3 مارچ... جنگلی حیات کے عالمی دن کے حوالے سے رابعہ ٹوانہ کی دلچسپ تحریر
گاڑی پارک کے احاطے میں رکی تو تمام بچوں نے نیچے اُترکر چڑیا گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔ منہاان میں سب سے آگے تھی۔ آج چڑیا گھر کی سیر کرنے کا مقصد تفریح کے ساتھ ساتھ اس تقریب میں بھی شامل ہونا تھا جسے وہاں 3 مارچ جنگلی حیات کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی طور پر منعقدکیا گیاتھا۔ اباجان نے اس تقریب کے بارے میں بچوں کوپہلے ہی بتادیا تھا۔
مرکزی دروازے سے اندرداخل ہوئے تو انہیں انواع و اقسام کی جنگلی حیات نظر آئیںجنہیں اس تقریب کے لیے خصوصی طور پر یہاں لایا گیا تھا۔ ان میں ایسے جانور اور پرندے موجود تھے جو دنیا سے آہستہ آہستہ معدوم ہو کر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف ایک بڑی ٹی وی سکرین لگی تھی۔ سامنے کی طرف مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے کچھ کرسیاں لگا ئی گئی تھیں ۔اباجان نے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جہاں سے وہ تمام جانوروں کو واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔
اچانک لائوڈ سپیکر سے ایک آواز گونجی:’’ ہم یہاں آنے والے تمام مہمانوں کو تہہ دل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ آج کی اس تقریب کا مقصد آپ سب کو جنگلی حیات کے بارے میں بتانا ہے تاکہ آپ ان کی اہمیت جان سکیں۔‘‘
یہ چڑیا گھر کے مہتمم تھے جو سامنے اسٹیج پر کھڑے شرکاء تقریب کو جنگلی حیات کے عالمی دن کی اہمیت بتارہے تھے۔
’’جنگلی حیات کے تحفظ کاعالمی دن منانےکا مقصد ایسے جانوروں اور نباتات کوتحفظ فراہم کرناہے جو دنیاسے نایاب ہوتے جارہے ہیں۔اس دن کا مقصد جنگلی حیات کی افزائش ِ نسل، اس کے ماحولیات پر اثرات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں بھی شعور اجاگر کرنا ہے۔‘‘
سب بچے مہتمم صاحب کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ انہوں نے بچوں کو متوجہ پاکر ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’یہ دیکھیے!یہ وہ تمام جانورہیں جنہیں معدوم ہونے کا شدید خطرہ ہے۔اس فہرست میں برفانی چیتے سمیت پانچ اقسام کے شیر، ببر شیر، تیندوے اور جیگوار بھی شامل ہیں۔‘‘
منہا نے بابا جان سے سوال کیا۔ ’’بابا جان! یہ معدوم کیا ہوتا ہے۔‘‘
بابا جان نے منہا کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا:’’بیٹا ! جب کسی جاندار کی نسل ختم ہوجائے تو اسے معدوم کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا مطلب ہے Extinct۔ ‘‘
’’اچھا!اب میں سمجھ گئی۔ ہماری انگریزی کی کتاب میں ڈائنوسار پر ایک کہانی ہے، میں نے یہ لفظ اس میں پڑھا ہے۔ ‘‘ منہا پُرجوش انداز میں بولی۔
’’بالکل بیٹا! چونکہ ڈائنو سارکا وجود دنیا سے مٹ چکا ہے اس لیے اب ان کے لیے ہم معدوم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔‘‘
منہا کو معدوم کا مطلب سمجھ آیا تو اسے مہتمم صاحب کی باتیں بھی سمجھ میں آنے لگیں۔
’’ ذرا اس خوبصورت وہیل،ان سمندری کچھوئوں،دریائی گھوڑوں، گھونگھوں،شارک اور اس بلائنڈ ڈولفن مچھلی کو دیکھیے.... قدرت نے انہیں کتنا خوبصورت بنایاہے۔افسوس ان کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے اور ڈائنو سار کی طرح ان کے معدوم ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ اگر یہ آہستہ آہستہ ختم ہو گئے توہمارے ماحول کو شدید نقصان پہنچے گا۔ان جانوروں کے بغیر جنگل اور سمندر ویران ہو جائیں گے۔ لہٰذا ان کا بچائو ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ــ‘‘
چڑیا گھر کےمہتمم کی باتیں سن کر بچوں کے چہرے پر پریشانی نظر آنے لگی تھی۔ منہا کے ذہن میں کئی سوالات ابھر رہے تھے۔ پاکستان میں وہ کون سے جانوراور پرندے ہیں جن کے معدوم ہو جانے کا خطرہ ہے، وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اچانک مہتمم صاحب کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی:
’’ـیہ دیکھیں! یہ بلوچستان کا مشہور استولا جزیرہ ہے۔ یہ گوادر کے ساحل سے 40 کلومیٹر دور واقع ہے۔اسے جنگلی حیات کے لیے محفوظ ترین جگہ سمجھا جاتاہے۔ اس جزیرے کی کل لمبائی ساڑھے تین کلومیٹر اور چوڑائی ڈیڑھ کلومیٹر ہے ۔ یہ نہ صرف ماہی گیری کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ سردیوں میں روس اور دنیا کے دیگر ممالک سے آنے والے پرندوں کا مسکن بھی ہے۔ یہاں ملنے والی نباتات اور آبی حیات اتنی منفرد ہیں کہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں سن وائپر نامی زہریلا سانپ بھی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں گریٹر کرسٹیڈ نامی پرندے ہزاروں کی تعداد میں موجودہیں جبکہ دنیا کے دیگر علاقوں میں ان کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔‘‘اسی طرح دریائے سندھ میں پائی جانے والی اندھی(بلائنڈ) ڈالفن،گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں پایا جانے والا ہمارا قومی جانور مارخور ، برفانی ریچھ،پانڈا،ہاتھی، گینڈے،گرین سی کچھوے اور گوریلا جانور شامل ہیں۔ــ‘‘
’’ان جانوروں کی تعداد اتنی کم کیوں ہوتی جارہی ہے۔‘‘وہاں موجود سب لوگ متجسس تھے ۔
ان کے چہرے پر موجود اس سوال کو بھانپتے ہوئے مہتمم صاحب بولے: ’’جنگلات کی کٹائی کے سبب ہزاروں پرندوں اور جانوروں کا قدرتی مسکن تباہ ہوگیاہے۔اسی طرح آبادی کے پھیلائو اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر جنگلی حیات کے مسکن تباہ ہو رہے ہیں۔ نایاب جانورں اور پرندوں کا شکار کرنے سے ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ جنگلی حیات کے عالمی ادارے، ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(WWF) کی ایک ر پورٹ کے مطابق 1970ء سے اب تک دنیا بھر میں جنگلی حیات کی آبادیوں میں 69 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘
’’ جب ہمیں ان کے معدوم ہونے کی وجوہات کا علم ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان میں کمی لائیں۔ اس بارے میں آگاہی پیدا کریں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘‘
’’ کیا آپ سب اس کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے؟‘‘ مہتمم صاحب نے وہاں موجود سب لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئےپوچھا۔
سب نے ہاتھ اٹھا کر جنگلی اور آبی حیات کے تحفظ کے لیے اپنا کردارادا کرنے کا عزم کیا۔
اس کے بعدسب لوگوں کو ایک خصوصی دستاویزی فلم دکھائی گئی جس میں بہت سارے خوبصورت پرندے اور جنگلی جانور ایسے بھی تھے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔فلم کے علاوہ ایک برڈ شو کا بھی اہتمام کیا گیا تھا جس میں نایاب نسل کے شاہین، باز، طوطے،چڑیا اور دیگر خوبصورت پرندے دکھائے گئے اور ان کی ماحولیاتی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ آخر میں ایک آگاہی واک کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں وائلڈ لائف سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور طلبہ و طالبات کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔جنگلی حیات کے بارے میں آج بچوں کو بہت سی معلومات ملی تھیں۔ اب وہ وہاں رکھے ہوئے پرندوں اور جانوروں کو اس طرح دیکھ رہے تھے گویا ان سے عہد کر رہے ہوں:’’آپ کا تحفظ، ہے ہماری ذمہ داری۔‘‘
تبصرے