ایک دکاندارجلیبیاں بیچتے ہوئے آوازلگا رہا تھا: ’’آلو لے لو،آلو؟‘‘
ایک راہ گیر نے پوچھا : ’’یہ توجلیبیاں ہیں ، آلو کیوںکہہ رہے ہیں۔‘‘
دکاندار : ’’آہستہ بولیے، دراصل میں مکھیوں کو دھوکا دے رہا ہوں۔ ‘‘
........
بچہ :’’ ابوجان! آپ نے جو گلا ب کی قلم لگائی تھی ، اسے ایک ہفتہ ہو گیا ہے لیکن اب تک اس کی جڑیں نہیں نکلیں۔‘‘
ابو جان: ’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کی جڑیں نہیں نکلیں؟‘‘
بچہ: ’’میں اسے روزانہ اکھاڑکرجو دیکھتا ہوں۔‘‘
........
استاد(شاگردسے):’’ بتائو! وہ کون سے تین الفاظ ہیں جو طالب علم اکثر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
شاگرد :’’میں نہیں جانتا ۔‘‘
استاد : ’’بالکل ٹھیک، شاباش ۔‘‘
........
استاد (شاگرد سے):’’ سردی کے موسم میں چیزیں سکڑتی ہیں ، گرمی کے موسم میں چیزیں پھیلنے لگتی ہیں، یہ ایک معروف سائنسی عمل ہے۔ عام زندگی میں موجو د ایسی ہی کوئی دوسری اچھی مثال پیش کرو۔‘‘
شاگرد:’’جناب! گرمی کے موسم میں چھٹیاں پھیل کر دو ماہ کی ہو جاتی ہیں اور سردی میں سکڑ کر دس دن کی رہ جاتی ہیں۔‘‘
........
استاد (شاگرد سے):’’بتائو! چائے پینا مفید ہے یا مضر؟‘‘
شاگرد: ’’جناب! اگر چائے دوست پلائے تو مفید ہے، اگر اپنے پیسے سے خرید کر پینی پڑے تو مضر ہے۔‘‘
........
ایک دوست (دوسرے دوست سے): ’’شاباش !تم نے ڈوبتے ہوئے دوست کی جان بچا کر بڑی ہی بہادری کا کارنامہ انجام دیا ہے۔‘‘
دوسرا دوست: ’’وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن یہ تو بتائو ، مجھے دریا میں دھکا کس نے دیا تھا؟‘‘
........
استاد (شاگرد سے): ’’ کھڑے ہو جائو اور ’یاد ‘ کا جملہ بنائو۔‘‘
شاگرد : ’’مجھے آج کوئی بھی سبق یاد نہیں ۔‘‘
........
ایک بچہ بارش میں چھتری کو بغل میں دبائے جا رہا تھا کہ ایک آدمی نے اسے روک کر پوچھا:’’بیٹا! چھتری کھول کیوں نہیں لیتے؟‘‘
بچہ: ’’انکل، کیسے چھتری کھول لوں، یہ بارش میں بھیگ جائے گی۔ ‘‘
........
استاد (شاگرد سے): ’’گنجان آباد کا مطلب بتائو؟‘‘
شاگرد: سر! جہاں بہت سے گنجے آباد ہوں۔‘‘
........
باپ (بیٹے سے):’’بیٹا!کیا آپ کے سالانہ امتحانات ختم ہو گئے؟‘‘
بیٹا:’’ جی اباجان!رزلٹ بھی آ گیا۔ ‘‘
باپ: ’’تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘
بچہ: ’’اس لیے کہ نئے کورس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔‘‘
تبصرے