پریڈ لائن میں زخمی ہونے والے نوجوان حسان بن جنید کی جرأت آمیز کہانی پر مبنی مضمون
وطنِ عزیز پاکستان کا دفاع ہمیں بہت مقدم ہے۔ اس کے لیے ہماری مسلح افواج انتہائی تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتی ہیں اور وقت پڑنے پر اس کے جوان اور افسر اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف ہماری مسلح افواج ہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم نے بھی اپنی جانوں کی پروا نہیں کی اور ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنے میں کردار ادا کیا۔ دہشت گرد نہ صرف مسلح افواج اور ملکی املاک پر حملہ آور ہوئے بلکہ انہوں نے تعلیمی اداروں ، مذہبی مقامات اور مساجد کا بھی احترام نہیں کیا۔ اس طرح کا ایک واقعہ 4 دسمبر2009 کو ہوا جس میں دہشت گردوں نے پریڈ لائن میں واقع مسجد میں نمازیوں پر حملہ کردیا۔
حسان بن جنید بھی ان غازیوں میں شامل تھے جو کہ 4دسمبر2009ء میں پریڈلین کی مسجد میں دہشت گردی کا شکار ہوئے اور آج پاک فوج کا کپتان بن کے ایک نئے عزم کے ساتھ ملک کی خدمت کررہے ہیں۔
حسان احمد نے کہاکہ میرے والدلیفٹیننٹ کرنل جنید مسجد ہمیشہ جلدی پہنچ جانے کی تلقین کیاکرتے تھے۔ اس دن بھی انہوں نے ہمیں جلد آنے کا کہا اور چلے گئے۔ میں اور میرا بھائی عفان بمشکل وقت پہ پہنچے، خطبے کے فوراً بعد پہلا بلاسٹ ہوتے ہی فائرنگ شروع ہوئی۔
ان کے والد جنید محفوط جگہ پہ تھے ان کو فوری طور پر گارڈز نے ان کے گھروںکی طرف نکال دیاجو نسبتاً محفوظ تھے، مگر حسان احمد جو حافظ قرآن بھی ہے، وہ اس وقت پہلی صف میں نماز پڑھنے لگا تھا اس کے ساتھ چھوٹا عفان بھی تھا۔ حسان نے جب دیکھا کہ زندگی کا دائرہ تنگ ہورہاہے اور میں تو اتنی طاقت میں ہوں کہ بھاگ سکتا ہوں مگر میرا چھوٹا بھائی عفان جو بہت ہی خوفزدہ ہے اس کا بچنا ان حالات میں بہت مشکل ہوجائے گا، اس نے راستہ ہوتے ہوئے بھی اپنے بھائی کو بچانے کی خاطر خود کو اس کی ڈھال بنایا۔
آخر تلوار کی زد تو پہلے ڈھال پہ لگتی ہے، عفان تو پیچھے چھپ گیا مگر حسان احمد نہ چھپ سکا۔ایسے لگ رہاتھا کہ ایک بہادر سپاہی اپنے دشمن کے سامنے سینہ سپرہے کہ آئو تمہارا وار سہنے کو تیارہوں۔
برگ ضعیف کی ٹہنیاں نہیں ہیں ہم
عزم آہن سے کاٹی ہیں تلواریں ہم نے
اورپھر ایک گولی حسان کے کندھے سے نکل کر پھیپھڑے سے باہر نکلی۔
حسان چلایا،عفی بھاگو یہ تمہیں مار دینگے، میں چل نہیں سکتااورپھر حسان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا دوسری گولی اس کے بازو سے نکلی اورپھر ایک گرینیڈ اس کے پاس آکے گرا مگر ساتھ ہی اس کے اوپر کوئی گرپڑاجس کی وجہ سے اس شخص کے توجسم کے ٹکڑے فضامیں بلندہوگئے مگر حسان کے ہاتھوں کا گوشت اڑگیا اور بازو شدید زخمی ہوا، جسم کے ہر حصے میں گرینیڈکے ٹکڑے لگے تھے۔
عفان کبھی مڑکے بھائی کو دیکھتا تھا،کبھی ماں کا چہرہ اس کی آنکھوں کے آگے آتا اورپھر وہ بچہ کھڑکی پھلانگ گیا۔ اس نے وہاں سے فون کیا کہ ماما بھائی جان کو تو گولیاں لگ گئی ہیں۔ ادھر جنید اس مخمصے میں تھے کہ ان کے بیٹے مسجد آئے ہی نہیں ہیںکیونکہ وہ خود بھی ان کو گھر چھوڑکر جلدی میں نکل آئے تھے کہ جمعہ قضانہ ہوجائے، موبائل بجا جنید نے اٹھایا تو مسز جنید بولیں جنیدمیرے بچے کہاں ہیں؟
وہ تو سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ گھر ہیں۔ پھر جنید وہاں سے نکلے اور بچوں کو ڈھونڈنے لگے لیکن جب پتہ چلاکہ عفان ٹھیک ہے، حسان کو گولیاں لگی ہیں تودل کی دھڑکن سینے سے باہرنکلی جارہی تھی۔ نہیں جو اللہ کا قرآن اپنے سینے میں محفوظ رکھتاہے اس کی حفاظت کا سامان تو اس کے اندر موجود ہے۔ مگر حسان کو وہاںنہ پاکر کاشفہ اورجنید ایم ایچ کی طرف دوڑے، وہاں پانچ کمروں میں زخمی اور شہید لائے گئے۔ کون سا چہرہ دیکھیں، کون سی چادر ہٹائیں، ممتا کے ہاتھ کانپتے رہے، آنسوگرتے رہے، جسم سے جان نکلتی رہی، وقت رک ساگیا، ہر چادر کے نیچے کسی کا لخت جگر تھا،کسی کا سہاگ، خون سے لپٹا ہواہرجسم وہاں ساکت پڑا تھا۔ بس سانس تھی کہ آرہی تھی، جارہی تھی۔
وہاں لیٹاہوا ہرمرد اور بچہ اپنا ہی لگ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرنل جنید اور کاشفہ نے چار کمرے دیکھ لیے، اب آخری کمرے میں ممتا کے دل سے آہ نکلی۔یااللہ یہاں تومیرا حسان مل جائے اورپھر ایک کونے میں خون سے لت پت حسان نظرآگیا۔
باپ کتنے بھی حوصلے میں ہوں ایک بار تو دل ان کا بھی کانپ جاتاہے، جنیدنے لہو بھرے ماتھے پہ بیٹے کو بوسہ دیا، میں آگیا ہوں، حسان اور حسان نے آنکھیں کھول دیں۔یہ تومعجزہ تھا ، وہ تو زندہ تھا ، اتنی گولیاں اور گرنیڈ! کسی کی دعاتھی یاکسی کی نیکی ۔ کیا ہماری وہ دعائیں جو قبول نہیں ہوئیں وہ آج اکٹھی ہوکر قبول ہوگئیں، ایک دعابن کر حسان کی زندگی کی صورت۔
ماں نے بیٹے کے اوپر سے چادر اتاری، اس کی پسلیاں سوجن سے پھٹ چلی تھیں، مگر حیرت کہ نہ درد تھانہ خوف۔ حسان مسکرانے لگا ماں میں ٹھیک ہوں، ماں نے خون آلود پائوں چومے، ڈاکٹرشہزادجو کرنل جنیدکے کزن تھے، وہ ایم ایچ میں موجود تھے،انہوں نے جب حسان کی یہ حالت دیکھی تو انہوں نے لمحہ لگائے بغیر آپریشن تھیٹرپہنچادیا، حسان کے لیے ڈاکٹرشہزاد زندگی کا فرشتہ بن گئے۔ یہاں تو تدبیر کچھ نہ تھی،صرف تقدیر تھی اوریوں حسان احمد اتنے بڑے حادثے سے اتنی خطرناک حالت سے اس طرح نکل آیا کہ آج بھی یقین نہیں آتا۔
حسان کے پورے جسم پہ سفید پٹیاں بندھی ہوئی تھیں مگر وہ سچامومن تھا،مسکرا رہاتھا۔
سب نے کہایہ کیا کیا بھئی؟
'بھائی کو بچانے کے لیے گولی تو کھانی پڑتی ہے۔'
یہ اس کا پہلاجملہ تھا۔
وہ بچہ جس کا خواب ایک فوجی افسر بننا تھا۔وہ والدجس نے نجانے کتنی مرتبہ اپنے بیٹے کو وردی پہنے دیکھا۔ماں جو نجانے کب سے اپنے بیٹے کی پاسنگ آئوٹ پریڈکا انتظارکررہی ہے، وہ سارے خواب بناتعبیرکے رہ گئے۔حسان کے اپنے بھی خواب ہوں گے جو شاید اس نے ایک کاغذ کی کشتی میں بہادیے ہونگے، کہ ان کے پورے ہونے کا وقت کبھی نہیں آئے گا۔
اگرساحل نظرآئے تلاطم بھول جانا تم
جیناپھرسے چاہوتوماتم بھول جانا تم
کے مصداق حسان احمدجو فوج میں جانے کے خواب دیکھا کرتا تھا مایوس نہیں ہوا اور اس نے2015ء میں135 لانگ کورس میںApplyکیا، میڈیکل کے شروع میں انٹرویو ہوتاہے۔Army Selection and Recruitment Centre میں حسان کو ڈاکٹر نے کہاکہ میں آپ کو پاس کرہی نہیں سکتا اس لیے آپ پہلے ایکDOلکھیں چیف کو یا ڈی جی سرجری کو۔ اگر وہ فیصلہ کریںگے تو ہم آپ کا انٹرویو کرینگے۔ حسان کے کہنے کے مطابق میں اس وقت بھی پُرامید تھا۔ اس نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوDOلکھا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے دو ہفتوں کے اندر ہی میڈیکل بورڈ بنادیاجس کی کارروائی ایک ماہ چلی اور اس نے حسان کو پھر سےUnfit for Armyکردیا۔ گھروالوں نے کہاکہ بیٹا آپ آگے بڑھو اور بھی بہت سے طریقے ہیں وطن کی خدمت کے۔ حسان نے انجینئرنگ میں داخلہ لیا اور 2018ء میں حسان کی ڈگری مکمل ہوئی تو اس کے اندر پھر سے دبی ہوئی چنگاری بھڑکنے لگی۔ Volunteer Military Service Systemکے مطابق فوج نے دوبارہ حسان کوموقع دیااور اس دوران حسان نے ایک بار پھر چیف کوDOلکھا، سرجن جنرل کو بھی اورDGPAکو بھی لکھا۔انہوں نے دوبارہ میڈیکل کروایا اور سرجن جنرل نے ذاتی طور پہ انٹرویومیںFit for Armyکیا۔ یہ ستمبر2018ء میں ہوا۔ حسان نے کہا مجھے یاد ہے جب میں سرجن جنرل کے سامنے گیا تومجھے ماںنے کہہ کے بھیجا تھاکہ بیٹا اگر انکار ہوجائے تو دل پرمت لینا،میں پھر بھی بہت امیدلگاکر گیا،جنرل نے جاتے ہی پوچھا ہاں جوان کتنے Pushups اورPullups کرلیتے ہو،اور گیمز کونسی کھیلتے ہو، حسان نے بتایا کہPushups 50-60 چیسٹ ویٹ80kgاٹھاتاہوں اورٹینس کھیلتاہوں۔ وہ کہنے لگے کہ میں تویہ سب نہیں کرسکتااورمسکرانے لگے، میں باہر آگیا۔ اس انٹرویو کے بعد ایک مرحلہ آتاہے کہ اندر سے چٹ آتی ہے جس پہ فِٹ اوراَن فٹ لکھاہوتاہے۔ مجھے یقین تھاکہ مجھے پہلے اَن فٹ کیاگیاہے تو اب بھی میرے نام کی چٹ آئے گی۔ پہلے مرحلے میں جتنی بار چٹ لے کے آدمی باہر آتا میں کھڑا ہوکرہاتھ بڑھاتاکہ میری ہی ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا اورپھر دوسرے مرحلہ میں اچانک میرے ہاتھ میں وہ چٹ آئی جس پہFit For Armyلکھا تھا۔ میری آنکھوں میں جتنے خوشی کے آنسو تھے وہ میں نے پی لیے اور گھر آکے ماں کو بتانے کے لیے میری آواز میرا ساتھ نہیں دے رہی تھی، میرے آنسو میری اماں کی آنکھوں میں سے بہہ رہے تھے۔
حسان نے 26نومبر2018ء میں ٹریننگ جوائن کی اور5مئی2019ء کو پاس آئوٹ ہوکر502ورکشاپ میںپوسٹ ہوا۔ پھر EMEکالج میں کورس کیا اور آج کل ملتان پوسٹنگ پر ہیں۔
بلاشبہ حسان جیسے نوجوان اس قوم کا مان اور اُمید ہیں کہ حالات چاہے کتنے بھی بدتر کیوں نہ ہو جائیں، آپ کوشش اور لگن کا دامن نہ چھوڑیں اور دلجمعی سے مقصد کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھیں تو اﷲ کریم ضرورکامیابی عطا فرماتے ہیں۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے