عاشرسکول سے گھرواپس آیا تو امی جان کو سلام کر کے کہنے لگا کہ کل چھٹی ہے اور اسے سیرکےلیے باہر جانا ہے۔ اس نے بتایا کہ کل اس کے دوست بھی سیرکو جانے والے ہیں۔ عاشر کی چھوٹی بہن فرحانہ کے کان میں اس کے یہ الفاظ پڑے تو وہ بھی امی جان سے سیرپر جانے کے لیے اصرار کرنے لگی۔
امی نے ان کی خواہش کے بارے میں سنا تو کہنے لگیں کہ جب ان کے ابو دفتر سے آئیں گے تو پھر ہی اس بارے میں کوئی فیصلہ ہوگا۔اگر وہ کل مصروف نہ ہوئے تو ہم کسی نہ کسی جگہ کی سیر ضرور کریں گے، انشا اللہ۔ امی کی اس بات پروہ دونوں خوش ہوگئے اور بے چینی سے ابو کا انتظار کرنے لگے۔
عاشر آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔اس کی چھوٹی بہن فرحانہ چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ جیسے ہی ان کے ابو گھر میں داخل ہوئے،بچوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ امی نے انہیں ساری بات بتائی تو وہ سیرکےلیےفوراََآمادہ ہو گئے۔
اگلے دن 23مارچ تھی۔اسی حوالے سے انہوں نے بچوں کو مینارِپاکستان لے جانے کا پروگرام بنا یا۔اگلی صبح وہ ناشتے کے بعد مینار پاکستان جانے کےلیے تیار تھے۔
ابوجان نے گاڑی نکالی اوراپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ راستے میں جابجا پاکستان کے جھنڈے نظر آرہے تھے۔تھوڑی دیر بعد ہی وہ اقبال پارک پہنچ چکے تھے۔مینارِپاکستان پر نظر پڑتےہی حاشر خوشی سے اُچھلا: ’’وہ رہا... مینارِ پاکستان ! ‘‘
مینارِپاکستان کے قریب پہنچ کر فرحانہ نے جب اُوپر نظریں اُٹھائیں تو وہ حیران رہ گئی۔ ’’ بھیا!یہ تو بہت اونچا مینار ہے۔بہت ہی اونچا۔‘‘
بچوں کی خوشی اور دلچسپی دیکھ کرابو جان انہیں اس جگہ کی تاریخی اہمیت بتانے لگے۔
’’بچو! یہ وہی تاریخی جگہ ہے جہاں برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ وطن حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔23مارچ1940ء...ایک تاریخی دن جب لاکھوں مسلمان اس پارک میں اکٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔یہ وہی الگ وطن تھا جس کا خواب علامہ محمد اقبالؒ نےدیکھا تھا۔ مسلمانوں نے یہاں ’قرارداد پاکستان ‘ منظورکی تھی جس کے بعد انہوں نے ایک بھرپور جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرلی۔ اُس وقت اس جگہ کو منٹو پارک کہا جاتا تھا۔اب اس کا نام اقبال پارک رکھ دیا گیا ہے۔‘‘
بچے مینارِ پاکستان کی پرشکوہ عمارت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ ابو کی باتوں کو بھی سن رہے تھے۔ ان کےتصور میں قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبال ؒ کی تصویریں بھی گھوم رہی تھیں۔عاشر نے کچھ سوچتے ہوئے ابو سے سوال کیا:
’’ابو جان! کیا قراردادِ پاکستان کے وقت بھی یہ میناریہاں موجود تھا؟‘‘
’’نہیں بیٹا! اس وقت یہاں صرف ایک میدان تھا۔ قیام پاکستان کے بعد قراردادپاکستان کی یادگار کے طور پراس کوبنایا گیا۔ ‘‘
’’یادگار... ؟‘‘فرحانہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’ہاں یادگار... بیٹا! یہ مینار ہمیں 23مارچ 1940ءکے تاریخی دن اور تحریک ِپاکستان کی جدوجہد کے لیےدی جانے والی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔اسی لیے تو اتنی شان سے کھڑا ہے۔‘‘ بابا جان نے مینار پاکستان کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہا۔
وہ سب بیرونی سیڑھیاں چڑھ کر مینارِ پاکستان کے نچلے حصے میں پہنچ چکے تھے۔ یہاں سنگ ِ مرمر کی تختیوں پر پاکستان کی آزادی کی تاریخ ، قومی ترانہ، قائد اعظمؒ کے اقوال ، علامہ محمداقبالؒ کے اشعار کندہ تھے۔ بچوں نے ان میں گہری دلچسپی لی۔ پھر وہ پارک کے احاطے میں چہل قدمی کرنے لگے۔
آج مینارِ پاکستان کی سیرکرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جن میں اسکول یونیفارم پہنے طالبعلم بھی نظر آرہے تھے۔ وہ اپنے اساتذہ کے ساتھ یومِ پاکستان کی خوشیاں منانے وہاں پہنچے تھے۔ ان کے ہاتھ میں قومی پرچم بھی تھے۔ ایک اسکول کے بچے مینارِپاکستان کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر ملی نغمے گارہے تھے۔ ان کی پرجوش آوازنے وہاں موجود لوگوں کے دلوں میں جذبہ حب الوطنی بھر دیا۔ قومی جذبوں اور ولولوں کی یہ خوشبو شام کو اور بھی تیز ہوگئی تھی۔ بچوں نے وہاں موجود پارک میں جھولے بھی خوب لیے۔ جب رات کا اندھیرا پھیلنے لگا تو ابو نے واپس گھر جانے کا اعلان کردیا۔ جب وہ سب اپنی گاڑی پرسوار گھر روانہ ہورہے تھے تو عاشر اور فرحانہ ہاتھ ہلا کر مینارِ پاکستان کو الوداع کہنے لگے۔اسی دوران مینارِپاکستان کی رنگ برنگی روشنیاں بھی ان کی آنکھوں میں اُتر کرانہیں الوداع کہہ رہی تھیں۔
تبصرے