6 اپریل... کھیلوں کا عالمی دن تھا۔ اس موقع پر علی کے اسکول کی طرف سے مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے گئے تھے۔ جن طلبا نے ان مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے ناموں کا اندراج کروایا تھا انہیں ایک ہفتہ قبل ہی تیاری شروع کروائی جا چکی تھی۔
علی نے دَوڑ کے مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ یہ کسی بھی کھیل کے مقابلے میںاس کی پہلی شرکت تھی۔
علی نے سوچا، ’’دوڑنا ہی تو ہے.. یہ آسان ہوگا... میں تیز دوڑوں گا اور مقابلہ جیت جائوں گا!...‘‘
لیکن اسکول کے میدان میں مشق کے دوران اسے اندازہ ہوا کہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔ علی کے فارغ وقت کا زیادہ تر حصہ موبائل فون پر گیمز کھیل کر یا کمپیوٹر پر کارٹون دیکھ کر گزرتا تھا۔ اس کی زندگی میں جسمانی کھیل نام کی کوئی چیز شامل ہی نہیں تھی۔
علی دوڑنے کا عادی نہیں تھا لہٰذا مشق کے دوران اس کا جلد تھک جانا اور سانس پھولنا وغیرہ ایک عام بات تھی۔ آج مقابلے کی تیاری کا دوسرا دن تھا جبکہ بڑے مقابلے میں ابھی چار روز باقی تھے۔
مشق کے دوران علی سب سے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ وہ مایوس اور افسردہ تھا۔ اسکول کی چھٹی کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اس کے چہرے پر موجود نقاہت اور پریشانی کو سب نے محسوس کر لیا۔
ابو کے پوچھنے پر علی نے بتایا، ’’ابو! کھیلوں کے عالمی دن پر ہمارے اسکول میں کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جارہے ہیں جن میں ہمارے علاوہ مختلف اسکولوں کے بچے بھی شرکت کریں گے۔ اسی لیے ان کے لیے شہر کے سب سے بڑے کھیلوں کے میدان کا انتخاب کیا گیا ہے۔شہر کے میئر اس پروگرام کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اوّل، دوم اور سوم آنے والے کھلاڑیوں کو انعامی رقم اور اعزازی شیلڈز دی جائیں گی۔‘‘
’’اچھی بات ہے!‘‘ ابو بولے ’’لیکن تمہاری پریشانی کی وجہ کیا ہے؟‘‘
’’ابو! میں نے دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیا ہے لیکن مشق کے دوران میری کارکردگی صفر رہی۔ اسپورٹس ٹیچر نے کہا ہے کہ اگر انہیں دو روز میں کوئی بہتری دکھائی نہ دی تو وہ کھلاڑیوں کی فہرست سے میرا نام خارج کر دیں گے۔‘‘ علی نے اُداسی سے جواب دیا۔
علی کی بات سن کر اس کے ابو کسی سوچ میں پڑ گئے۔ وہ سوچنے لگے کہ انہوں نے کبھی بچوں کو آئوٹ ڈور گیمز کھیلنے کی تلقین نہیں کی اور نہ ہی انہیں کھیلوں کی اہمیت کے بارے میں کبھی کچھ بتایا۔
ابوکو اپنی غلطی کا احساس ہواتو انہوں نے علی کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا، ’’علی بیٹا! تم بالکل پریشان نہ ہونا، ہم آج ہی قریبی میدان میں چلیں گے، تم وہاں دوڑنے کی خوب مشق کرنا۔‘‘
علی روزانہ شام کے وقت میدان میں دوڑنے کی مشق کرتا۔ وہ ہرروز ایک گھنٹہ دوڑتا اور اپنی سانسیں درست رکھنے کی کوشش کرتا۔اس دوران اس کے ابو اس کی ہمت بڑھاتے رہتے۔ چوتھے ہی روز اسپورٹس ٹیچر کو علی کی کارکردگی میں بہتری محسوس ہونے لگی اور انہوں نے بڑے مقابلے کے لیے اس کا حتمی انتخاب کر لیا ۔
آخر کار6 اپریل یعنی مقابلے کا دن آ پہنچا۔ علی پُرجوش تھا لیکن تھوڑا سا گھبرایا ہوا بھی ۔ بہت سے بچے اس مقابلے میں شریک تھے۔ مقابلہ شروع ہوا تو ابتدا میں علی پانچویں نمبر پر دوڑ رہا تھا۔ پھر وہ چوتھے نمبر پرپہنچ گیا۔
مقابلہ بہت سخت تھا، علی کی روزانہ کی مشق نے اس کی کارکردگی کو بڑھا دیا تھا، اس نے تھکے بنا تیز دوڑنے کی کوشش کی اور آخر کار تیسرے نمبر پردوڑنے لگا۔اس سے پہلے کہ وہ دوسرے نمبر پر پہنچتا، مقابلہ ختم ہوچکا تھا۔ نتیجے کا اعلان ہوا تو علی مقابلے میں تیسرے نمبر پر تھا۔ میئر صاحب نے پہلا، دوسرا اور تیسرا نمبر حاصل کرنے والے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔
علی کے والدین بہت خوش تھے لیکن علی زیادہ خوش دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ابو نے سمجھایا کہ یہ اس کا پہلا مقابلہ تھا اگر وہ اسی طرح محنت اور مشق کرتا رہا تو یقیناَ اگلی بار پہلا نمبر بھی لے سکتا ہے۔
اس موقع پر مہمان خصوصی نے ایک مختصر تقریر بھی کی۔ انہوں نے طلبا کو نصیحت کی کہ وہ پڑھائی کے ساتھ کسی ایک کھیل کو اپنی عادت بنائیں۔ کوئی ایسا کھیل جس میں جسمانی مشقت بھی شامل ہو۔کھیل سے انسانی جسم اور دماغ دونوں پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کھیل میں ہونے والی ہار اور جیت انسان میں صبر اور برداشت پیدا کرتے ہیں اور اسے آگے بڑھنے اور پہلے سے اچھی کارکردگی پر اُبھارتے ہیں۔ موبائل فون اور کمپیوٹر کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ان کی وجہ سے کھیلوں کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے بعد علی نے پڑھائی اور کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ آئوٹ ڈورگیمزکو بھی اپنی عادت کا حصہ بنا لیا ۔ وہ روزانہ شام کے وقت میدان میں جاتا اور اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ اور دیگر کھیل کھیلتا ۔اس طرح وہ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے کافی چست اور توانا بن گیا۔ تو دیکھا بچو ! آئوٹ ڈور کھیل کود ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں۔ اگر ہم روزانہ آئوٹ ڈور سرگرمیوں میں حصہ لیں تو ہم اپنی صحت کوبہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی کارکردگی میں بھی اضافہ کرسکتے ہیں۔
تبصرے