اگر میں یہ کہوں کہ آج کے اس جدید ترقی یافتہ دور میں بھارت بدترین اخلاقی پسماندگی اور اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہے تو یہ ہرگز مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ بھارت سمیت عالمی سطح پر رونما ہونے والے چند حالیہ واقعات میرے اس خیال کو بجا طور پر تقویت دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان واقعات سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ بھارت اب ایک سیکولر ملک کے بجائے نازی ریاست بنتی جا رہی ہے جہاں سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں ، نہ انہیں جینے کا بنیادی حق حاصل ہے ۔
26 جنوری 1950ء وہ دن تھا جب بھارت نے خود کو ایک ری پبلک (جمہوریہ) قرار دیا۔بلاشبہ یہ بھارت میں بسنے والے تمام لوگوں کو بلاتفریق بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ایک اہم دن تھا۔حال ہی میں بھارت میں یوم جمہوریہ منایا گیا تو میری آنکھوں کے سامنے بھارت میں وسیع پیمانے پربڑھتی ہوئی مذہبی منافرت اور اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم آ گئے۔ سوچا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے موجودہ کردار کو ذرا حقائق کی روشنی میں پرکھ لوں تاکہ اس کا اصل چہرہ دنیا پر آشکار ہو جائے۔
بھارت سیکولر ریاست ہے اورنہ ہی جمہوری روایات کی پاسدار ایک جمہوریہ،بلکہ اب تو یہ ایک فاشسٹ ریاست بن چکی ہے ۔ان بنیادی مفروضوں کو سچ ثابت کرنے کے لیے بہت سارے دلائل دیے جا سکتے ہیں۔ آغاز کرتے ہیں بھارتی وزیر اعظم نریند ر مودی سے۔ذرا تصور کریں کہ جس ملک کا وزیر اعظم آر ایس ایس جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کا تاحیات ممبرہو، بھلا وہ ملک صحیح معنوں میں کیسے جمہوری اقدار کا امین ہو سکتا ہے۔
بھارت کو اخلاقی پستی کی طرف لے جا نے والی دوسری بڑی وجہ ''ہندوتوا'' نظریے کا پرچار ہے۔ کوئی بھی بھارتی ادارہ چاہے وہ میونسپلٹی کے دفاتر ہوں، بزنس یا ٹریڈ یونیزہوں، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوں یا پھر میڈیا اور تعلیمی ادارے، سبھی آر ایس ایس کے زیر اثر ہیں ۔ شدت پسند ہندو گروہ ریاستی سرپرستی میں انہیں اپنے مذموم اور مکروہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اگر کوئی ادارہ حکومتی ارکان کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے بزور قوت دبا دیا جاتا ہے۔حکومت اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عدالتوں کا بھی خوب استعمال کرتی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370کی منسوخی اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر میں بھارتی عدالتوں کا جانبدارانہ کردار کھل کر سب کے سامنے آ چکا ہے۔
بھارت کو ایک فاشسٹ ریاست بنانے میں بھارتی آئین کی کچھ شقوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔کئی شقیں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی نفی کرتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے اکثر بھارتی قوانین میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری لکھا جارہا ہے۔ حال ہی میں آسٹریلیا کی South Wales Parliament کے زیر انتظام ایک گول میز کانفرنس کا انعقادکیا گیا جس میں امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔کانفرنس نے اپنے اعلامیے میں بھارت سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر میںجاری بھارتی ظلم و ستم،ماورائے عدالت قتل، دہشت گردی، مذہبی منافرت پھیلانے اور معصوم شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بنیاد پر بھارت کو ایک فاشسٹ ریاست قرار دیا۔
''شائننگ انڈیا'' جیسا نعرہ بھی بھارت کے زوال اور اخلاقی پستی کا ایک اہم جزوبن کر ابھرا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کے اندر ایک مہم چلائی گئی جس کا عنوان تھا، ''مودی ہے تو ممکن ہے''۔ شائننگ انڈیا کے تحت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو طاقت کا استعارہ بنا کر لوگوں کی قسمت کے ساتھ جوڑ ا گیا اور پھر انہیں باور کرایا گیا کہ ان کے تمام مسائل کا حل صرف مودی حکومت اور بی جے پی کے پاس ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نریندر مودی سمیت بھارت کی کئی پر اثر شخصیات ہندو عوام کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے محض استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کروڑوں ہندوئوں کی املاک اور وسائل پرقابض ہیں۔ Oxfamکی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2012ء سے 2021ء تک کے درمیانی عرصے میں بھارت کی کل آبادی کے صرف ایک فیصد لوگ ،40فیصد ملکی وسائل پر قابض ہیں۔ بالفاظ دیگر مودی سمیت بھارت کے صرف چندافراد ایسے ہیں جو ملکی دولت کا چالیس فیصد کنڑول کرتے ہیں جبکہ بھارتی عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دولت کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے بھارت کو معاشی اور سیاسی طور پر مختلف طبقات میں تقسیم کر دیا ہے۔ یہ طبقاتی کشمکش ملک بھر میں بے چینی، افراتفری ،باہمی نفرت اور شدت پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں پر ڈھایا جانے والا ظلم و ستم اور بربریت بھارتی جمہوریہ کے کردار پر ایک اور سوالیہ نشان ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمان مخالف پالیسیوں نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے اندر شدید نفرت پید اکر دی ہے جس کی بدولت بھارت میں پر تشدد واقعات میں بے پناہ اضافہ ہواہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ بھارتی حکومت اپنے مکروہ عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کر سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھانے والے نامور صحافی عرفان مہراج اور خرم پرویز جیسی سماجی شخصیات کی گرفتاریاں ظلم و ستم کی چند مثالیں ہیں۔ بھارت نے گزشتہ برس مقبوضہ کشمیر میں G-20کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس میں Tourism Working Groupکے چند نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اپنی سفارشات میں کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پوری وادی میں ظلم و ستم اور بربریت زوروں پرتھی۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں زیر حراست دم توڑنے والے 126 افراد کے ساتھ ساتھ 1673 ماورائے عدالت قتل ہونے والوں کے بارے میں دل دہلا دینے والے انکشافات بھی کیے ۔ مزید یہ کہ رسل ٹریبونل بہت پہلے ہی یہ انکشاف کر چکا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی کواسرائیل کی طرز پر اپنی ایک کالونی بنانے کی کوشش کررہا ہے جو کہ اس کے فاشسٹ عزائم کی ایک واضح مثال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کئی حربے استعمال کرتا ہے۔گزشتہ چند سالوں میں''را'' نے اپنی ذیلی تنظیموں کے توسط سے دنیا بھر میں ان تمام افراد اور تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے جو انسانی حقوق کی بھارتی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔ ان میں میڈیا کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور سیاسی مخالفین شامل ہیں۔کینیڈا میں سکھ مذہبی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حال ہی میں راہول گاندھی کو دی جانے والی دو سال کی سزا حکومت کی حزب اختلاف کوبزور قوت زیر کرنے کی ایک تازہ مثال ہے ۔
اپنی مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت بڑی مہارت کے ساتھ ''پرنسپل ڈیٹا پروٹیکشن لائ'' کا استعمال کررہی ہے۔ اس قانون کی رو سے حکومت کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی سطح پر کسی بھی طرح کے ڈیٹا بیس تک فوری رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ اپریل 2023ء میں یہ دائرہ کار بڑھا کر سوشل میڈیا تک کر دیا گیا تھاجس کو استعمال کرنے کے لیے ایک اور قانون Intermediary Guidelines and Digital Media Ethics Code Amendment Rule 2023کا سہارا لیا گیا۔ یہ قوانین میڈیا اور سوشل میڈیا کی آزادی پر قدغنیں لگاکر ان کا دائرہ کار محدود کر دیتے ہیں۔ان قوانین کی رو سے حکومت اپنے خلاف استعمال ہونے والی ہر معلومات ، مواد اور اس کی سوشل میڈیا پر کی جانے والی تشہیر پر مکمل نظر رکھ سکتی ہے۔
8اگست 2022ء کو بی بی سی نے ایک مضمون شائع کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر مسلمان مخالف میوزک کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مسلمانوںمیں شدید مایوسی پھیل رہی ہے ۔ مضمون کے مطابق یو ٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کر کے ایسے گانوں،ملی نغموں اور الفاظ کی تشہیر کی جا رہی ہے جو مسلمانوںکے مذہبی جذبات ابھارتے ہوئے ان کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔ عام طور پر ایسے نغموں میں کچھ اس طرح کے الفاظ کا استعمال کیا جا رہا ہے:If you want to live in india, learn to say 'Vande Mataram.'
بھارت میں دیگر مذہبی اقلیتوں کو بزور قوت ہندو بنانے کے کئی واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ان میں عیسائی سر فہرست ہیں۔ انہیں مذہب چھوڑنے کے لیے اکسانے کی خاطر مختلف ریاستی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
بھارت تاجروں اور مزدوروں کے لیے بھی محفوظ ملک نہیں ہے۔بزنس اینڈ ہیومن رائٹس ریسورس سنٹر کی ایک رپورٹ واضح کرتی ہے کہ صرف 2022ء میں بھارت کے اندر ایسے مزدور وں کے خلاف درج کیسوں کی تعداد 54 ہے جو کان کنی سمیت مختلف شعبوں میں اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ان میں بیرونِ ممالک سے آنے والی اکثریت لیبر کلاس غیرمسلم تھی جنہیں شر پسند ہندوئوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہندو شر پسند یہ بھی بر ملا کہتے ہیں کہ تجارت پر صرف ہندوئو ں کا حق ہے۔Clarion India کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ''وشوا ہندو پرشاد'' نامی گروہ کے کچھ مسلح افراد نے 14جنوری 2023ء کو Sri Mahalingeshwara Temple کے مرکزی دروازے اور دیواروں پر چند بینرز اور پوسٹرز آویزاں کیے جن پر درج تھا : ''بھارت میں صرف ان لوگوں کو تجارت کی اجازت ہو گی جو ہندو مذہب اور روایات پر پکا یقین رکھتے ہیں۔''
بھارت میں مسلمانوں کی املاک کو بزورقوت ہتھیانے کے کئی واقعات بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ 27دسمبر 2022ء کو مادھو پردیش حکومت کی جانب سے مقامی مسلمان خاندانوں کو ایک نوٹس بھجوایا گیا جس میں انہیں Ujjainکے قریبی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ وہاں کمبھ میلے (Kumbh Mela) کا انعقاد کیا جاسکے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ اترا کھنڈ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ 20 دسمبر 2022ء کو اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے چار ہزار مسلمان خاندانوں کو حکم دیا کہ وہ ہلدوانی کے قریب کا علاقہ خالی کردیں ۔جب ایسا نہ کیا گیا تو ان پر طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً ہزاروں مسلمان بے گھر ہو گئے ۔
حال ہی میں انڈین بزنس ایسوسی ایشن نے نیو جرسی میں بھارت کے یوم جمہوریہ کے حوالے سے ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں ایک بل ڈوزر کو اس طرح سجایا گیا تھا کہ اس پر نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کی تصاویر آویزاں تھیں۔ بل ڈوزر سر عام دکھا کر مسلمانوں کواُن کے گھروں کی مسماری کے واقعات کی یاددہانی کرائی گئی ۔ گویا یہ قوت اور طاقت کو ظاہر کرنے کا ایک انوکھا طریقہ تھا تاکہ بھارت سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں پر واضح کر دیا جائے کہ مودی حکومت بھارت میں ہندوحاکمیت اعلیٰ قائم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کو بھارتی انتظامی شعبوں سے دور کیا جا رہا ہے۔ ہندوئوں کے بعد مسلمان بھارت کی سب سے بڑی قوم ہے جبکہ وہاں ان کے لیے پولیس، افواج، اورپارلیمانی فورسز میں آنے پر پابندی عائد ہے۔ چند سال پہلے تک یہ سب انتظامی شعبوں میں ہوتا تھامگر بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد اب یہ دائرہ کار پھیل کر سیاست اور منتخب اسمبلیوں تک جا پہنچا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمان ممبران کی تعداد انتہائی کم ہے۔ گجرات کا تو یہ عالم ہے کہ وہاں 2007سے 2017تک سیاسی دور میں ایک بھی مسلمان منتخب نہ ہوسکا۔اگست 2022ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے 32صفحات پر مشتمل ایک مسودہ منظر عام پر آیا جس کا نام تھا؛ Hindu Rashtra Statute Draft۔ اس مسودے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے حق رائے دہی کو محدود کر دیا گیا ہے ۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کر کے انہیں دہشت گرد قرار دینا بھی معمول کی بات ہے۔ ہندو سیاسی رہنما آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا بیان داغ دیتے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ 2020ء میں بی جے پی کے ایک رہنما نے کچھ اس طرح کے الفاظ کہے تھے: ''جب تک دنیا میں اسلام موجود ہے، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔''
بھارت تو ایک طرف ،دیگر یورپی ممالک میں بھی مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 18ستمبر 2022ء کو دی گارڈین نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ برطانیہ میں ہندو مسلم فساد معمول بنتا جا رہا ہے جس کا آغاز ہندوئوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ہندو مسلمانوں کو دیکھ کر ''جے شری رام'' کے نعرے لگا نا شروع کردیتے ہیں جس سے ان کے درمیان بدکلامی ہوتی ہے اور بات جھگڑے تک چلی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والی یہ تمام کارروائیاں اور واقعات واضح کرتے ہیں کہ بھارتی پالیسیاں خطے میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ عالمی برادری اس معاملے کو سنجیدہ لے اور بھارت کی بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرے تاکہ بے لگام بھارتی پالیسیوں کو لگام دی جا سکے ورنہ خطے میں پائیدار امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور قومی و بین الاقوامی موضوعات پر مضامین لکھتی رہتی ہیں۔
تبصرے