وہ تینوں دوست باغ میں شام کی سیر کرنے آئے تھے۔ اٹھکیلیاں کرتے، باتیں بھگارتے اور قہقہے لگاتے وہ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
’’بس اب اور نہیں بھاگا جاتا۔‘‘ بھاگ بھاگ کر زاویار تھک چکا تھا اس لیے ایک درخت کے پاس رُک کر ہانپنے لگا۔
’’کیا بات ہےبھئی! ابھی سے تھک گئے؟‘‘ زوہیب بولا۔
’’آج اس کی طبیعت خراب ہے اس لیے تھوڑا سست ہورہا ہے ورنہ تو یہ ہم دونوں سے تیز بھاگتا ہے۔امی اسے باہر آنے نہیں دے رہی تھیں۔مگر اس کی ضد کے سامنے انہیں ماننا ہی پڑا۔‘‘حسنین اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے بولا۔
زاویار اور حسنین دونوں بھائی تھے، حسنین بڑا اور زاویار چھوٹا تھا جبکہ زوہیب ان کا ہمسایہ تھا اور عمر میں ان دونوں سے بڑا تھا۔ تینوں میں گہری دوستی تھی۔ایک ہی سکول میں پڑھتےتھے اورپھر شام کو بھی قریبی باغ میں اکٹھے ہی کھیلنے جاتے۔
تینوںشرارتی تھے مگر ان میں ایک اچھی عادت یہ تھی کہ وہ صلح جُو تھے ، ہر شے مل بانٹ کر کھاتے اور مشکل میں ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔
’’ارے ! تمہیں تو واقعی بخار ہو رہا ہے، اتنی سردی میں تمہیں گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ ویسےڈاکٹر کو دکھایاکہ نہیں؟‘‘ زوہیب نے اس کے ماتھے کو ہاتھ لگاتے ہوئے پریشانی کا اظہار کیا۔
’’جی بھائی! ڈاکٹر انکل نے مجھے دوائی دی ہے۔‘‘ زاویار نے بتایا۔
’’ہاں! جسے آپ الماری میں رکھ آئے اور کھانے کا بھی کوئی ارادہ نہیں۔‘‘ حسنین جلدی سے بولا۔
’’کیا مطلب، تم نے ابھی تک دوائی نہیں کھائی؟‘‘ زوہیب نے چونک کر پوچھا۔
’’نہیں!‘‘ زاویارکے چہرے پر نقاہت تھی۔
’’زوہیب بھائی! پتا ہے آج امی اس سے دو دفعہ خفا ہوئیں۔ ایک دفعہ صبح جب یہ ناشتہ کیے بغیر ہی سکول چلا گیا کیونکہ وہاں اسے برگر کھانا تھا۔ اس کی طبیعت خراب تھی،اس کے باوجود اس نے صبح کچھ نہیں کھایا، حتیٰ کہ پانی تک نہیں پیا تھا۔ دوسری دفعہ جب اس نے ڈاکٹر انکل کے پاس جانے سے انکارکردیا اوراب دوائی بھی نہیں کھائی۔ آج کل تھوڑا ضدی سا بھی ہے۔ ‘‘ حسنین نے شرارتی اندازمیں کہا۔
’’ارے ،یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ زاویار! تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ تم نے اپنی امی کی بات نہیں مانی، حیرت ہورہی ہے مجھے۔ والدین کا کہا مانناتو ہم سب کا فرض ہے۔ والدین ہی نہیںبلکہ ان تمام لوگوں کا بھی جو ہمارے بزرگ ہیں اور ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کی باتوں پر عمل کریں اور ان کا حکم بجا لائیں۔’’ زوہیب محبت بھرے انداز میں اسے سمجھانے لگا۔
’’سوری بھائی!‘‘ زاویار کی آواز دبی دبی تھی۔
’’اچھا! یہ تو بتائو کہ واقعی برگر کھانے کے لیے تم نے صبح ناشتہ نہیں کیا تھا؟‘‘ زوہیب نے استفسار کیا۔
’’جی، یہی وجہ تھی۔‘‘ زاویار کا سر جھکا ہوا تھا۔
’’اور ڈاکٹر کے پاس کیوں نہیں جارہے تھے؟‘‘
’’کیونکہ وہ ٹیکالگا دیتا ہے۔‘‘
’’پھر تم نے دوائی بھی نہیں کھائی؟‘‘
’’دوائی کڑوی ہے۔‘‘ زاویار کا جواب سن کر زوہیب نے گہری سانس لی اوربولا:’’یار!برگر اور ٹھنڈی بوتل پینے سے ہی تمہارا گلا خراب ہوا ہے جو بگڑ کر اب بخار کی صورت میں نمایاں ہے۔ تم جانتے ہو کہ ہمارے امتحانات قریب ہیں، اگر ان دنوں صحت خراب ہوگئی تو اس کا کتنا برا انجام ہوسکتا ہے۔کیا تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے...‘‘ زوہیب کے سمجھانے پر زاویار کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا ۔’’واقعی بھائی! مجھے اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اگر چند دن ان چیزوں سے پرہیز کرلیتااور دوائی وقت پر لے لیتا تو جلد ٹھیک ہو جاتا۔ میں نے امی جان کی باتوں کی پروانہیں کی۔ مجھے ان سے فوراَ معافی مانگنی چاہیے۔‘‘ زاویار یہ کہہ کر ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا۔
گھر پہنچتے ہی وہ امی کو پکارنے لگا۔امی کچن میں اپنے کام میں مصروف تھیں۔وہ ان کے پاس وہیں پہنچ گیا،’’امی مجھے معاف کردیں۔اب میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔ برگر اور کوئی بھی فاسٹ فوڈ نہیں کھاؤں گا۔ آج میں آپ کے ہاتھ کا بناکھانا ہی کھاؤں گا اور سکول لنچ بھی آپ اپنے ہاتھ سے بنا کردیں گی۔ ‘‘ زاویار نے امی کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’جی بیٹا! آپ جو چیز کہیں گے میں اپنے ہاتھ سے بناکر دوں گی۔ ویسے یہ کس کی صحبت کا اثر ہے جو آپ کو اتنی جلدی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔‘‘ امی نے شفقت سے زاویار کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’زوہیب بھائی کی۔‘‘ زاویار اور حسنین ایک ساتھ بولےتو امی مسکرادیں۔ ان کی نظر زوہیب پر پڑی۔ چھوٹی سی عمر کا یہ لڑکا واقعی بہت سمجھدار تھا۔
پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ فاسٹ فوڈکا زیادہ استعمال ہماری صحت کو خراب کرسکتا ہے۔ اس لیے اسے کم سے کم استعمال کریں۔ گھر میں پکا کھانا مزیدار بھی ہوتا ہے اور صحت بخش بھی۔
تبصرے