11اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے قائد اعظم نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ :'' اگر ہم پاکستان کی عظیم ریاست کو خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی بہبود اور فلاح پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ آپ میں سے ہر ایک بلا تفریق رنگ، ذات، نسل یا طبقاتی تقسیم کے اس ملک کا برابر حقوق و فرائض رکھنے والا شہری ہے۔''
مارچ کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس مہینے میں برصغیر میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ شناخت ،علیحدہ وطن کی قرارداد منظور کروائی۔ جس کو ہم سب ''قرارداد پاکستان'' کے نام سے جانتے ہیں ۔
برصغیر میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کے اس اہم ترین فیصلے کی بنیاد پر تقریباًسات سال کی بھر پور جدو جہد کے بعد پاکستان کا قیام ممکن ہوسکا ۔قیام پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان، مال اور عزت کی قربانیاں دی ہیں ۔ جبکہ اس ملک کی سلامتی کے لیے ہمارے سکیورٹی فورسز کے جوان ہر روز نذرانہ شہادت پیش کرتے ہیں ۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے ہی پاکستانی قوم نے بہت سارے چیلینجز کا مقابلہ کیا ہے ، ہم نے اس سفر میں اپنوں کی بے وفائیاں بھی دیکھی ہیں اور غیروں کی کج ادائیاں بھی سہی ہیں ۔ نشیب و فراز کے اس سفر میں جہاں ہماری تاریخ میں سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول جیسے المناک سانحات موجود ہیں وہیں بحیثیت ایک پروقار قوم ہم اسلامی دنیا کی پہلی اٹامک پاور بننے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں ۔ یہ بھی تاریخ کے پنوں میں درج ہے کہ پاکستانی قوم نے ہمیشہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کیا ہے پاکستانی قوم ہر چیلینج کی بھٹی میں تپ کر کندن بن کر نکلی ہے۔
جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے تب تک پاکستان میں نئی مرکزی حکومت کی تشکیل سازی مکمل ہوچکی ہوگی۔
عام طور سے جمہوری معاشروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی رویوں سے قوم کی تعمیر اور معاشرے کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کرتی ہیں ۔
قومی یکجہتی ،ہم آہنگی کا حصول، ایک مشترکہ شناخت اور عوام وریاست کے درمیان قومی شعور پیدا کرنے کا عمل ہے۔ یہ اتحاد، ہم آہنگی کے مشترکہ احساس کی نشوونما کے لیے ایک نفسیاتی اور تعلیمی عمل ہے۔ قومی یکجہتی کے حصول کے لیے سیاسی وابستگی، مذہب، زبان، ثقافت، قبائل، ذاتیں اور نسل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پاکستان کی تخلیق اگرچہ ایک نظریاتی بنیاد کی وجہ سے ہوئی، لیکن پاکستان میں دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں جو کئی دہائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔
درحقیقت تمام سیاسی جماعتوں، مذاہب، ذاتوں، عقیدوں، مختلف نسلی پس منظر کے لوگوں نے ایک مربوط معاشرے اور ہم آہنگ ریاست کے لیے مل جل کر کام کرنا ہوتا ہے۔
1947 میں پاکستان بننے کے بعد ریاست میں کبھی بھی مذاہب یا نظریات کی بنیاد پر کوئی بڑابحران پیدا نہیں ہوا، ہاں اکا دکا واقعات کبھی کبھار رونما ہوجاتے تھے، جنہیں وقتاً فوقتاً مذہبی ٹچ دیا جاتا تھا۔ مگر وہیں دوسری جانب غیر ریاستی عناصر کی طرف سے لسانی اور مذہبی کارڈ کے غلط استعمال نے پاکستان کی ریاست اور معاشرے کے لیے شدید مسائل پیدا کیے ہیں۔
ٹی ٹی پی اور بہت سے دوسرے نام نہاد مذہبی عناصر اپنے اسلام کے برانڈ کو فروغ دینے کے لیے مذہب کا منفی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ استعمال اسلام اور نظریہ پاکستان کے خلاف ہے۔ جہاں اسلام امن، ہم آہنگی، باہمی احترام فطرت کو فروغ دیتا ہے، یہ عسکریت پسند اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتوں کی خودغرضی اور ان کے معمولی فائدے کے لیے بدامنی پیدا کرنے کی ایک نئی مثال ہیں۔
ہمارے وطن کو قومی ہم آہنگی کی جتنی ضرورت اب ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی ۔
اس وقت پاکستان کو نہ صرف اندورنی چیلینجز دہشت گردی ، غربت، بیروزگاری سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے بلکہ بیرونی چیلینجز جن میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاشی چیلینجز بھی شامل ہیں، کا بھی سامنا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال میں اس وقت سب سے ا ہم ترین اقدام قومی سطح پر ایک ایسے عملی بیانیے کی تشکیل و تعمیل کرنا ہے جو قوم کو قیام پاکستان کے مقاصد سے ہم آہنگی میسر کر سکے۔
پاکستان کی تاریخ اور دو قومی نظریہ کے تصور پر نظر ڈالیں تو عصر حاضر کے پاکستانی معاشرے میں سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
مختلف سیاسی قوتوں کے کارکنوں اور رہنمائوں کی طرف سے مین سٹریم اور سوشل میڈیا کا بے تحاشا غلط استعمال کیا جا رہا ہے جو قومی مفادات اور مشترکہ قومی مفاد کی قیمت پر مخالفین کو معمولی سیاسی فائدے کے لیے مسلسل اکساتے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ میڈیا چینلز عام طور پر قومی مقصد اور قومی یکجہتی کی ترویج میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے قومی یکجہتی پر مبنی پروگراموں کے لیے ٹی وی چینلز پر اوقات مختص کیے جائیں۔ میڈیا واقعی سب سے اہم ستون ہے، جو قومی مقصد اور ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔
ہمیں آگے بڑھنے کے لیے مذہبی، نسلی، سیاسی اور صوبائی بنیاد پر تقسیم کو فروغ دینے والی تمام قوتوں کو مسترد کرنا ہوگا جو پاکستانی معاشرے میں نفرتوں کو ہوا دیتی ہیں۔
لہٰذا ہمیں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں ریاست اور اس کے ادارے لوگوں کو ان کی ذاتی اور سماجی زندگیوں میں تحفظ، محبت اور ہم آہنگی دیں۔
جب پاکستان کے عوام میں امن، سیاسی اور سماجی استحکام، قومی یکجہتی اور ہم آہنگی ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔
یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کا مستقبل قومی یکجہتی پر منحصر ہے جو پاکستانی معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان سماجی ہم آہنگی کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی بہبود کو یقینی بنانا ہوگا ۔ صحت، گورننس، بجلی کی فراہمی، صاف پانی کی فراہمی، مقامی حکومتوں کا قیام یا جو بھی شعبہ زندگی ہو ان سب میں دیانتداری اور ایمانداری سے کام کرنا ہوگا ۔ ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا، ساتھ چلنے کا جذبہ ہونا چاہیے، جو جمہوریت کی کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ جمہوریت بھی اتحاد و یکجہتی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
پاکستان کے اندورنی اور بیرونی خطرات سب کے سامنے ہیں۔بھارت اور ایک اور پڑوسی ملک کی سرزمین بیرونی محاذ پر اشتعال انگیزی کے لیے استعمال ہورہی ہے ۔جب کہ سیاسی محاذ آرائی میں قومی ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، جو دشمن کو ملکی سلامتی کے خلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کے لیے قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا کو ساز گار کرنا ہوگا، اس لیے قومی سطح پر آپس کے اختلافات اور ذاتی مفادات سے اوپر دفاع وطن اور سلامتی کے لیے افواج پاکستان کو مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ ملکی سالمیت سب سے مقدم ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہماری فوج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پرپیش پیش رہی ہے ۔ علاوہ ازیں افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں نے ٹڈی دل کے حملو ں سے لے کر سیلابوں اور زلزلوں جیسی نا گہانی آفات میں عوام کی مدد کی ہے اور اپنی جا ن کی بھی پرواہ نہیں کی۔
ہر آڑے وقت میں پوری قوم اور مسلح افواج نے اتحادتنظیم اور یقین کا لازوال مظاہرہ کیا ہے۔
بحیثیت ایک ذمہ دار قوم یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم قائد کے فرمان اتحاد،ایمان اور تنظیم کو ہمیشہ یاد رکھیں اور وطن عزیز کی سلامتی،استحکام،دفاع اور ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔
مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے