حالیہ زندگی اور جدید ٹیکنالوجی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن چکے ہیں۔ مگر اس جدید ٹیکنالوجی سے حاصل ہو نے والے الیکٹرانک کچر ے میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم اپنے گھروں اور صنعتوں میں جن بجلی اور الیکٹرانک سامان کو استعمال کرنے کے بعد پھینک دیتے ہیں، وہی ای کچرے کے زمرے میں آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2019میں پانچ کروڑ 36 لاکھ میٹرک ٹن الیکٹرانک کچرا پیدا ہوا تھا۔ جبکہ 2030تک اس کی مقدار میں اضافہ ہوکر تقریباً ساڑھے7کروڑ میٹرک ٹن پہنچ جانے کا خد شہ ہے۔ پوری دنیا میں ای کچرے کو اگر براعظموں کی بنیاد پر تقسیم کرکے دیکھا جائے تو ایشیا میں 2 کروڑ 49لاکھ ٹن، امریکہ میں ایک کروڑ31لاکھ ٹن، یوروپ میں ایک کروڑ 20لاکھ ٹن اور افریقہ میں 29لاکھ ٹن ای کچرا ہر سال نکلتا ہے۔ آسٹریلیا میں اس کی مقدار 7لاکھ ٹن ہے۔ اندازہ تو یہ بھی ہے کہ ڈیڑھ دہائی کے اندر دنیا میں اس کی مقدار دوگنی ہوجائے گی۔
غور طلب ہے کہ ای کچرے کی مینجمنٹ ایک بہت پیچیدہ اور مرحلہ وار عمل ہے۔ الیکٹرانک کچرا تب پیدا ہوتا ہے جب کسی سامان کا استعمال کرنے والا یہ طے کرتا ہے کہ اس الیکٹرانک ڈیوائس کا اس کے لیے کوئی استعمال نہیں رہ گیا ، تو پھر وہ الیکٹرانک ڈیوائس ای کچرے کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اس سے محفوظ رہنے کے بہت سے اخلاقی اور با ضا بطہ طریقہ کار بھی ہوسکتے ہیں ، جیسے کسی ضرورت مند کو پرانا کمپیوٹر، موبائل یا دیگر الیکٹرانک سامان عطیہ کردینا یا پھر کمپنیوں کو واپس کردینا اور کچھ نہ ہوسکے تو ان کو تلف کرنے کے لیے درست طریقے کا انتخاب کر نا۔ ترقی پزیر ممالک میں آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے چیلنجز سامنے کھڑے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے سے دنیا نبردآزما ہے اور ای کچرا ماحولیات اور صحت کو نئے چیلنج کی جانب دھکیل رہا ہے۔
پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے 40 ہزار ٹن کچرا پاکستان پہنچتا ہے جبکہ 25 ہزار ٹن کچرا ایران سے آتا ہے اور اسے 'امپورٹڈ کچرے' کا نام دیا جاتا ہے۔تاہم پاکستان کے پاس ابھی تک الیکٹرانک سامان اور ہسپتالوں سے آنے والے کچرے کو علیحدہ کرنے کا نظام موجود نہیں ہے۔اس امپورٹڈ کچرے کو ری سائیکل کرنے کے لیے کراچی، لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ بھیجا جاتا ہے۔ جہاں پر اس کچرے سے سونا، لوہا، تانبہ اور دیگر قیمتی دھاتیں علیحدہ کی جاتی ہیں۔
الیکٹرانک اشیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کو الیکٹرانک کچرے کو تلف کرنے کے مسائل کا سامنا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ای ویسٹ کے لیے ٹھوس اقدامات اور پالیسی مرتب نہ کی گئی تو یہ نہ صرف ہمارے ماحول بلکہ انسانی زندگیوں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کے مطابق پاکستان باسل کنونشن کا دستخط کنندہ ہے اور اس نے 26 جولائی 1994کو اس کی توثیق کی ہے۔ یہ کنونشن الیکٹرا نک و یسٹ جیسے زہریلے کچرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ مگر پاکستان میں الیکٹرانک ویسٹ کے لیے کوئی خاص رہنما اصول و قانون موجود نہیں ہیں۔
انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکٹرانک کچرا ہمارے عام ٹھوس کچرے کا محض ایک اعشاریہ چار فیصد ہے تاہم یہ ہماری زمین میں 70 فیصد بھاری دھاتوں کا سبب بن سکتا ہے جس میں چالیس فیصد تک سیسہ بھی شامل ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق الیکٹرانک ویسٹ میں زہریلا مواد موجود ہوتا ہے جو انسانی جسم میں چکنائی کے ٹشوز کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے ہونے والی بچوں کی نشوونما اور دودھ پینے والے بچوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ٹی وی میں موجود مرکری اور نیوروٹوکسن انسان کے اعصابی نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیڈ میم اور مرکری پانی میں شامل ہوکر اسے آلودہ کرتے ہیں۔ سرکٹ بورڈز اور بیٹریز میں کیڈمیم ہوتا ہے جو کینسر کی مختلف اقسام کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پولی ونائل کلورائیڈ ایک مصنوعی پولیمر ہے جو الیکٹرانک آلات کی تاروں اور کیبلز کی موصلیت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب اسے ضائع کیا جاتا ہے تویہ کلورینیٹڈ ڈائیکسنز اور فرانز کے اخراج کو جنم دیتا ہے۔
ہم چاہے موبائل فون کی بات کریں یا لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک آلات کی ، ان سب میں استعمال ہونے والی معدنیات، پلاسٹک اور تابکاری پیدا کرنے والے کل پرزے سیکڑوں سال تک زمین میں قدرتی طور پر گھل کر ختم نہیں ہوتے ۔ ایک موبائل فون کی بیٹری ہی 6لاکھ لیٹر پانی آلودہ کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک پرسنل کمپیوٹر میں 3.8پونڈ مہلک سیسہ اور فاسفورس، کیڈمیم و مرکری(پارہ) جیسے عناصر ہوتے ہیں جو جلائے جانے پربراہِ راست ماحولیات میں گھلتے ہیں اور زہریلے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ کمپیوٹروں کی سکرین کے طور پر استعمال ہونے والی کیتھوڈ رے پکچر ٹیوب جس مقدار میں سیسہ (lead) ماحولیات میں چھوڑتی ہے، وہ بھی کافی نقصان دہ ہوتی ہے۔ کچرے میں پہنچنے والی یہ ساری چیزیں آخرکار انسانوں اور دیگر جانداروں میں کینسر جیسی کئی سنگین بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔
گلوبل ای ویسٹ مانیٹر کی 2020 میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 53 اعشاریہ 6 فیصد الیکٹرانک فضلہ پیدا کیا جارہا ہے جس میں سے صرف 17 اعشاریہ 4 فیصد کچرے کو ری سائیکل کیا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرانک کچرا چین میں پھینکا جاتا ہے جس کاحجم 10 اعشاریہ ایک فیصد ہے،دوسرے نمبرپر ا مریکا میں 6 اعشاریہ 9 فیصد الیکٹرانک فضلہ پھینکا جاتا ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ہمسایہ ملک بھارت ہے جہاں 3 اعشاریہ 2 مین ٹن الیکٹرانک کچراپیداہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت واحدملک ہے جہاں الیکٹرانک کچرے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے تاہم اس پرعمل درآمد نہ ہونے کے برابرہے جبکہ پاکستان میں الیکٹرانک فضلے کو تلف کرنے یا پھرری سائیکلنگ کے حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے۔
بہت سے ممالک میں ایسا کوڑ کباڑ غیرمناسب اور غیرقانونی طریقے سے زیر زمین دبایا جا رہا ہے، جس کے نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں الیکٹرانک کچرے کو زیر زمین دبایا جا رہا ہے، ان علاقوں کے بچوں کے خون میں لیڈ جیسے عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ گھروں،مارکیٹوں اور ایل ڈبلیوایم سی کے کوڑادانوں میں پھینکاجانے والا الیکٹرانک کچرا، کوڑااکٹھاکرنے والے اٹھالیتے ہیں اورپھروہ اس کچرے کوکباڑیوں کے پاس فروخت کردیتے ہیں جوپھرآگے انہیں پراسیس کرنے والوں کوبیچ دیتے ہیں۔ یہ تمام لوگ اس بات سے لاعلم ہیں کہ یہ کچرانہ صرف ان کے لیے بلکہ ہمارے ماحول کے لیے بھی کتناخطرناک ہے۔ان کی ری سائیکلنگ سے ہم ماحول کو بہتر بناسکتے ہیں اور قیمتی وسائل کے نقصان کوبھی روکا جاسکتا ہے۔
مسئلے کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں جس طرح الیکٹرانک سامان کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس سے اس کے کچرے کی مقدار میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے۔ بالخصوص اسمارٹ فون بڑی مصیبت ثابت ہورہے ہیں۔ دنیا میں موبائل فونر کی تعداد انسانی آبادی سے بھی زیادہ ہوچکی ہے اور آج کل کے دور میں اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور لیپ ٹاپ کی ڈیمانڈ میں آن لائن پڑھائی اور جاب جیسی مجبوریوں کے سبب مزید اضافہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ مارکیٹ میں اسمارٹ فون کا نیا ماڈل آتے ہی پرانا موبائل پھینک دیتے ہیں اور نیا لے لیتے ہیں۔ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونی کیشنز یونین کے مطابق بھارت، چین، روس، برازیل سمیت تقریباً 10ممالک ایسے ہیں جہاں انسانی آبادی کے مقابلے میں موبائل فونز کی تعداد زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور غور طلب پہلو مختلف علاقوں میں ای کچرے سے دیگر چیزیں نکالنے کا کاروبار بھی بڑے پیمانہ پر ہورہا ہے ۔ پرانے لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ، موبائل فونز، بیٹر یز ، کنڈیسر اور سی ڈی و فیکس مشینوں کومختلف کیمیکلز میں ڈبو کر ان سے پیتل، تانبا، سونا، چاندی، اور پلیٹینم وغیرہ جیسی دھاتوں کو نکالنے کی کوشش ہمارے پانی اور زمینوں کوبھی آلودہ کررہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال ای کچرے کا صرف 20فیصد حصہ ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے جو خطرناک صورتحال ہے کیونکہ 2022تک الیکٹرانک کچرے کا وزن 60ملین ٹن تک بڑھ جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ 5سال کے دوران ایشیاء میں پیدا ہونے والے الیکٹرانک کچرے میں 63فیصد اضافہ ہوا ہے،عالمی ادارے نے عالمی برادری اور بالخصوص جنوبی ایشیا کے ممالک کو الیکٹرانک کچرے کی ری سائیکلنگ اور تلفی کو جلد از جلد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ رپورٹ میں ای ویسٹ مینجمنٹ کے بنیادی ڈھانچے اور الیکٹرانک کچرے کی بڑھتی مقدار کو باعث تشویش قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بنیادی طور پر ہم نے ا پنے گھر یعنی زمین کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر جیسا سلوک کر رہے ہیں اور ہم کچرے اور آلودگی کا سیلاب لا رہے ہیں جو ہمارے ماحول، ہماری معیشتوں اور ہماری صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ 2050 تک دنیا میں ہر سال پیدا ہونے والے کوڑے کی مقدار چار ارب ٹن تک پہنچ جائے گی۔
عالمی ادارے کے مطابق اب کچرے کے خلاف جنگ کرنے کا وقت آ گیا ہے جو تین محاذوں پر لڑی جانی ہے۔ انہوں نے آلودگی پھیلانے والوں سے کہا کہ وہ کچرے کے خلاف اس جنگ میں قائدانہ کردار ادا کریں اور جو کچرا پیدا کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ایسی اشیا اور خدمات سامنے لائیں جن کی تیاری پر کم وسائل اور کم مواد خرچ ہوتا ہو۔ ایسا اہتمام کریں کہ ان کی تیار کردہ اشیا اپنے خاتمے تک کسی بھی مرحلے میں کچرا پیدا کرنے کا باعث نہ بنیں اور اپنی چیزوں کے کارآمد رہنے کی مدت بڑھانے کے تخلیقی طریقے تلاش کریں۔
مزید براں یہ کمپنیاں جن جگہوں پر کام کرتی ہیں وہاں انہیں کچرا ٹھکانے لگانے، اس کی بحالی اور کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے صارفین کے مزید ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے ممالک، شہروں اور مقامی حکومتوں کو تا کید کی ہے کہ وہ کچرے کو ٹھکانے لگانے کے جدید نظام تیار کریں اور انہیں بہتر بنائیں اور اس کے ساتھ ایسی پالیسیاں بھی تشکیل دیں جن سے پلاسٹک کی بوتلوں، الیکٹرانک کے متروک سامان اور دیگر اشیا کو دوبارہ استعمال میں لانے اور ان کی ری سائیکلنگ کی حوصلہ افزائی ہو۔ ہم سب کو روزانہ خریدی جانے والی اشیا کے ماخذ اور ان کے اثرات پر غور کرنے اور انہیں ٹھکانے لگانے کے عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنے زیراستعمال اشیا کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے، ان کے استعمال میں تبدیلی لانے، انہیں مرمت کرنے اور ان کی بحالی کے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان اشیا کو کوڑے میں پھینکنے سے پہلے ان کے بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ کچرے کے حوالے سے دانشمندانہ طرزعمل اختیار کریں جس میں اشیا کو ترک کرنے سے پہلے انہیں دوبارہ استعمال میں لانے کی افادیت ڈھونڈنا بھی شامل ہے۔کچرے کی آلودگی کا خاتمہ کرنا کچرے کے حوالے سے دانشمندانہ سوچ کے حامل معاشروں کی تخلیق کی جانب پہلا قدم ہے۔ پہلا قدم ذمہ داری لینا اور ایک مرتبہ استعمال ہونے والے پلاسٹک کی کھپت کو محدود کرنے کے لیے شعوری کوشش کرنا ہے۔ یاد رہے کہ ہم جو بھی چیز استعمال کرتے اور اسے ترک کرتے ہیں وہ بعد میں بھی کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتی ہے۔
من حیث القوم ہمیں عوامی سطح پر بیداری کی اشد ضرورت ہے ورنہ جدید ٹیکنالوجی کے ہاتھوں غلام بننے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ماحو ل اور صحت کی قربانی لینے والے الیکٹرانک کچر ے کے حوالے سے مستقبل میں نبرد ا زما نہ ہو سکیں گے۔
مضمون نگار ہاشمانی گروپ آف ہاسپٹلز میں بہ حیثیت مائکرو بیالوجسٹ وابستہ ہیں اورمختلف اخبارات میں کالم نگار ہیں۔
تبصرے