تاریخی اعتبار سے فوجی سفارتکاری کو کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا لازمی جزو گردانا جاتا ہے۔ جنگی محاذوں اور عسکری مستقروں سے نکل کر بیرون ممالک کے حکومتی اور عسکری نمائندوں سے میل جول فوجی قیادت کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص جغرافیائی اور سیاسی حالات کے پیش نظر عسکری سفارتکاری کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت ملکی خارجہ پالیسی کے قواعد و ضوابط کی حدود میں رہتے ہوئے ہمیشہ بہترین فوجی سفارتکاری کرتے ہوئے نظر آئی ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی ملکی سلامتی ایک چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔ ملکی بقا کے تقاضوں پر پورا اترنے کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عسکری اداروں کے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے کردار کی اہمیت اجاگر ہوئی۔ یہ کردار دنیا کے بیشتر ممالک کی افواج کی طرح ہمیشہ ایک اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پاکستانی افواج نے اپنی قومی امنگوں کے عین مطابق عسکری سفارتکاری کے ذریعے مختلف چیلنجز سے انتہائی پیشہ وارانہ طریقے سے نمٹا۔ یہ عسکری سفارتکاری ملٹری ٹو ملٹری تعلقات، ملٹری ایکسرسائزز اور عسکری سازو سامان کی خرید و فروخت جیسے اقدام کے ذریعے انجام دی جاتی رہی ہے۔ مزید براں افواج پاکستان نے دوست ممالک کی قدرتی آفات میں مدد کے ذریعے بھی باہمی تعلقات کی بہتری میں مدد کی۔افواج پاکستان اقوام متحدہ کی زیر نگرانی امن مشنز میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جو پاکستان کے عالمی امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کی جانب ایک انتہائی اہم قدم ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے آرمی کی کمان سنبھالتے ہی فوجی سفارتکاری کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے۔ ملک کو درپیش مخصوص سکیورٹی خطرات اور دگرگوں معاشی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے آرمی چیف نے ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کا ایک انتہائی مؤثر سلسلہ شروع کیا جس سے پاکستان کو سفارتی سطح پر بڑے پیمانے پر کامیابیاں ملیں۔ آرمی چیف کی جانب سے تمام دوست ممالک بشمول چین، خلیجی ممالک، یورپی ممالک، ترکی اور خاص طور پر امریکہ کے دورے کیے گئے۔ ان دوروں کا بنیادی مقصد عسکری معاملات میں تعاون اور تعلقات کو نئی جہتوں پر استوار کرنا تھا تا ہم اس کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش معاشی اور سفارتی چیلنجز کو کم کرنے میں بھی مدد ملی۔ آرمی چیف کے ان تمام دوروں کے اغراض و مقاصد اور ان کی افادیت بیان کرنا شاید ان صفحات پر ممکن نہ ہو تاہم چیف آف آرمی سٹاف کا دورہ متحدہ ہائے امریکہ ملک کو درپیش معروضی مسائل کے پیش نظر میں کثیرجہتی اہمیت کا حامل ہے۔ آرمی چیف کے اس دورے پر ہونے والی چند ملک دشمن عناصر کی تنقید سے ایسے دوروں کی سفارتی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اس دورے کے دوران زیر بحث آنے والے امور کا جائزہ لیا جائے تو ذیل میں دیئے گئے عوامل اہمیت کے حامل ہیں۔
روایتی طور پر پاکستان اور امریکہ کے مابین دو طرفہ تعلقات زیادہ ترفوجی نوعیت کے ہی رہے ہیں کیونکہ دونوں ممالک مسلسل ایک جیسے دفاع و سلامتی کے مسائل سے دوچار رہے ہیں خاص طور پر افغانستان پر روسی حملے کے دوران اور بعد میں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران بھی اس کے تانے بانے پاکستان کے پڑوس میں جا کر ہی ملتے ہیں۔ جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے دورے میں بیشتر توجہ ملکی دفاع و سلامتی، علاقائی امن و استحکام اور خاص طور پر افغانستان سے نمودار ہونے والے خطرات پر مرکوز رہی۔ امریکہ جس نے دوحہ معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں، پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عبوری افغان حکومت کے کیے گئے وعدے پورے کروائے۔ پاکستان کے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے افغان سرزمین استعمال کرنے کے خدشات اس بات کے غماز ہیں کہ افغان حکومت نے دوحہ میں جو معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ چونکہ امریکہ نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں اس لیے اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ افغانوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ان سے ان کے وعدے پورے کروائے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے یقینی طور پر افغان سرزمین سے تحریک طالبان پاکستان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے خطرات کو اجاگر کیا کیونکہ ان حملوں میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے(2020 میں 49،2021 میں 198، 2022 میں 237 اور 2023 میں یہ تعداد 317 حملوں تک پہنچ گئی ہے۔)جو امریکہ کے لیے چشم کشا ہیں، قبل اس کے کہ یہ اثرات اس کی اپنی قومی سلامتی پر پڑنے شروع ہو جائیں۔
امریکہ جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی حلیف بھی ہے، کو پاکستان کے ایس آئی ایف سی جیسے اقدامات ، جو تباہ حال معیشت کو بحال کرنے کے لیے اٹھائے گئے تھے ،سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ ایس آئی ایف سی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان میں، زراعت ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، معدنیات، توانائی اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ بیرونی و بین الاقوامی سرمایہ کاری کو لایا جا سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے امریکہ کا تعاون درکار ہوگا۔
معدنیات کے شعبے میں پاکستان میں پائے جانے والے وسیع مواقع کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ امریکی اداروں سے منرلز سکیورٹی پارٹنرشپ (ایم ایس پی) میں جگہ پانے اور اپنی حیثیت منوانے پر تعاون بڑھایا جائے۔ ایس آئی ایف سی کا یہ قدم توانائی کے لئے استعمال ہونے والی اہم معدنیات کی مختلف النوع اور ماحول دوست رسد کے سلسلے میں اٹھایا جانا ضروری تھا۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل کے ظلم کی روک تھام کے لیے امریکہ کا اثر و رسوخ اہمیت رکھتا ہے۔
پاک فوج کی فلسطینی جدوجہد کے لئے حمایت کا اظہار کور کمانڈرز کی کانفرنس اور آرمی چیف کی فلسطینی سفیر کے ساتھ ملاقات سے ہوا جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس دورے میں غزہ کی موجودہ صورت حال پر بھی بات چیت ہوِئی۔ خطے میں پائیدار امن کے حصول اور قیام کے لیے پاکستان کا اصولی موقف ایک بار پھر واضح کیا گیا جو او آئی سی، عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے بھی مطابقت رکھتا ہے ۔ اس سلسلے میں فلسطینی جد و جہد کے لیے پاکستان کی غیر مبہم حمایت بارے منیر اکرم کے بیان نے امریکی اداروں کے ساتھ اس سنگین معاملے پر بات کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔
اس دورے کو پاک چین دوستانہ تعلقات سے جوڑ کر دیکھنا بالکل غلط ہو گا۔ یہ غلط فہمی پاک چین دوستی اور تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ یہ انہی عناصر کا ایجنڈا ہو سکتا تھا جو ہمیشہ ایسے منفی مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ پاکستان چین کے ساتھ کثیر الجہتی تعلقات استوار کرنے کی راہ پر مکمل آزادی کے ساتھ گامزن ہے۔ معیشت اور دفاع کے میدانوں میں استوار یہ تعلقات نہ صرف ہر طرح کے گرم و سرد موسم سے گزر چکے ہیں بلکہ ہر طرح کے ریاستی و غیر ریاستی منفی پراپیگنڈے کی بھی نفی کرتے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ، پاکستان اور چین کے درمیان معدنیات کی تلاش اور تیاری، ماحولیات کے تحفظ، صنعتی پیداوار، تجارت، مواصلات، نقل و حمل ، ربط کاری، غذائی تحفظ، میڈیا، خلائی تعاون، شہری ترقی، استعداد بڑھانے اور ویکسین بنانے جیسے مختلف شعبوں میں تعاون کے 30 سے زائد ایم او یوز پر دستخط ہو ئے ہیں۔ امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں پاکستان ان دونوں طاقتوں کے مابین ایک ثالث کے کردار کی حیثیت سے کھڑا ہے۔ پاکستان کے دونوں ممالک سے تعلقات کی اپنی اہمیت ہے اور آرمی چیف نے یقینا اس امر کی انتہائی مؤثر طریقے سے وضاحت کی۔
آرمی چیف کا یہ دورہ بھی دیگر ممالک کے دوروں کی طرح انتہائی کامیاب رہا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نئی سمت کا تعین کرنے میں اہم سنگ میل ثابت ہوا ہے۔ منفی سوچ کے حامل عناصر کے لیے یہ دورہ عسکری سفارتکاری کی ایک عمدہ مثال تھا جس کے دوران آرمی چیف نے اپنے ہم عصر امریکی حکام سے باہمی امور اور پاکستان کو درپیش ملکی سلامتی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں ممالک کے باہمی مفادات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ حکمت عملی کا غماض تھا۔
یہ دورہ پاکستان کی عسکری قیادت سفارتکاری کے فوائد اور اہمیت کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔ اس نوعیت کی سفارتکاری بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ملک کے سفارتی تعلقات کی بہتری میں ہمیشہ ممد ثابت ہوئی ہے۔
مضمون نگار خصوصی و بین الاقوامی امور سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے