چچاجان لائبریری میں بیٹھے مطالعے میں مصروف تھے۔اسی دوران زینب اورطاہران کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ چچا جان نے عینک اُتار کر کتاب کو ایک طرف رکھا اور مسکراتے ہوئے بولے:
’’لگتا ہے کہانی سننے آئے ہیں آپ...‘‘
’’ جی... چچا جان!‘‘دونوں بیک وقت بولے۔
’’تو پھرآج میں آپ کو حضرت شیخ سعدی ؒ کے بارے میں بتاؤں گا۔جس کتاب کا میں ابھی مطالعہ کررہا تھا یہ انہی کی حکایات کا مجموعہ ہے۔کیا آپ دونوں میں سے کسی نے اُن کے بارے میں سن رکھا ہے؟‘‘
’’جی چچا! میں جانتا ہوں۔ میری اُردو کی کتاب میںحضرت شیخ سعدیؒ پر پورا ایک مضمون موجود ہے۔‘‘طاہر جلدی سے بولا۔
’’اچھا! تو جلدی سے بتادیجیے کہ اس میں شیخ سعدیؒ کے بارے میں کیا لکھا ہے...؟‘‘ چچا جان نے پیار بھرے انداز سے پوچھا۔
’’حضرت شیخ سعدیؒ ایک معروف صوفی اور فلسفی شاعرتھے۔وہ ایران کے شہر شیراز میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام عبد اللہ تھا۔‘‘طاہرنےاپنے ذہن پر زورڈالتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھی شیخ سعدی ؒکے بارے میں چند معلومات بتائیں۔اسی دوران زینب اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی،’’میں بھی حضرت شیخ سعدیؒ کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہوں۔‘‘
زینب نے طاہر کی بات کاٹی تو اس نے چچا جان کی طرف شکایت بھرے انداز سے دیکھا۔ چچا جان نے زینب کو سمجھایا کہ جب کوئی بات کررہا ہو تواسے نہیں ٹوکتے بلکہ بات مکمل ہونے کا انتظارکرتے ہیں۔‘‘چچا جان کے سمجھانے پر زینب نے معذرت کی۔
’’شاباش! اب بتائیں کہ آپ شیخ سعدیؒ کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟‘‘ چچاجان نے زینب سے پوچھا۔
’’میری کتاب میں لکھا ہے کہ شیخ سعدی ؒنے اپنی تعلیم بغداد میں حاصل کی۔ انہوں نے بے شمار ملکوں کی سیاحت کی۔ انہیں فارسی کے ساتھ ساتھ عربی پر بھی عبور تھا۔‘‘
’’بس...‘‘
’’ میری کتاب میں تو اُن کے بارے میں اَور بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر ابھی مجھے اتنا ہی یاد ہے۔ ‘‘چچا جان زینب کی بات پر مسکرا دیئے۔
’’چلیں!اب میں ان کے بارے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ بچو! شیخ سعدی ؒکی دو کتابیں بوستان اور گلستان علم و حکمت کا سمندر ہیں۔ان میں اشعار کی صورت میں ان کی حکایات درج ہیں جو زندگی کی بہت سی حقیقتوںسےپردہ اُٹھاتی ہیں۔وہ اتنی دلچسپ اور سبق آموزہیں کہ اُن پر عمل کرکے ہم اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ ‘‘چچانےیہ کہتے ہوئے کتاب اُٹھائی جس پر ’بوستان ِ سعدی ‘ لکھا ہوا تھا۔چچاجان کچھ دیر اس کے صفحات پلٹتے رہے پھر ایک جگہ رُک کر بولے ، ’’چلو ،آج میں آپ کو بوستان میں موجود ’ایک درویش اور لومڑی ‘ کا قصہ سناتا ہوں۔‘‘
قصہ یوں ہے کہ ایک درویش ایک جنگل میں سفر کررہا تھا۔اس کی نظر ایک لومڑی پر پڑی جو لنگڑا کر بڑی مشکل سے چل رہی تھی۔ درویش اس کی بے بسی پر سوچنے لگا کہ یہ شکار کرنے کے قابل نہیں رہی تو پھر اپنے رزق کا انتظام کیسے کرتی ہوگی؟
اسی تجسس میں وہ وہاں بیٹھ گیا۔کیا دیکھتا ہے کہ ایک شیر منہ میں گوشت کا ایک ٹکڑا اُٹھائے آرہا ہے۔ اس نے اس کا کچھ حصہ خود کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔جسے بعد میں لومڑی نے کھا لیا۔
درویش اس معاملے پربہت حیران ہوا۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کچھ دن مزید وہاں رہ کردیکھے گا کہ آخر لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرتی ہے؟
دوسری بار بھی ایسا ہی ہواکہ وہی شیروہاں گوشت رکھ کر چلا گیا، جس سے لومڑی نے اپنی بھوک مٹائی۔
یہ دیکھ کر درویش سمجھ گیا کہ رزق کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ جب رزق کا انتظام اللہ تعالی کی طرف سے ہے تو بھلا وہ اتنی محنت کیوں کرتا ہے؟لہٰذا اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے رزق کے لیے کچھ نہیں کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ اس لومڑی کی طرح اس کےرزق کا انتظام بھی کردے گا۔
یہی سوچ کر وہ اپنے ٹھکانے میں اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اس نے بہت انتظار کیا مگر اسے کھانا نہ ملا۔حتیٰ کہ فاقہ کی نوبت آ گئی۔ آخر جب صبرکے تمام بندھن ٹوٹ گئے تو اسے ایک آواز آئی،
’برو شیر درندہ باش، ای دغل
مینداز خود را چو روباہ شل‘
بچو!اس کا مطلب ہے ... اے مکار اور سست آدمی۔ جاؤ اور ایک شیر کی طرح شکار(محنت) کرو اور خود کو اپاہج لومڑی نہ بنائو (جو کمزوری کی وجہ سے دوسروں کے بچے کچے کی محتاج ہے۔)
’’بچو!دیکھا آپ نے شیخ سعدی ؒ نے کس عمدہ انداز سے نصیحت کی ہے کہ کسی بھی معاملے میں دوسروں کا محتاج رہنے کے بجائے اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے اوراس سلسلے میں کبھی بھی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ سُستی اور کمزوری دوسروں کا محتاج کردیتی ہے۔‘‘
چچا جان کی بات ختم ہوئی تو طاہر بولا: ’’چچا جان ! اس سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے مگر ہمیں اس کے لیے محنت کرنی چاہیےاور دوسروں کی مددبھی کرنی چاہیے۔ ‘‘
’’بالکل بیٹا!آپ ٹھیک سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کو محنت کرنے والے اور دوسروں کی مددکرنے والے لوگ بہت پسند ہیں۔‘‘ چچاجان نے ان دونوں کو شاباش دی اور کتاب بند کردی۔ آج حضرت شیخ سعدیؒ کی حکایت کے ذریعے ان دونوں نے زندگی کا ایک اہم سبق سیکھا تھا۔
تبصرے