’’بیٹا! یہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا یا محض ایک ملک ہی نہیں ہے، اس میں ہماری جڑیں ہیں جس کی آبیار ی ہم نے اپنوں کے خون سے کی ہے۔ بھلا اپنی جڑوں سے جدا ہو کر بھی کوئی پودا پھل پھول سکتا ہے ؟‘‘
’’ اس دیس کی مٹی کوئی عام مٹی نہیں۔ اس میں ہمارے پیاروں کا خون شامل ہے، ہم اسے کیسے چھوڑ سکتےہیں؟آخر اس عمر میں تم مجھے اس سے کیوں جدا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ دادا جان نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور ہانپتے ہوئے وہاں سے چل دیے۔
عبد الہادی کی ایک اور کوشش رائیگاں گئی تھی۔ وہ جرمنی سے صرف دادا جان کو لینے پاکستان آیا تھا تاکہ وہ بھی ان کے ساتھ وہیں بس جائیں۔ اس نے دادا جان کو وہاں کی پُر آسائش زندگی کے بارے میں بتایا تھا۔ رہن سہن، آسائشیں اور دیگر ایسی پُرکشش چیزوں کا ذ کر کرکے اس نے دادا جان کو جرمنی لے جانے کی ضد کی تھی لیکن وہ اس کی باتیں سن کر ہنس دیے تھے۔
’’میرے بچے! ہم نے کئی قربانیاں دے کر یہ آزادی حاصل کی ہے اور تم چاہتے ہو کہ ہم ایک بار پھر غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں۔ بیٹا! تحریک ِ پاکستان کے دل دہلا دینے والے مناظر اگر تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوتے تو آج یہ خاک تمہاری آنکھوں کا سرمہ ہوتی،تم اس زمین کے ٹکڑے کی قدر کرتے۔ جسے تم آزادی کہہ رہے ہو وہ فقط نظر کا دھوکا ہے۔ ہم وہاں کی پر آسائش زندگی کے بدلےاپنی آزادی کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے ۔‘‘
عبد الہادی کو دادا جان کی یہ باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں وہ تو بس انہیں ساتھ لے جانے آیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دادا جان کو اس مٹی سے بہت پیار ہے۔ وہ انہیںاس محبت سے روک نہیں رہا تھا، وہ تو صرف انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔
’’جمیل انکل!انہیں آپ ہی سمجھائیں۔ وہ یہاں تنہا کیسے رہیں گے؟ بیمار پڑیں گے تو کون دیکھ بھال کرے گا؟ کون ان کی ایک آواز پر دوڑ کر آئے گا۔ وطن سے محبت اپنی جگہ لیکن انہیں ہمارا بھی تو سوچنا چاہیے !‘‘ اس نے جمیل انکل سے شکایت کی جودادا جان کے دیرینہ ساتھی اور خدمتگار تھے۔
ہادی کی بات پر جمیل انکل بھی مسکرادیے۔ ’’بیٹے!آپ کے دادا پاکستان نہیں چھوڑیں گے، آپ خوامخواہ ضد کر رہے ہیں‘‘، جمیل انکل نے چائے کی چسکی لیتےہوئےکہا۔
عبدالہادی نے دل ہی دل میں سوچا کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے دادا جان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے ضرور آمادہ کرلے گا۔اس لیے اس نے اپنے ساتھ ساتھ ان کا ٹکٹ بھی خریدلیا تھا۔ دن گزرتے گئے لیکن دادا جان کو وہ پاکستان چھوڑنے پر قائل نہ کرسکا۔
’’دادا جان!آخر آپ یہاں ہی کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ آخر یہاں ایسا کیا ہے جو وہاں نہیں ہے؟ آپ جو کہیں گے ہم آپ کو وہاں وہی سہولت پیش کردیں گے۔‘‘
دادا جان اب اس کی ضد پرمسکرانے لگے تھے ۔
آج 23 مارچ... یوم پاکستان تھا۔وہی دن جب1940 میں برصغیر کے مسلمانوں نے لاہور کے منٹوپارک (علامہ اقبال پارک) میں جمع ہوکر علامہ محمد اقبال ؒ کے خواب کوپورا کرنے کے لیے پہلا قدم اُٹھا تے ہوئے اپنے علیحدہ وطن کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی۔یہ قرارداد، قراردادِ پاکستان کہلائی اور اسی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پاکستان کی صورت میں آزادی کی نعمت عطا کی۔ دادا جان کی عادت تھی کہ وہ اس نعمت پر اس دن خصوصی طور پر شکرانے کے نفل ادا کیا کرتے تھے ۔
آج جب نوافل پڑھنے کے بعد انہوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ماضی کے سارے لمحات ان کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران ان کے پیاروں پر ظلم ڈھائے جارہے تھے۔ ہجرت کے دوران بھوک، پیاس اور اپنوں سے بچھڑنے کی اذیت آنسو بن کر ان کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ انہیں اپنے والد اوربڑے بھائی یاد آرہے تھے جو راستے میں کہیں کھو گئے تھے اور پھر کبھی نہ مل سکے تھے۔پاکستان کی جانب سفر کرتے ہوئے ماں کا ہاتھ بھی کئی باران کے ہاتھ سے چھوٹا تھا۔ بھوک پیاس کے عالم میں وہ کسی نہ کسی طرح مامتا کا یہ ہاتھ تھام کر پاکستان کی پناہ میں آگئے۔یہ سب سوچتے ہوئے انہیں یکدم جھرجھری سی محسوس ہوئی ۔ انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ہادی بیٹھا تھا۔
’’دادا جان آپ کی آنکھوں میں آنسو؟‘‘ عبدالہادی نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’ بیٹا! یہ شکر اور خوشی کے آنسو ہیں۔‘‘دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہم سب کو پاکستان جیسی نعمت ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وطن کی آزادی اور سلامتی کی خاطر جانیں قربان کرنے والے شہیدوں کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ہمیں ان کی قربانیوں پر فخر ہے۔‘‘ دادا جان نے عبدالہادی کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
’’بالکل دادا جان!آپ سچ کہتے ہیں کہ پاکستان ہماری پہچان ہے۔باہرکے ممالک میں سہولیات اور آسائشیں تو ضرور ہیں مگر ہم وہاں خود کو اجنبی ہی محسوس کرتے ہیں۔‘‘ دادا جان کی چند دن کی صحبت کا عبدالہادی کی سوچ پر بھی اثر نمایاں تھا۔
’’بیٹا!ہمارے وطن کو آزادہوئے 77 سال ہوچکے ہیں۔اس دوران ہمارے دشمنوں نے ہم پر وَار کرنے کی بہت کوششیں کیں لیکن ہماری بہادر افواج ہمیشہ ان کے ناپاک منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں۔ انہوں نے بڑی جرات و بہادری سے اس کی حفاظت کی ہے۔ اس دوران وطن کے بہت سے بیٹے شہید ہوگئے۔ ان کا خون وطن کے کام آیا۔‘‘ دادا جان کی نظریں دور کہیں کھو گئی تھیں جیسے تصور ہی تصور میں وطن کے رکھوالوں کو یاد کررہے ہوں۔
’’واقعی داداجان!کتنے بے لوث ہوتے ہیں یہ بہادر۔ بھلا جان سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوتی ہےجسے وہ بے خوفی سے وطن پر قربان کردیتے ہیں۔ ‘‘ عبدالہادی نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دادا جان کی تائید کی۔
’’بیٹا!جتنی بڑی نعمت ہو،اس کی حفاظت کے لیے اتنی ہی بڑی قربانی دیناپڑتی ہے۔وطن کے بیٹے اس کی سرحدوں، فضائوں اور پانیوں کی نگہبانی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اپنے اس مقصد کے لیے وہ اپنے خون کاآخری قطرہ بہادینے کے لیے پرعزم ہیں۔میں چاہتا ہوں تم بھی ان کا راستہ اختیار کرتے ہوئے وطن کی خدمت کرو۔‘‘دادا جان مسکرائے تھے۔انہیں یقین ہونے لگا تھا کہ ان کی صحبت میں عبدالہادی کی سوچ کافی بدل چکی ہے۔وہ نہ صرف انہیں ساتھ لے جانے کی ضد چھوڑ دے گا بلکہ اس چمن کا پھول بن کر اسے مہکائے گا۔
عبدالہادی بھی دادا جان کے سامنے سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔پھراچانک اس نے دادا جان کی تمام توقعات کے برعکس انہیں اپنے ساتھ جرمنی لے جانے کی ضد دوبارہ شروع کردی۔
دادا جان نے اس کا یہ رویہ دیکھا تو خاموش ہوگئے۔ اب کی بار انہوں نے ہادی کی ضدکے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس کے ساتھ جرمنی جانے کی حامی بھی بھرلی۔ انہوں نےبڑی شفقت سے ہادی کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔ جمیل انکل بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیے تاکہ ان کا خیال رکھ سکیں۔
دوسرے دن عبدالہادی صبح سویرے اُٹھ کر تیار ہوچکا تھا۔وہ بڑا پُرجوش تھا اور دادا جان کو پکارتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا۔نیچے انکل جمیل کھڑے تھے۔
’’جمیل انکل! آج ہماری فلائٹ ہے۔ کیا دادا جان تیار ہوگئے...؟ ‘‘
جمیل انکل کا چہرہ اُترا ہوا تھا۔ انہوں نے پریشانی کے عالم میں جواب دیا کہ رات کو دادا جان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ۔ ساری رات بے چینی اور تکلیف میں گزاری ہے۔ان کی بات سن کر عبدالہادی پریشان ہوگیا۔ وہ بھاگم بھاگ دادا جان کے کمرے میں پہنچا۔
دادا جان کو سخت بخار تھا ۔ وہ غنودگی کے عالم میں کراہ رہے تھے اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ بول بھی رہے تھے۔ ’’ماں جی! پاکستان میرا گھر ہے۔میں اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں...میں آپ سے کیسے الگ ہوسکتا ہوں۔ میں یہی رہوں گا....آپ کے پاس...اپنی ماں کے پاس....‘‘
’’بیٹا!ہم نے کہا تھا نا کہ آپ درخت کو اپنی جڑ سے جدا نہ کریں۔ ہماری جڑیں اس مٹی سے جڑی ہیں جو ہمیں زندہ اور ترو تازہ رکھتی ہیں۔ دیکھ لیں آپ، آپ نے اپنے دادا کو یہاں سے لے جانا چاہا مگر ان کا دل اسی مٹی سے جڑا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ان کی حالت ایک مرجھائے ہوئے پودے کی طرح ہوگئی ہے۔‘‘ جمیل انکل کی آنکھوں میں بھی آنسو رواں تھے۔
عبدالہادی فوراَ دادا جان کولے کر ہسپتال پہنچا۔ ان کی حالت کافی خراب تھی۔ ڈاکٹروں کی کوشش رنگ لے آئی تھی۔ ان کی توجہ اور تگ و دو سے دادا جان کو ہوش آگیا۔ دادا جان کے بیمار ہونے کی خبر جرمنی میں عبدالہادی کے ابو کوبھی مل چکی تھی۔ وہ بھی فوراَ پاکستان پہنچ گئے۔چند دن کی دیکھ بھال کے بعدداداجان مکمل صحت یاب ہوچکے تھے۔اب توانہوں نے چلنا پھرنا بھی شروع کردیا تھا۔چند دن بعد جب لان میں دادا اور پوتا بات چیت میں مصروف تھے، ہادی کے ابو نے ہادی کو پکارتے ہوئے یہ اطلاع دی۔
’’ہادی بیٹا! کل ہم واپس جا رہے ہیں۔‘‘
’’واپس؟ کہاں؟ ابو جان! میں دادا جان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جارہا۔‘‘عبدالہادی ایک عزم سے بولا۔
’’بیٹا! تمہارے دادا بھی تو ہمارے ساتھ جارہے ہیں!‘‘ ابوجان نے اسے سمجھایا۔
’’بیٹا !میں بھی ہادی کی طرح کہیں نہیں جارہا۔‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے عبدالہادی کی آنکھوں میں جھانکا۔
’’اچھا! تو دادا پوتا آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی منصوبہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘ اب کی بار توابو جان بھی مسکرا دیے۔
’’جی ہاںابو جان! میں اپنی جڑوں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔ میں اپنے وطن اور لوگوں کی خدمت سے ان جڑوں کو اور بھی مضبوط بنائوں گا۔ یہی ہمارا منصوبہ ہے۔‘‘ ہادی کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جسے اس کے ابو نے بھی اپنے دل میں محسوس کرلیا تھا۔
’’واہ ابا جان!آپ نے عبدالہادی کے دل میں وطن کی محبت کاجو بیج بویاہے مجھے یقین ہے کہ ایک دن وہ ضرور تناوردرخت بنے گا جس پرپاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے پھول کھلیں گے۔‘‘
’’انشااللہ!‘‘ یہ کہتے ہوئے دادا جان نے دونوں کواپنے گلے سے لگالیا۔ان کی اس محبت کو دیکھ کر لان میں کھلے پھول بھی خوشی سے جھومنے لگے تھے جیسے کہہ رہے ہوں :
یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو!
تبصرے