رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ایک پر کیف اور سرور آمیز نورانیت ہر شے کا احاطہ کرتی محسوس ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ماہ صیام بہترین ایام کے طور پر شمار ہوتا ہے ۔سحر و افطار کا اہتمام، تلاوت قرآن اور تراویح کی رونقیں ہر مقام اور ہر مکان پر جا بجا نظر آتی ہیں۔
ماہ مبارک کی نورانیت اور ان ایام میں اجرات کے جو وعدے ہمیں اللہ رب العزت اور اللہ کے رسولۖ کے فرمان سے سننے کو ملتے ہیں، انہیں محسوس کر کے ہم اس تصور میں کھو جاتے ہیں، جب روزے کے ثمرات اور اجرات دیے جائیں گے۔
رسول ۖ کا ارشاد پاک ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔(مشکوٰة)
اسی طرح روزے کے ایک طرف کئی طبی فوائد ہیں، جو ہمیں جسمانی لحاظ سے حاصل ہوتے ہیں، تو دوسری طرف روحانی فوائد اور اجرات لاتعداد اور بے شمار ہیں۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا؛
الصوم جن یسجن بھا العبد من النار
روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔(صحیح الجامع)
ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
الصوم جن من عذاب اللہ(صحیح الجامع)
روزہ اللہ تعالی کے عذاب سے(بچائو کی )ڈھال ہے۔
کتنے مختصر اور جامع الفاظ میں اللہ تعالی نے اس روزے کو جہنم سے ڈھال قرار دے کر ہمیں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے سے ایک بہترین خوشخبری سے نوازا ہے۔
ڈھال کسی چیز سے رکاوٹ اور پناہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے اور یہ چند دن کے روزے ہمیں جہنم کی دہکتی آگ سے پناہ کا وعدہ دے رہے ہیں۔
ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی روزے داروں کو خوشخبری دی جارہی ہے کہ؛
جنت کے( آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ریان ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔(صحیح البخاری وصحیح مسلم)
سبحان اللہ! کیا ہی منظر ہوگا؟ جب ابد سے قیامت تک کے تمام انسان میدان حشر میں جمع ہوں گے اور پکارنے والا پکارے گا ؛ کہاں ہیں روزے دار؟
اور دیگر امت کے چند لوگوں کے علاوہ امت محمدیہ کے بیشتر لوگ اس منادیٰ کی پکار پر کھڑے ہو کر لبیک کہیں گے اور ایک مخصوص دروازے سے اللہ رب العزت کی سجائی ہوئی خوبصورت جنت میں داخل ہوں گے۔
کیسے کیسے انعامات کے وعدے اس چھوٹے سے عمل پر اللہ رب العزت نے امت محمدیہ کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ؛
روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔(صحیح بخاری)
تلاوتِ قرآن مجید اور ماہ صیام:
تلاوتِ قرآن کو رمضان المبارک سے خاص تعلق حاصل ہے،اور اس کی متعدد وجوہات ہیں۔
اول الذکر:اللہ رب العزت نے اس پاک کلام کے نزول کے لیے ماہ رمضان المبارک کو اعزاز بخش کر اس ماہ کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ کردیا۔
دوم، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کو فوقیت اور برتری بخشی ہے، دیگر ایام سے زیادہ اس کی تلاوت کا اہتمام کیا ہے۔ حتیٰ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ رمضان المبارک میں نبی اکرمۖنے قرآن کریم کا دورہ بھی کیا،اس عمل نے مہر ثبت کردی کہ رمضان المبارک اور تلاوت قرآن کا چولی دامن جیسا ساتھ ہے۔
ایک طرف جہاں ماہ مبارک کے دن روزے سے آباد ہوتے ہیں تو اس کی راتیں تراویح کے اہتمام سے پر رونق اور پر سعید بنتی ہیں۔ تراویح کی بیس رکعتوں میں ختم قرآن کا اہتمام حرمین شریفین اور دنیا کی تقریباً تمام ہی مساجد میں بڑے انتظام و اہتمام سے کیا جاتا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا درج بالا باتوں کی مکمل کی تصدیق کرتی ہیں۔ یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا باعثِ سعادت ہے۔
ماہِ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کا اس ماہ میں نازل ہونا ہے۔
تراویح کی اہمیت اور فضیلت؛
جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور ثواب کی نیت سے (نماز وغیرہ میں )کھڑا رہا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔(بخاری ومسلم شریف) نیز قیام اللیل کے جو عمومی فضائل ہیں وہ نمازِ تراویح پر بھی صادق آتے ہیں۔
تراویح دراصل قیام اللیل ہی کا ایک طریقہ کار ہے،جو اللہ رب العزت نے ماہ صیام کی اہمیت اور فضیلت کو بڑھانے کے لیے تلاوت قران اور تراویح کی 20 رکعتوں کو سنت مؤکدہ قرار دے کر مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نیکیوں میں اضافے کا سبب بنایا ہے۔
مزید برآں تراویح رسول اللہ ۖ سے اور آپ ۖ کے بعد خلفائِ راشدین سے اہتمام کے ساتھ ثابت ہے، اتنی بات اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے۔
نماز تراویح سنت مؤکدہ ہے اور تراویح میں ایک مرتبہ پورا قرآن پاک پڑھنا یا سننا بھی سنت مؤکدہ ہے۔ یہ دونوں عمل علیحدہ علیحدہ دو سنتیں ہیں۔ اس لیے جو لوگ سورتوں کے ساتھ نماز تراویح ادا کرتے ہیں اور پورا قرآن مجید تراویح میں پڑھتے یا سنتے نہیں وہ تراویح کی سنت تو ادا کرتے ہیں لیکن تراویح میں پورا قرآن مجید پڑھنا یا سننا ان کے ذمے باقی رہتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ چند راتوں میں قرآن پاک پورا سن کر تراویح چھوڑ دیتے ہیں ان کے ذمہ تراویح کی سنت باقی رہتی ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے ختم ہو جانے کے بعد اکثر لوگ تراویح کے ادا کرنے میں جو سستی کرنے لگتے ہیں یہ بھی ایک بڑی غلطی ہے، تراویح مکمل ماہ ہر رات پڑھنی ہے۔
قرآن مجید کے بعد بھی رمضان المبارک کی تمام راتوں میں عیدالفطر کے چاند دیکھنے تک تراویح کا پڑھنا سنت ہے۔
ایک حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو خوش خبری دی کہ : حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے ارشاد فرمایاکہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا (یعنی رات کو تراویح پڑ ھیں)اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
ان تمام فضیلتوں کا علم ہونے کے بعد تو ہر مسلمان کو ذوق وشوق سے تراویح کو پورے اہتمام سے ادا کرنا چاہیے تاکہ رمضان المبارک کی برکتوں سے سرفراز ہو سکے، اس کی مغفرت ہو اور اللہ تعالی کی رحمتوں سے نوازا جائے۔
ماہ مبارک اور صدقہ و خیرات کا عمل
صدقہ و خیرات وہ مال ہے جو اللہ کی رضا کے لیے غریب و مسکین لوگوں کو دیا جاتا ہے۔ زکوٰة و عشر اور صدقہ فطر تینوں واجب ہیں۔ جو ان تینوں میں سے کسی ایک کو ادا نہ کرے گا، سخت گنہگار ہوگا۔ ان کے علاوہ نفلی صدقات کی اقسام اور طریقے بے شمار ہیں۔ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ رمضان المبارک میں کچھ صدقات واجب یعنی ضروری ہیں جب کہ نفلی صدقہ و خیرات کرنے کی فضیلت بھی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے، اسی لیے مسلمانان عالم اس ماہ میں بڑھ چڑھ کر صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔
اسی عمل کی فضیلت کا علم ہمیں حضور نبی اکرمۖ کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے :
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمۖ سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔
(ترمذی، السنن، کتاب الزکا، باب ما جا فی فضل الصدقہ)
2۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمۖ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ رمضان میں جب حضرت جبریل امین علیہ السلام کی آپۖ سے ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام کی ملاقات کے وقت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت تیز ہوا کے جھونکے سے بھی بڑھ جاتی۔
( بخاری، الصحیح، کتاب الصوم)
ماہ صیام کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ؛ ایک چھوٹی سی نیکی بھی بڑے اجر کے حصول کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ یہ میرا مہینہ ہے اور اس مہینے کا اجر و ثواب بھی میں خود اپنے بندے کو دوں گا۔ رمضان میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرکے ہم دوسروں کی بھوک و پیاس اور تکلیف کم کرسکتے ہیں۔
ویسے بھی ایک پیسہ یا ایک دانہ بھی جو اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیاجاتا ہے،اس پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اجر کا وعدہ ہے ۔ رمضان میں کتنا اجر ملے گا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس مقدس ماہ میں مومن کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ جو شخص اس ماہ مبارک میں کسی روزے دار کو افطار کرواتا ہے تووہ اس کے گناہوں کی بخشش کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
صدقہ فطر ایک واجب صدقہ
عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔ اور عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے پہلے اسے ادا کرنا ضروری ہے، اگر عیدالفطر کی نماز سے پہلے ادا نہ کیا گیا تو بعد میں بھی ادا کرنا ہوگا، لیکن بعد میں ادا کرنے سے اس صدقہ کی فضیلت ختم ہوجائے گی، نیز عید الفطر کی نماز کے بعد تک تاخیر مکروہ ہے۔
رمضان کے ایک ماہ کے روزوں کے بعد عید الفطر جسے عرف عام میں میٹھی عید سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس عید کی خوشی میں غریبوں کو شامل کرنے کے لیے اللہ تعالی نے ان کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر یہ صدقہ فطر مخیر مسلمانوں پر واجب کیا ہے، جو عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک میں بھی ادا کیا جاسکتاہے، جیسا کہ بعض صحابہ کرام کا عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے۔
حضرت ابن عمر صدقہ فطرا نہیں دیتے جو اسے قبول کرتا اور وہ(بعض صحابہ کرام) عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے(صدقہ فطر)دے دیا کرتے تھے۔
صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت عیدالفطر کو صبح صادق کے بعد اور عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ہے ۔اگر چاند رات یا رمضان المبارک کے کسی بھی دن بلکہ اگر رمضان سے پہلے بھی ادا کر دیا تب بھی فطرہ ادا ہو گیا۔ جس شخص کے پاس کچھ نہ ہو یا نصاب سے کم ہو اس کو صدقہ فطر دے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مستحق ہو۔ صدقہ فطر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰة کے ہیں یعنی جنہیں زکوٰة دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں ۔ ایک شخص کا فطرانہ ایک مسکین کو دیں یا چند مساکین کو دونوں طرح جائز ہے۔ اسی طرح چند آدمیوں کا فطرانہ بھی ایک مسکین کو دینا جائز ہے۔ صدقہ فطر کی مقدار گندم یا اس کا آٹا یا ستو صدقہ فطر فی کس نصف صاع جو آج کے رائج الوقت پیمانے کے اعتبار سے سوا دو کلو کے قریب ہے ۔ کھجور، منقّہ یا جَو ہو تو ایک صاع یعنی ساڑھے چار کلو کے قریب یا ان اشیاء کی قیمت ادا کرنا بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں ان کیلئے اشیائے ضرورت خریدنا آسان ہو جائے گا اور حاجت مندوں کی ضروریات بھی پوری ہو جائیں گی۔
صدقہ فطر میں سب سے پہلا حق رشتے داروں یا ہمسائیوں کا ہے۔ دینی مدارس کے غریب یتیم بے سہارا طالب علم اور بے گھر افراد اور دیگر متاثرین کو بھی صدقہ فطر دیا جا سکتا ہے ۔
حضورنبی ِکریم ۖکے اس فرمان کی بجاآوری سے معاشرے کے غریب اور بے سہارا افراد کی خدمت اور مدد ممکن ہو سکے گی اور وہ بھی اطمینان اور خوشحالی سے اس جشنِ مسرت میں حصہ لینے کے قابل ہو جائیں گے۔
حرف آخر :
الغرض! ماہ صیام کی نورانیت، افادیت اور فضیلت دُنیوی، اُخروی، طبی اور روحانی ہر ہر لحاظ سے ایک مومن مسلمان کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس ماہ مبارک کی اصل روح سے مستفید فرمائے۔ آمین !
وما علینا الاالبلاغ المبین
مضمون نگار متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے