خالق کون و مکاں کا ذاتی نام اللہ ہے جس کے معنی خاص اس کی ذات مبارک ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور ترجمہ ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ عظیم ہستی ہے جو ہر چیز کا سبب ہے ہر چیز کا موجد ، خالق ، رب اور سمیٹنے والا۔ اس کی شان یہ ہے کہ سارا زمان و مکاں اس کی رحمت سے بھرا پڑا ہے جس کا گواہ کائنات کا ذرہ ذ رہ ہے۔
ہر زرہ یعنی ایٹم اور اسکے اندر پائے جائے والے چھوٹے ذرات اپنے خالق کی ذات کا نہ صرف شعور رکھتے ہیں بلکہ اس کی عظمت اور بڑائی کا ادراک کرتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ سب مخلوقات اللہ کی قدرت کے مقرر کردہ قوانین کے دائرہ کار میں رہ کر اپنا اپنا کام سرانجام دیتی ہیں ۔ ذات باری تعالیٰ ان قوانین کا خالق تو ہے مگر ان کا پابند نہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
''بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے''
وہ جو چاہے کر سکتا ہے، قوانین اسکے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتے ۔
زمان و مکاں یعنی وقت اور جگہ دو ایسی اکائیاں ہیں جن کو سمجھنے کی کوشش میں انسان ہمیشہ سے لگا رہا ہے۔ وقت یا زمانہ اللہ ہی کی صفت ہے ۔وہی اول وہی آخر یعنی کل وقت اس کی حقیقت کا اظہار ہے۔ وہ نہ صرف ماضی حال اور مستقبل کو یکساں طور پر جانتا ہے بلکہ اس میں موجود بھی ہے۔ وہی ظاہر وہی باطن۔وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر چیز اس کے گھیرے میں ہے۔
حضرت علی نے اللہ کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ اللہ ہمیشہ سے موجود ہے وہ ہر چیز کے ساتھ ہے مگر بطور ہمسر کے نہیں، وہ ہر چیز سے الگ ہے مگر اس سے کنارہ کش نہیں، وہ ہر چیز کا فاعل ہے مگر اس کا فعل حرکات وسکنات اور آلات کا نتیجہ نہیں۔ اس نے دنیا کو پیدا کیا لیکن بغیر اسکے کہ اس پر غور و فکر کرتا یا کسی کے تجربے سے فائدہ اُٹھاتا۔ وہ ٹھیک وقت پر چیزوں کو عدم اور نیستی سے وجود میں لاتا ہے ا ور ٹھیک وقت پر وجود سے عدم اور نیستی کی طرف لے جاتا ہے۔ اسی نے تمام اشیاء کی آپس میں موافقت اور سازگاری پیدا کی اور ہر چیز کو اس کی طبیعت اور مزاج عطا کیا۔ اللہ تمام اشیاء اور مخلوقات کی ابتداء سے پہلے ان سے واقف تھا۔ اس کا علم ان کی حدود و انتہاء پر محیط تھا اور ان کی حالت اور پوشیدہ کیفیت سے وہ واقف تھا۔
اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ایسے ہی جانا اور دیکھا جیسے پیدا کرنے کے بعد جانا اور دیکھا۔ اس کی سلطنت میں کوئی اس کا شریک نہیں، اس کی مخلوق میں کوئی اس کا مدد گار نہیں۔ اللہ کمی و بیشی سے پاک ہے، ازل سے وہ ایسا ہی ہے اور ابد تک ایسا ہی رہے گا، وہ بے مثال اور عقل و فہم سے ماورا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف جگہوں پر اپنے آپ اور اپنی صفات کو بیان فرمایا ہے ۔ سورة اخلاص میں اللہ فرماتے ہیں۔
کہو وہ اللہ ایک ہے۔
اللہ بے نیاز ہے۔
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
اس سورة میں اللہ نے اپنے بارے میں انسانوں کے تمام جاہلانہ عقائد اور تصورات کو رد کر دیا۔ یہ آیات اللہ کی صفات و معرفت کے ادراک کے لیے مشعل راہ ہیں۔ جو ان کو سمجھ گیا وہ بہت کچھ سمجھ گیا۔ جس نے ان کو پالیا اس نے بہت کچھ پالیا۔ اللہ کا جو کلام ہے اللہ کو اس کا علم بھی ہے اور اللہ کا جو علم ہے اسے اس کا مشاہدہ بھی ہے یعنی وہ کلام اور علم کا شاہد بھی ہے۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو خوبصورت طریقوں سے بیان فرمایا ہے اسی طرح اپنے لیے خوبصورت ناموں کا انتخاب بھی کیا ہے۔ اللہ کے99 صفاتی نام قرآن مجید میں درج ہیں ان کے علاوہ اللہ نے اپنے لیے رب کے نام کو بھی پسند فرمایا ہے۔ اگرچہ اللہ کے سب نام اچھے ہیں لیکن قرآن میں جس تواتر سے رحمن اور رحیم کا ذکر ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کو یہ نام بہت محبوب ہیں۔ آپۖ نے فرمایا۔ اللہ جو رحمن ہے وہ اپنے ہر بندے سے اس کی ماں سے 70گنا زیادہ محبت کرتا ہے اس کی رحمت نے تمام کائنات کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ خود فرماتے ہیں ۔
''بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے''
آپ ۖ نے فرمایا۔
اللہ کے ننانوے نام ہیں، جس نے ان ناموں کو یاد کر لیا وہ جنت میں جائے گا۔
جنت کے حصول کا اس سے آسان نسخہ اور کوئی نہیں چند دن کی محنت سے یہ نام یاد کر کے جنت کا پروانہ باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی عبادات اور اعمال صالح یعنی نماز، روزہ، زکوة، حج ، رزق حلال کی جدوجہد ،تلاوت قرآن اور جہاد اللہ کے ذکر کے مختلف طریقے ہیں۔ ذکر کے معنی اللہ کو متواتر ایسے یاد کرنا کہ دل و دماغ پر اس کی محبت اس کی ہیبت اس کی شان اور اس کا خیال ہمہ وقت چھایا رہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے اللہ کے ذاتی اور صفاتی ناموں کی تسبیحات مثلاً سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ جیسے کلمات طیبہ کا بار بار ورد کرنا شامل ہے۔ دل ہی دل میں اللہ اللہ کہتے رہنا بھی بہت با برکت عمل ہے لیکن پاس انفاس ذکر کا ایک ایسا طریقہ ہے جو آپکی ہر سانس کو اللہ کا ذکر بنا دیتا ہے۔ باہر جاتی ہوئی سانس کے ساتھ لاالہ کہنا اور اندر جاتی ہوئی سانس کے ساتھ الا اللہ کہنا، چند دن کی مشق سے قلب اور سانس خود بخود اس ذکر میں مشغول ہو جائیں گے اور اللہ کے ساتھ ایک دائمی تعلق اور سکون کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ آپ ۖ نے فرمایا۔
لا الہ الا الہ سب سے بہتر ذکر ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
''تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا''
یہ آیت مبارکہ ذکر الٰہی کا بے مثال انعام ہے۔ انسان اپنی بساط کے مطابق ذکر کرتا ہے مگر رب کریم اپنی شان کریمی کے مطابق اپنے بندے کا ذکر کرتا ہے اور جب خالق ذکر کرتا ہے تو اس خوش قسمت بندے کا ذکر کائنات کا ذرہ ذرہ کرتا ہے وہ جدھر سے گزرتا ہے راستہ کے فرشتے ،جنات ،جانور ، نباتات و جمادات اس پر رحمتیں بھیجتے ہیں اور اسکو مبارک باد دیتے ہیں۔
''بے شک اللہ کے ذکر سے ہی دل اطمینان پاتے ہیں''
اللہ کی معرفت ہی اصل میں دین کی بنیاد ہے ۔ معرفت کے معنی اللہ کو ایک اور ہر چیز سے برتر ماننا ہے۔ مخلوقات میں صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جسے اللہ نے اپنے عرفان کے لیے پیدا فرمایا اور انسان کی عظمت کو اپنی عظمت کے ادراک سے منسلک کر دیا۔آپ ۖ نے فرمایا۔
''آسمان و زمین میرے رب کو سما نہیں سکتے مگر مومن کا دل''
ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کچھ کہنا چھوٹا منہ اور بڑی بات کے مترادف ہے ۔ تمام زبانوں کے تمام الفاظ تمام مخلوقات اور جن وانس کی تسبیحات اللہ کی شان بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ حدود و پیمانوں سے بالاتر ہے۔
بے شمار اور غیر متناہی صفات کا حامل ہے۔ اس کی تجلی کی کوئی انتہاء نہیں، وہ کسی سوچ میں صورت گر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہم و گمان میں سما سکتا ہے۔ عقلیں اس کی صفات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ ہر چیز سے ماورا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر و بیان کے بارے میں سورة الکھف میں جو کچھ فرمایا ہے اسکے بعد کچھ اور لکھنے یا کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔
''کہہ دو کہ اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لکھنے کے لیے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے رب کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور سمندر اس کی مدد کو لائیں۔''
مضمون نگار عسکری ودیگر موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے