کسی بھی قوم کامستقبل اوراس کی طاقت اس کے نوجوان ہوتے ہیں۔نوجوان قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ یہ نوجوان قوم کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،دنیا میں برپاہونے والے ہرانقلاب اور بڑی تبدیلی کے پیچھے نوجوان نظرآئیں گے۔ہمارے باصلاحیت نوجوان ہمارا روشن مستقبل ہیں۔اگرمیں آپ سے سوال کروں کہ صرف چند دہائیوں بعد یعنی 2070 اور2100 میں دنیا کی پانچ بڑی معاشی طاقتیں کون سی ہوں گی؟ آپ سوچ رہے ہوں گے شاید جرمنی،فرانس،آسٹریلیا،جاپان یا جنوبی کوریا وغیرہ ان میں شامل ہوں گے۔آپ کومیرا جواب سن کرحیرت ہوگی ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ چند دہائیوں بعد پاکستان دنیا کی پانچ بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہوگا۔یہ سب کچھ اس کے باصلاحیت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے نوجوانوں کی بدولت ہوگا۔ یہ میں نہیں کہہ رہابلکہ یہ دنیا کے بڑے معاشی ماہرین اورمعاشی پیش گوئیاں کرنے والے کہہ رہے ہیں۔ ان میں امریکہ اوریورپ کے بڑے ادارے بھی شامل ہیں۔ غیرجانب دار عالمی ماہرین معاشیات خود بھی ان اعدادوشمار سے حیران ہیں۔ہمارے باصلاحیت نوجوان نہ صرف وطن عزیز بلکہ دنیا کی قیادت کرسکتے ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان آبادی کے اعتبارسے دنیا کاپانچواں بڑا اورجمہوری نظام کے حوالے سے چوتھابڑا جمہوری ملک ہے،جہاں کروڑوں باصلاحیت نوجوان ہیں۔
پہلے میں ذکر کردوں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیراہتمام جناح کنونشن سنٹر اسلام آباد میںہونے والے دو روزہ کنونشن کا - پاکستان یوتھ نیشنل کنونشن 23جنوری کو ہوا۔اس کنونشن میں ملک بھرسے دوہزار کے قریب طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔ کنونشن کی خاص بات یہ تھی کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نوجوانوں سے نہ صرف خطاب کیابلکہ ان کے سوالوں کے جواب بھی دیے۔اس وقت کے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کانفرنس سے بطورمہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ'' پاکستانی نوجوان ہماری آبادی کا 65 فیصد ہیں، ان کی شمولیت اور تعاون کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح ممکن نہ تھی۔پاکستانی نوجوان اس ابھرتے ہوئے قومی سلامتی کے چیلنج سے نمٹنے میں تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ توجہ مرکوز رکھیں اور پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے ریاستی اداروں سے مستند معلومات کے ذریعے تمام تفصیلات کی جانچ پڑتال کریں''۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے نوجوانوں سے خطاب کو تاریخی خطاب کہاجاسکتاہے،جس میں انہوں نے نوجوانوں کو موجودہ چیلنجز اورپروپیگنڈے کامقابلہ کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کوپراگندہ کررہاہے اورپاکستانی قوم میں مایوسی پھیلا رہاہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ہمارے نوجوان اس پروپیگنڈے کاشکار ہورہے ہیں،اس کامقابلہ کیسے کیاجاسکتاہے۔جنرل سید عاصم منیر نے کہاکہ ہمارے ملک کے نوجوان اس ملک و قوم کی روشن روایات، اقبال اور قائد کے خوابوں کی تعبیر کے امین ہیں۔ سوشل میڈیا کی خبروں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اورپروپیگنڈے کا مقصد بے یقینی، افراتفری اورمایوسی پھیلاناہے۔ سوشل میڈیاکی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے۔ تحقیق اورمثبت سوچ کے بغیرمعاشرہ افراتفری کا شکار رہتا ہے۔ اللہ نے پاکستان کو بے پناہ معدنی وسائل،زراعت،نوجوان افرادی قوت سے نوازاہے۔
میں یہاں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خطاب کی چند اہم باتیں قارئین سے شیئر کرناچاہوں گا،آرمی چیف نے قرآن پاک کی آیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ''اے ایمان والو!کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لے کر آئے تو تصدیق کر لو۔قرآن ہمیں خبر ملنے کی صورت میں تحقیق کا درس دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا تحقیق نہیں کرواتا۔ اس کے آپشنز میں تحقیق کا آپشن نہیں۔ صرف کٹ، پیسٹ، کاپی اور فارورڈ کے آپشن ہیں۔ اس لیے لوگ بغیر تحقیق کے جھوٹ کو آگے پھیلاتے ہیں۔قرآن نے ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے منع کیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جاتا ہے۔
آرمی چیف نے مزید کہاکہ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا تخلیق کیا ہے ان کے ہاں اس کے بے دریغ استعمال کی اجازت نہیں۔ امریکہ میں آپ ٹویٹر پر لوگوں کی عزتوں کو نہیں اچھال سکتے لیکن ہمارے ہاں جس کا جو جی میں آئے سوشل میڈیا پر پھینک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زوال کے شکار ہوئے۔قائداعظم نے ہمیں اتحاد، یقین اور تنظیم کا درس دیا تھا لیکن ہم نے کسی کو اپنے پاس نہیں چھوڑا۔ نہ اتحاد چھوڑا، نہ یقین اور تنظیم کا تو ہم نے شیرازہ بکھیر دیا۔ ان کاکہناتھا کہ اس وقت پاکستان ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کے ہاتھ میں جارہا ہے اور دشمن چاہتا ہے کہ اس ٹرانزیشن میں خلل ڈالے۔
'' پاکستان 240ملین لوگوں کا ملک ہے جس کا35 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مستقبل روشن ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ سوشل میڈیا پر پچانوے فی صد جھوٹ ہوتا ہے۔ اس پر انحصار کرنے کے بجائے نوجوان تحقیق کرے۔ یوول ہریری نے 21Lessons for the 21st Century نام کی جو کتاب لکھی ہے اسے ہر نوجوان کو پڑھنا چاہیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اکیسویں صدی میں اتنی کنفیوژن پھیلائی جائے گی کہ کلیرٹی آف مائنڈ بڑا چیلنج ہوگا۔ اس لیے آپ لوگ کلیرٹی آف مائنڈ پیدا کریں۔ آپ اپنے آپ کو انڈراسٹیمیٹ نہ کریں۔ آپ وسط ایشیا کا گیٹ وے ہیں۔ آپ نیوکلیئر پاور ہیں۔ دنیا کی بہترین آرمی آپ کے پاس ہے۔ وقتی مشکلات سے گھبرانا نہیں''۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کانوجوانوں سے یہ خطاب،قوم کودرپیش مشکلات اور چیلنجز میں بہترین تجزیہ اورگفتگو ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پربنا،لیکن ہمارے نوجوان اس سے دور ہورہے ہیں۔ہم خواہ مخواہ مغرب سے مرعوب ہیں جبکہ ہمارا اپنا کلچر اورروایات بہت مضبوط اورخوبصورت ہیں جن پرہمیں فخرکرناچاہیے۔سوشل میڈیا کوآرمی چیف نے 'شیطانی میڈیا' قرار دیا، جہاں بغیر تحقیق خبر آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔بطورصحافی اورلکھاری میں بھی سوشل میڈیا استعمال کرتاہوں۔رائی کاپہاڑ یا بات کابتنگڑ بنانا،یعنی عام سی بات کو کئی گنا بڑھا چڑھا کرپیش کرنا،حقائق کومسخ کرنا اورمختلف افراد کی جانب سے اپنے ذاتی خیالات اورخواہشات کو خفیہ رپورٹس قراردینا عام سی بات ہے۔ اتنا جھوٹ کہ انسان چکرا کررہ جاتاہے۔سوشل میڈیا پرجھوٹ اس یقین کے ساتھ بولاجاتاہے کہ اتنا جھوٹ بولوکہ سچ لگنے لگے۔ مختلف گروپوں کی جانب سے ٹرینڈز بنانا، ویڈیوزاورمیمز کے ذریعے پروپیگنڈا عام سی بات ہے۔ سوشل میڈیا کی اس مادر پدر آزادی کی وجہ سے اچھے بھلے انسان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتاہے کہ کسی بھی معاملے کے پیچھے سچائی کیاہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کامستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے،ہمیں اپنی نوجوان نسل پراعتماد اورفخر ہے۔یہ یقین بھی ہے کہ ہمارے نوجوان پاکستان کوان بلندیوں تک لے جائیں گے جن کاخواب آزادی کے وقت دیکھاتھا۔ہمارے نوجوان زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کامظاہرہ کررہے ہیں۔حکومت اوربڑے اداروں کی رہنمائی سے قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔یہ نوجوان اپنی صلاحیتوں سے جہاں اربوں ڈالر کازرمبادلہ پاکستان لاسکتے ہیں وہیں پاکستان سے قرضوں کابوجھ اتارکرملک کومعاشی طورپراپنے پیروں پرکھڑا کرسکتے ہیں۔سرمایہ کاری سہولت کونسل نے ان نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے کئی منصوبے تیارکیے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ روشن اورخوشحال پاکستان کی منزل زیادہ دور نہیں۔ ہماری ایکسپورٹ بھی بڑھے گی ،زراعت بھی ترقی کرے گی اورہم اپنی زمین میں موجود معدنیات جن کی مالیت کھربوں ڈالر میں ہے سے بھرپورفائدہ اٹھائیں گے۔ہمارے نوجوان کئی طرح سے ملک کی ترقی میں اپناکردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرکے ملک کی خدمت کرسکتے ہیں ،اپنابزنس کرسکتے ہیں ، اپنی کوئی کمپنی شروع کرسکتے ہیں ۔ اپنی کمیونٹی یاکسی بھی ادارے کے لیے رضاکارانہ طورپرکام کرسکتے ہیں۔اب یہ نوجوانوں پرمنحصر ہے کہ وہ کون ساراستہ پسند کرتے ہیں ۔باہنرنوجوانوں کاملازمت کرنا ،اپناکاروبارشرو ع کرکے دوسرے نوجوانوں کونوکریاں دینا،ٹیکس ادا کرنااورایکسپورٹ بڑھانا،یہ ملک کی ترقی ہی ہے۔ اگرآپ آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں تو دنیا کواس کی ضرورت ہے۔ آپ ڈاکٹر،انجینئر،زرعی یااقتصادی ماہر یا کوئی بھی ہنر سیکھ کر اپناکردار ادا کرسکتے ہیں۔ بزرگ شہریوں کے مقابلے میں نوجوانوں کے اندر زیادہ پوٹینشل اورنئے خیالات ہوتے ہیں۔ وہ مسائل کے حل اوردنیا کوایک نئے اوراپنے زاویے سے دیکھتے ہیں اسی لیے دنیا آگے جارہی ہے ،ترقی کررہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ آنے و الے کل میں مختلف شعبوں کے لیڈر ہمارے آج کے نوجوان ہیں ۔ ہمارے یہ نوجوان ماضی کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اورباصلاحیت ہیں۔ہمیں جوچند باتیں معلوم کرنے کے لیے لائبریریوں میں درجنوں کتابیں پڑھناپڑھتی تھیں وہ معلومات ان نوجوانوں کی فنگر ٹپس پرہیں۔آج کی اورپچاس سال پہلے کی دنیا میں بہت فرق ہے۔ہمارے نوجوانوں کوپاکستان اوردنیا کے مسائل کابھی اندازہ ہے۔وہ باآسانی تقابلی جائزہ لے سکتے ہیں۔دنیا کو نئے خیالات کی ضرورت ہے۔جوچیز کل تک ممکن نہ تھی، نوجوان انھیں ممکن بناسکتے ہیں۔یہ نوجوان ملک وقوم سے مخلص ہیں اور کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک کی ترقی میں نوجوانوں نے ہی اپنابھرپورکردار ادا کیاتھا۔ بس ہمیں ان نوجوانوں کواچھی تعلیم دینے اور ہنرمند بنانے کی ضرورت ہے۔قوموں کی تاریخ اٹھاکردیکھیں ان ممالک نے زیادہ ترقی کی ہے جنہوں نے اپنے نوجوانوں پرسرمایہ کاری کی ۔ورلڈ بنک بھی اپنی رپورٹس میں کئی بار اس بات کااعتراف کرچکاہے کہ نوجوانوں پرتوجہ دے کر کوئی بھی ملک مستقل اوردیرپا ترقی کرسکتاہے۔ہم روشن مستقبل چاہتے ہیں تواپنے نوجوانوں پرفوکس کرنا ہوگا۔ ہمارے نوجوانوں میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بہت مثبت سوچ رکھتے ہیں اورکچھ کرناچاہتے ہیں۔اسی لیے انھیں کچھ شکایات بھی ہیں ۔اگرانھیں شکایات نہ ہوں تویہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ ان کے پاس کرنے کواورکہنے کوکچھ نیا نہیں ہے اوروہ بھی ہماری طرح ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کوسب سے بڑی شکایت کرپشن کی ہے۔یہ شکایت اس بات کی دلیل ہے کہ آنے والے دنوں میں کرپشن نہیں ہوگی کیونکہ نوجوانوں نے اسے مسترد کردیاہے اوروہ اسے سوسائٹی کے لیے زہرسمجھتے ہیں۔انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ بہت سے لوگ بغیر کوئی محنت ،کوئی کاروبار کیے راتوں رات امیر کیسے ہوجاتے ہیں ؟ ریاست ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی ؟ یہ بھی بہت اچھی سوچ ہے۔تمام عمر محنت کرنے کے باوجود ایک استاداورایماندار افسر موٹرسائیکل پر اورکرپٹ شخص مہنگی گاڑی پرکیوں ہوتاہے؟کیا ہم اسے خدا کی عنایت سمجھ کرقبول کرلیں ؟نوجونواں کایہ سوال بھی بالکل درست ہے،ہمیں اس کاجواب دینا ہوگا۔
میں نوجوانوں کو یہ ہی کہوں گا کہ وقتی مشکلات سے گبھرانا نہیں چاہیے، پاکستان اورنوجوانوں کامستقبل روشن ہے۔بے روزگاری اورتوانائی کے بحران پرقابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کیے جارہے ہیں۔امید ہے نئی منتخب حکومت ملک میں سیاسی استحکام لائے گی۔ نئے کارخانے لگائے جائیں گے ،زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ افراط زر کی شرح پربھی قابو پالیاجائے گا۔ مایوسی کی بجائے ہمیں ہمیشہ کامیابی کاسوچنا چاہیے۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ، کمی ہے توصرف منصوبہ بندی کی ہے۔میرا خیال ہے پالیسی سازوں نے بھی اس چیزکونوٹ کرلیاہے،غلطیوں سے سیکھا ہے اوراب درست سمت میں کام کیاجارہاہے۔
ہمارے نوجوانوں کواس بات پرخوش ہوناچاہیے اوراس کافائدہ اٹھاناچاہیے کہ پاکستان میں انھیں کوئی بھی شعبہ اختیارکرنے ،کاروبارکرنے ،اپنی پسند سے کوئی بھی ملازمت کرنے کی آزادی ہے،دنیامیں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں نوجوانوں کویہ آزادی بھی نہیں کہ وہ اپنی مرضی کے شعبے کاانتخاب کرسکیں، اپنی مرضی سے کاروبارشروع کرسکیں یاکہیں آجاسکیں۔ہمارے یہاں سوشل میڈیا کے استعمال کی بھی مکمل آزادی ہے،جبکہ بہت سے ممالک میں نوجوانوں کویہ آزادی بھی نصیب نہیں۔ دنیاکے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کے نوجوانوں کوبھی تمام حقوق حاصل ہیں ۔ہمارے نوجوان دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں سے مقابلہ کررہے ہیں، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اوران سے بہت آگے نکلنے کی تیاری کررہے ہیں۔میں نے امریکہ میں دیکھا ہے وہاں کا مضبوط نظام نوجوانوں کوآگے لارہاہے جبکہ ان نوجوانوں میں جذبہ کم ہے۔ہمارے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کاجذبہ زیادہ ہے، صرف ہمارے سسٹم میں کچھ خرابیاں ہیں۔
نوجوانوں سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی باتیں انتہائی حوصلہ افزاء اورقوم کے مایوس طبقے میں ایک نئی روح پھونک دینے کے مترادف ہیں۔ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا تیزی سے اپنی شکل بدل رہاہے۔اس میں تبدیلیاں ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پرنہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پرہورہی ہیں ، نئی نئی اپ ڈیٹس آرہی ہیں۔ آج سے دس سال بعد سوشل میڈیا اورانٹرنیٹ ٹیکنالوجی ایک نئی شکل میں دنیا کے سامنے ہوگی،ہمیں اپنے نوجوانوں کواس کامقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار کرنا ہے۔ دوسری طرف نظریاتی اورترقی پذیر ممالک کے لیے ایک چیلنج تبدیل ہوتی نئی ٹیکنالوجی کا ہے، چند ماہ بعد انٹرنیٹ پرمقامی کمپنیوں اورحکومتوں کاکنٹرول کم سے کم ہوتاجائے گا۔ اس کی ایک مثال ایلون مسک کااسٹارلنکس پروگرام ہے۔یہ زمین کے مدار میں گھومنے والے سیٹلائٹس کاایک وسیع نیٹ ورک ہے۔اس کابظاہرمقصد دوردراز، دشوارگذار اوردیہی علاقوں میں انٹرنیٹ پہنچاناہے لیکن ہم جانتے ہیں اس طرح کے پروگرام کے اپنے سیاسی مقاصد بھی ہوتے ہیں۔مثلا جن ممالک میں انٹرنیٹ کومحدود کرنے کے لیے بعض پابندیاں ہیں اسٹارلنکس وہاں انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کررہاہے اس کی ایک مثال یوکرین ہے۔ سٹار لنک کے ساتھ ساتھ اس کی حریف کمپنیاں ون ویب اور وایاسیٹ بھی سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ سروسز فراہم کرتے ہیں، زمین کے نچلی سطح کے مدار میں ہزاروں سیٹلائٹس بھیج رہے ہیں۔ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ اسٹارلنکس بعض ممالک کی سیاسی حکومتوں اورنظام کے لیے ایک خطرہ بن سکتاہے۔ترقی پذیرممالک کے پاس وہ ٹیکنالوجی اوروسائل نہیں ہیں کہ وہ اس کامقابلہ کرسکیں۔ اس نئی صورتحال کے لیے شاید ایک نئے عالمی معاہدے کی ضرورت ہے،تاکہ وہ ممالک جن کانظام اورروایات امریکہ اوریورپ سے مختلف ہے وہ اپنے سیاسی نظام کے لیے خطرہ محسوس نہ کریں۔ہرقوم کاحق ہے کہ وہ جیسے چاہے اورجس نظام کوپسند کرتی ہواسے اختیارکرے۔
ہمارے نوجوانوں کے لیے اپنا کاروبار دنیا بھرمیں پھیلانے کاسنہری موقع ہے،پاکستانی مصنوعات دنیابھرمیں بھیجی جاسکتی ہیں،پاکستان میں بننے یاپیدا ہونیوالی بہت سی چیزوں کی دنیا بھر میں مانگ ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ صنعت وتجارت کی شکل بھی بدلتی جارہی ہے،اس میں مسلسل تبدیلیاں آرہی ہیں۔ آپ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی آن لائن سٹورسے خریداری کرسکتے ہیں اوراپنی بنائی ہوئی مصنوعات فروخت کرسکتے ہیں۔ ایک دور تھا کوئی ٹیکنالوجی، کوئی نئی پراڈکٹ ،کئی سال بعد ایک خطے سے دوسرے خطے میں پہنچتی تھی، تجارت کے لیے زیادہ تربحری اورزمینی راستہ اختیارکیاجاتا تھا۔اب ای کامرس میں مسلسل بہتری پیدا ہورہی ہے۔آنے والوں دنوں میں ورچوئل ٹیکنالوجی کی بدولت ہم دنیا کے کسی بھی معروف شاپنگ مال میں جائیں گے،گھربیٹھے وہاں موجود چیزوں کوپرکھیں گے اٹھا کرالٹ پلٹ کردیکھیں گے اوراپنی ٹرالی میں ڈال کر گھرلے آئیں گے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کواس تبدیلی کے لیے تیارکرناہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کودنیا میں ہونیوالی ان تبدیلیوں کاہم سے زیادہ علم ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) مستقبل کے لیے ایک اوربڑا چیلنج ہے۔ہمارے نوجوانوں کواس پربھی خصوصی طورپرتوجہ دینی چاہیے۔ بہت سے پاکستانی نوجوان مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں میں کام کررہے ہیں،تاہم یہ تناسب ابھی بہت کم ہے ۔ ہمارے نوجوانوں کواس شعبے میں بھی اپنی صلاحیتوں کالوہامنواناہوگا۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسی شخصیت نے بھی نوجوانوں کولیکچر دیتے ہوئے اس خطرے کی طرف اشارہ کیاہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس مستقبل میں انسانوں پرحملہ کرسکتی ہے،یہ انسانیت کے لیے خطرناک ہے،مصنوعی ذہانت کے روبوٹ یا مصنوعی انسانوں کے ذریعے ایک طرف ہسپتالوں میں پیچیدہ آپریشن کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف آرٹیفشل انٹیلی جنس کوفوجی مقاصد کے لیے دوسرے ممالک کے خلاف بھی استعمال کیاجارہاہے۔اگر مصنوعی ذہانت کو اچھے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ تعلیم، صحتِ عامہ، کاروبار اور طرز زندگی کو بہتر کرسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی عدم مساوات اور غربت کو بھی کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے سوشل میڈیا کی طرح مصنوعی ذہانت کے بھی منفی اورمثبت دونوں پہلو ہیں۔
اس وقت ایک بڑا مسئلہ برین ڈرین کاہے،ہمارے نوجوان ڈاکٹرز،انجینئرز ،آئی ٹی ماہرین تیزی سے بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔ کئی ممالک نے اپنے امیگریشن کے قوانین نرم کردیے ہیں تاکہ دنیا بھرسے باصلاحیت نوجوانوں کواکٹھا کرکے اپنے ملک کوترقی دیں ۔پاکستان سے بھی ہرسال لاکھوں نوجوان بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں۔اگرنوجوانوں سے پوچھیں تووہ کہتے ہیں کہ یہاں مواقع نہیں ہیں، نوکری نہیں ملتی،اپنے اسٹارٹ اپس کے لیے حکومت پیسہ نہیں دیتی۔نئی منتخب حکومت کواس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرنا ہوں گے تاکہ نوجوان کسی دوسرے ملک کے بجائے پاکستان میں رہ کر کام کریں اور برین ڈرین کایہ سلسلہ رکے۔ہمارے نوجوان بڑی تعداد میں گھر بیٹھے امریکی اوریورپی کمپنیوں کے لیے آن لائن کام کررہے ہیں۔اگرحکومتی سطح پر انھیں مزید سہولتیں اورترغیبات فراہم کی جائیں توکوئی بھی اپناگھرچھوڑ کربیرون ملک جانے کوترجیح نہیں دے گا۔ نوجوانوں کی سیرو تفریح کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نوجوان افرادی قوت کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے۔ ہمارے مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اچھی پالیسیاں یاتوبنائی ہی نہیں گئیں یاان پرعمل نہیں کیاگیا۔سب نے دعوے توبہت کیے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابررہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بے روزگارنوجوانوں کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے۔بے روزگاری کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔دوسری طرف بعض ماہرین کے مطابق پاکستان میں نوجوان افرادی قوت بہت زیادہ ہے، اس لیے نوجوانوں کابیرون ملک جانا تشویش کی بات نہیں۔ باہرجانیوالے جب اپنے خاندانوں کو رقم بھیجتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کے اپنے گھر والوں کو بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔
کسی بھی قوم کی کامیابی وناکامی، عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہرتبدیلی چاہے وہ سیاسی ہو، اقتصادی ہویامعاشرتی،اس میں نوجوانوں کاکردار بنیادی ہوتاہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں برپا ہونے والے انقلا بات کاجائزہ لیں،نئی ایجادات کودیکھیں سب میں آپ کو نوجوان ہی نظرآئیں گے۔ آج کی اس تیزی سے بدلتی دنیا کے رہنما بھی نوجوان ہی ہیں،سوشل میڈیا سے لے کرمصنوعی ذہانت تک سب نوجوانوں کی مرہون منت ہیں۔اچھے مستقبل کے لیے ہر قوم اپنی توجہ نوجوانوں پرمرکوز کیے ہوئے ہے۔جس قوم کے نوجوان اپنی زندگی میں کوئی مقصد بنالیتے ہیں انھیں پھرکوئی ترقی سے نہیں روک سکتا۔ ہم امریکہ اور یورپ پراعتراض کرسکتے ہیں، ان کے نوجونواں کامقصد صرف دولت کمانا ہے لیکن وہ اپنے اس مقصد کے لیے دن رات کام کررہے ہیں، نئی نئی ایجادات کررہے ہیں،سافٹ وئیر بنارہے ہیں،کمپنیاں بنارہے ہیں اوردنیا کی قیادت کررہے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کوبھی اپنی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور بناناچاہیے۔اپنی کامیابی کایقین رکھیں اوراس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیں۔ دنیا میں محنت اورمنصوبہ بندی سے کچھ بھی حاصل کیاجاسکتاہے۔قسمت کارونا وہ روتے ہیں جنھیں خود پریقین نہیں ہوتا۔گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہمارے نوجوانوں کے لیے دنیا کے دروازے کھلے ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے نوجوان چند دہائیوں میں ہی پاکستان کو ترقی وکامیابی کی اس منزل تک پہنچادیں گے جہاں دنیا ہماری مثالیں دیاکرے گی۔
مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے