اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 17:04
Advertisements

ہلال کڈز اردو

پانی ایک نعمت 

مارچ 2024

اتوار کادن تھا۔احمد معمول کے مطابق ہر چھٹی والے دن کی طرح آج  بھی اپنی سائیکل دھونا ضروری سمجھتا تھا۔اس کی دیکھا دیکھی ایفاء بھی اپنی تین پہیوں والی سائیکل باہرلے آئی اور احمد بھائی کی تقلید کرتے ہوئےاسے دھونے لگی۔ 
احمد نے مسکرا کر اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا اور شرارت سے پانی کا پائپ  اس کی جانب موڑ دیا۔ اس سےپہلے کہ پائپ سےنکلتی پانی کی دھار ایفاء تک پہنچتی، وہ پھرتی سے بھاگ گئی۔ احمد بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ پائپ سے نکلتا پانی تیزی سےکچے صحن کی مٹی کو تَر کرتا رہا۔ صحن میں مٹی کی گیلی خوشبو   پھیلنے لگی۔ اس شور شرابے سے احمد کی امی باہر نکل آئیں اور ہر چیز پانی سے  جل تھل دیکھ کر ان کی تو جیسے سانس ہی رک گئی۔ 
’’احمد!... ایفاء!پانی بند کریں ،ابھی اسی وقت۔‘‘ دونوں بہن بھائی اپنی امی کی زوردار آواز پر ایکدم ساکت سےہوگئے۔ ایفاء تو وہیں سہم کر امّی کی طرف دیکھنے لگی جبکہ احمد بھاگ کر نلکا بند کر آیا۔ پانی کے پریشر سے بپھرتا پائپ ایکدم سےبےجان ہوگیا۔ 
’’پانی جیسی نعمت کی ایسی بےقدری! ایسا کیسے کرسکتے ہیں آپ ؟‘‘ امی کی آواز میں اب غصہ کم اور رَنج زیادہ تھا۔ 
’’امی! ہم تو بس کھیل رہے تھے۔‘‘ احمد منمنایا اور ایفاء بھی اس کی حمایت میں سر ہلانے لگی۔ 
’’بس کھیل رہے تھے؟ ٹھیک ہے۔ آج سارا دن آپ لوگوں کو صرف اس ایک بوتل پانی میں گزارا کرنا ہے۔ شام کو میں آپ سے بات کرتی ہوں۔“ امی نے پانی کی چھوٹی سی بوتل ان دونوں کی جانب بڑھائی اور اندر چلی گئیں۔ 
’’اتنی چھوٹی سی بوتل! اور وہ بھی ہم دونوں کے بیچ؟ ہمیں تو اس بھاگ دوڑ سے ویسے ہی بہت پیاس لگی ہے اور ابھی تو ہماری سائیکلوں پر بھی سرف لگا ہوا ہے ۔ اس کے لیے بھی تو پانی چاہیے۔‘‘ ایفاءکے چہرے پرپریشانی نے ڈیرہ جمالیا۔ 
’’اچھا! تم تو پانی پیو پھر دیکھتے ہیں کیا ہوسکتا ہے!‘‘ احمد سے بہن کی اُتری شکل دیکھی نہ گئی اور اس نے پانی کی بوتل ایفاءکی جانب بڑھائی جسے اس نے جھٹ سے تھام لیا اور احتیاط سے گھونٹ گھونٹ لینے لگی۔ ہر گھونٹ کے بعد وہ رُک کر بوتل کودیکھتی جس میں پانی کم ہوتا جارہا تھا۔ ایفاء کو پیاس تو بہت لگی تھی لیکن وہ رُک گئی کہ اس طرح تو پانی ختم ہوجائے گا۔ 
احمدنے ایفاء کو ساتھ لیا اور دونوںامی کے پاس پہنچے۔’’امی!ہمیں معاف کردیں۔ ہم آئندہ پانی ضائع نہیں کریں گے۔ “ احمد نےمعصومانہ چہرہ بناتے ہوئے کہا۔ 
’’جی امی! اس بار معاف کردیں۔ “ ایفا ءنے بھی بھائی کی تائید کی۔ 
امی کھانا بناناچھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوئیں۔’’اچھا! اتنی جلدی سمجھ آگئی، آپ کو میری بات؟ “ 
’’امی! آپ نے بھی تو اتنی بڑی سزا دے دی۔ ہم دو اور بوتل صرف ایک،وہ بھی اتنی چھوٹی سی، کیسے گزارا کریں گےہم شام تک؟‘‘احمد نے   شکوہ کیا۔ 
’’جی امی! احمد بھائی بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ابھی تک احمد بھائی نے تو پانی پیا بھی نہیں اور بوتل اتنی سی رہ گئی ہے۔‘‘ ایفاء نےچھوٹی سی بوتل امی کی آنکھوں کے آگے لہرائی۔ 
’’تو بیٹا! آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کے ذخائر محدود ہیں لیکن آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ آج آپ دو ہیںاور پانی کی ایک بوتل دیکھ کر پریشان ہیں۔ کل کو ہماری آبادی دگنی ہوجائے گی لیکن ذخائر اتنے ہی رہیں گے ناں... تو پھر پانی کیسے پورا ہوگا؟ پانی کا استعمال ہمیں بہت سمجھداری سے کرنا ہوگا ورنہ بہت جلد ہم اس کی قلت کا شکار ہوجائیں گے۔ اب بھی ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں پانی نہیں ۔ ان علاقوں کے مکین اپنے گھروں میں ٹینکر ڈلواتے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو ٹینکر کی سہولت تک میسر نہیں۔ وہ بیچارے دوردراز علاقوں سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔ آپ لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ پانی بچا کر استعمال کرناکسے کہتے ہیں۔ میرے خیال سےآج آپ دونوں اسی محدود پانی میں گزارا کریں اور اپنی سائیکل بھی اسی سے صاف کریں۔‘‘ امی سمجھاتے سمجھاتے ایک دفعہ پھر سے سزا کی طرف چلی گئیں تو احمد اور ایفاء کی شکل دیکھنے والی ہوگئی۔ 
’’اچھا ٹھیک ہے۔ آپ لوگ مجھے پانی ضائع نہ کرنے کے بارے میں کوئی اچھی بات بتائیں تو آپ کی سزا معاف۔‘‘ امی نے مفاہمت بھراانداز اپناتے ہوئے کہا۔ 
احمد اور ایفاء دوڑتے ہوئے گئے اوراپنی کتابیں کھنگالنےلگے۔ ایفا ءکو یاد تھا کہ اس کی اسلامیات کی کتاب میں اسراف کے بارے میں ایک تحریر موجود ہے۔ اس نے وہ کتاب نکال کر اس کے صفحات کوتیزی سے پلٹنا شروع کردیا۔ اسے جلد ہی مطلوبہ صفحہ مل گیاجس پر اس سلسلے میں ایک حدیث   درج تھی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت سعد ؓ کے پاس سے گزرے، وہ اس وقت وضو کر رہے تھے۔ 
آپﷺ نے فرمایا: ”اے سعد!  اسراف نہ کرو۔ “ 
حضرت سعد ؓنے عرض کیا:’’اے اللہ کے رسولؐ!کیاوضو میں بھی(اسراف )ہے۔‘‘
 آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں! اگرچہ تم بہتی نہر پر ہو۔ ‘‘( مسنداحمد حدیث:609 )  
احمدنے سوچا کہ یہاں تو وضو میں بھی پانی احتیاط سے خرچ کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور کہاں ہم سائیکل دھوتے ہوئے پانی کا بےدریغ استعمال کررہےتھے۔
دونوںبچے کتاب اُٹھائے اپنی امی جان کے پاس پہنچے اور انہیں وہ حدیث دکھائی۔ ان دونوں کے چہروں پر صاف لکھا تھا کہ انہیں پانی ضائع کرنے پرشرمندگی ہے۔ 
امی نے ان کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور فوراَمعاف کردیا۔ 
احمد نے بالٹی میں تھوڑا سا پانی بھرا اور تولیے کو اس پانی میں بھگو کر نچوڑا، پھر گیلے کپڑے سے سائیکل پر سے سرف صاف کرنے لگا۔ ایفاء کی بھی سمجھ میں بات آگئی تھی اور یوں صرف تھوڑے سے پانی میں دونوں کی سائیکلیں صاف ہوکر چمک گئیں ۔ 
اس دن کے بعد دونوں بہن بھائی نہ صرف پانی احتیاط سے خرچ کرنے لگے بلکہ جس کسی کو بھی پانی کا زیاں کرتے دیکھتےاسے بھی سمجھاتے ۔ 
پیارے بچو!پانی جیسی نعمت کی بےقدری ہمارے ملک کو بہت سے مسائل سے دوچار کرسکتی ہے۔ آئیں! پانی بچائیں، اپنے لیے اور آنےوالی نسلوں کے لیے۔