شہید کمانڈو کیپٹن جنید حفیظ کی والدہ اور چھوٹی بہن کی ہلال سے گفتگوپر مبنی تحریر
میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں زندہ ہوں گی اور میرا بیٹا اس دنیا میں نہیں ہوگا۔ مجھ عام سی عورت کو میرا بیٹا معتبر کرگیا، آج لوگ مجھے شہید کی ماں کہہ کر بہت عزت دیتے ہیں۔ شہید کیپٹن جنید حفیظ کی باوردی تصویر دیکھ کر ان کی والدہ نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ ویسے تو اس کے بچین سے لیکر آخری دن تک ہر لمحہ ذہن میں نقش ہے، مگر 23 ستمبر 2017 کی تاریخ نہیں بھولتی ، جب وہ اپنی آخری سالگرہ اور آخری بقرعید مناکر جا رہا تھا۔ اس کی ضد ہوتی تھی کہ میں جاتے وقت اسے بار بار پلٹ کر نہ دیکھوں، ورنہ اس کا جانا مشکل ہوجاتا ہے۔ میں اس کی ضد کی خاطر اپنے دل پر جبر کرتی تھی۔ اس روز جاتے وقت وہ مجھے پلٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، میں سمجھی یہ چاہ رہا ہے کہ میں اندر چلی جاؤں، میں نے فوری دروازہ بند کرلیا، اگرچہ دل اسے بار بار دیکھنے کو چاہ رہا تھا مگر اس کی خوشی کی خاطر اپنے آپ پر جبر کیا ۔کچھ لمحے بعد ہی ڈور بیل ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا توجنید سامنے تھا، وہ فوری میرے گلے لگ گیا، میں نے کہا بیٹا خیریت ہے، کہنے لگا امی بس آج آپ کے پاس سے جانے کو دل نہیں کررہا۔ میں نے کہا تو بیٹا رک جاؤ، کہنے لگا امی آپ بھول جاتی ہیں، آپ کو بتایا تو تھا، "میں نے وہاں پر خون کا انگوٹھا لگایا ہوا ہے۔'' دراصل ایس ایس جی کی روایت ہے ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد وہاں ہر جوان اپنے خون کا انگوٹھا لگا کر ملک سے وفاداری کا اقرار کرتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ مادر وطن پہلے ہے اس اقرار کے بعد ایس ایس جی کا ہر جوان اسے نبھانے کا سختی سے پابند ہوتا ہے۔
شہید کمانڈو کیپٹن جنید حفیظ کی والدہ نے بتایا کہ کیپٹن جنید 21ستمبر 1993کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پاک فضائیہ سکول پنڈی سے حاصل کی،جنید ہونہار طالبعلم ہونے کی وجہ سے اپنے اساتذہ کے فیورٹ سٹوڈنٹ تھے، انہیں نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ وہ بہترین قاری اور مقرر تھے۔ انہیں جسمانی سرگرمیوں میں ہاکی، فٹ بال اور سنوکر کے کھیل بہت پسند تھے جس کے وہ ماہر بھی تھے۔ ان کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے بہاولپور میں تعیناتی کے دنوں میں ہاکی میچ میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کی اور اپنے یونٹ کے لیے ٹرافی جیتی۔ انہیں کھانے پینے کا بہت شوق تھا اور اپنی والدہ کے ہاتھ کی پکی بریانی بہت شوق سے کھایا کرتے تھے۔انہوںنے بتایا کہ اللہ نے ہمیں دو بیٹے اور ایک بیٹی عطا کی ہے۔ اللہ کے حکم سے ہمارا چھوٹا بیٹا ذہنی کمزوری کا شکار ہے،جنید ہمارا بڑا بیٹا تھا، اس کی لگن دیکھ کر ہم نے اسے آرمی جوائن کرنے کی اجازت دی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے خوشی خوشی آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ دیا جس میں وہ توقع کہ عین مطابق سلیکٹ ہوگئے۔
وہ 18نومبر 2011کو پاک آرمی کے 128لانگ کورس میں شامل ہوئے۔ قابل قدر قابلیت کی وجہ سے پی ایم اے میں بہت سے اعزازات سے انہیں نوازا گیا، جس میں کراس بیلٹ کا اعزاز بھی شامل ہے۔ وہ عبیدہ کمپنی کے سی ایس یو او بھی رہے، انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے کمرے میں رہے۔ کاکول سے پاس آئوٹ ہونے کے بعد شہید کیپٹن کی پوسٹنگ12 اکتوبر 2013 کو 20 پنجاب رجمنٹ بہاولپور میں ہوئی۔ تمام والدین کی طرح ان کے ماں باپ کو بھی ان کی شادی کی تمنا تھی، جس کے لیے ان کی والدہ نے ایک لڑکی بھی دیکھ رکھی تھی، کیونکہ شہید کیپٹن نے شادی کا معاملہ مکمل طور پر اپنی والدہ کے سپرد کیا ہوا تھا۔ ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ جنید کے سر پر کمانڈو بننے کا شوق تھا تو اس نے ایس ایس جی میں اپلائی کردیا، جس میں 1800 امیدواروں میں سے پہلے چار میں وہ منتخب ہوئے ،وہ 2016 میں ایس ایس جی کی لائٹ کمانڈو میں تعینات ہوئے، بعد ازاں کیپٹن جنید حفیظ نے آپریشن ردالفساد اور ضربِ عضب میں اپنی جوان مرد خدمات سر انجام دیں۔
اس کے علاوہ شہید کیپٹن جنید حفیظ نے سیکڑوں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جبکہ اپنی یونٹ کے ساتھ بھی بہت سارے آپریشنز میں حصہ لیا ۔
افسران نے ان کی بہادری دیکھتے ہوئے ان کی کمپنی کو افغان سرحد سے ملحقہ چند پہاڑی چوٹیوں کو دہشتگردوں سے پاک کرانے کا ٹاسک دیا۔ آپریشن پر جانے سے ایک رات قبل انہوں نے حسب عادت اپنے والدین سے بات کی، بہت سی دعائیں لیں، پھر اپنے بھائی سے بات کی خیریت پوچھی، پھر اپنی بہن سے خوب باتیں کیں۔ جنید حفیظ کی بہن اریج نے گفتگو کا حصہ بنتے ہوئے کہا کہ بھائی پیارسے مجھے بکری کہتے تھے، ہم ان کی منگنی کرنا چاہ رہے تھے اور میں ان کی منگنی کی تیاری کی لیے بہت بے چین تھی۔ ان سے ضد کر رہی تھی کہ بس آپ جلدی سے آجائیں تو انہوں نے کہا ایک ذمے داری ملی ہے، دعا کرو وہ بفصل خدا خیر و خوبی سے پوری ہوجائے، پھر ایک ماہ کی چھٹی پر گھر آؤںگا، تم اور امی اپنے سارے ارمان پورے کرلینا، ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ آواز آئی، گاڑی تیار ہے صاحب، جس پر بھائی نے کہا، ہاں ٹھیک ہے، بس آتا ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا چل بکری میں چلتا ہوں، رب نے چاہا تو جلد ملیں گے، مجھے ذرا علم نہ تھا یہ ہماری آخری گفتگو ثابت ہوگی۔
کیپٹن جنید حفیظ کی والدہ کہتی ہیں کہ 13 نومبر 2017کی صبح کو نو بجے کے قریب جنید کے والد کے پاس کال آئی، وہ آفس جانے کی تیاری میں تھے، فون کال سنتے ہوئے ایک دم صوفے پر بیٹھ گئے۔ میں انہیں پریشان دیکھ کر فکر مند ہوئی، دل میں یا اللہ خیر کہا دراصل ان کی والدہ بہت بیمار تھیں، جب جنید کے ابو نے سیل پر بات ختم کی تو میں نے ان کا کندھا پکڑ کر کہا حوصلہ رکھیں، خالہ کو کچھ نہیں ہوگا تو انہوں نے میری جانب دیکھ کر کہاجنید شدید زخمی ہے، دعا کرو۔ یہ سن کر میرے حواس خطا ہوگئے۔ میں خود آرمی آفیسر کی بیٹی ہوںاور آرمی کی روایات سے باخبر ہوں۔ آرمی میں کبھی زخمی ہونے پر گھر والوں کو کال نہیں کی جاتی ہے۔ میرے ذہن میں جنید کی الفاظ گونج رہے تھے''امی آپ مجھے ایس ایس جی میں جانے کی اجازت دے دیں پلیز آپ تو آرمی آفیسر کی نواسی، بیٹی اور بہن ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ انشا اللہ میں ایسا کام کرونگا کہ آپ کا سر فخر سے اونچا رہے گا''اس کی بہادری سے میرا سر تو اونچا ہے مگر بیٹے کی یاد تو ظاہر ہے ستاتی ہے اور ستاتی رہے گی۔ جنید کے ابو بیٹے کی جدائی نہ برداشت کر سکے اور سال بھر کے اندر ہی وہ بیٹے کے پاس چلے گئے۔ ہمیں پاکستان آرمی کی جانب سے ایک اچھا گھر ملا ہے، جس کی دیواریں جنید کی تصاویر سے سجی ہیں جو میرے زندہ رہنے کا واحد سہارا بن چکی ہیں۔
یاد رہے کہ شہید کیپٹن جنید حفیظ نے 13 نومبر 2017کی رات باجوڑ ایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف آپر یشن میں حصہ لیا اور دہشتگردوں سے مردانہ وار مقابلہ کیا، انہوں نے متعدد دہشت گردوں کو جہنم رسید کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
حکومت پاکستان نے ان کی بہادری اور شجاعت کی بدولت انہیں ستارہ بسالت سے نوازا۔
مضمون نگار صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں
[email protected]
تبصرے