے۔ہم نے اپنی ان غلطیوں سے سیکھاہے اوراب ایسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں کہ سرمایہ کار خالی پلاٹوں اورفائلوں پرسرمایہ کاری کرنے کی بجائے کارخانے لگائیں۔ خود بھی کمائیں اوردوسروں کوبھی روزگارفراہم کریں اورٹیکس ادا کرکے ملک کی ترقی میں اپناکردار ادا کریں۔پاکستان کے اندربے پناہ پوٹینشل ہے۔پاکستان آج بھی کئی مصنوعات میں دنیا کے بڑے ایکسپورٹرمیں شامل ہے مثلاً فٹ بال میں دنیا کاسب سے بڑا ایکسپورٹرپاکستان ہے۔ فٹ بال بنانے اورفروخت کرنے میں ہم نمبرون ہیں۔اسی طرح دوسری بہت سی پراڈکٹس ہیں۔ انٹرنیٹ یوزرکے اعتبارسے وکی پیڈیا کے مطابق پاکستان دنیا میں پانچویں نمبرپرہے۔ دنیا کاسب سے بڑا ایمبولنس کانظام بھی پاکستان میں ہے۔ایدھی ،چھیپااوربعض دوسری این جی اوز انسانیت کے لیے جوکام کررہے ہیںپوری دنیانے اس کااعتراف کیاہے۔پاکستان کامستقبل روشن ہے۔نوجوانوں کوناامید ہونے کی بجائے تمام توجہ اپنی مہارتوں کوبڑھانے پرمرکوزکرنی چاہیے۔عالمی بینک،آئی ایم ایف اورایشیائی ترقیاتی بنک سمیت تمام عالمی ادارے پاکستان کی پالیسیوں پراعتماد کااظہارکرچکے ہیں۔ معاشی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ پاکستان آئندہ چند سال میں ہی جی 20 ممالک میں شامل ہوجائے گاجوہماری لیے ایک اچھی خبرہے۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے