وہ سردیوں کی ایک خوبصورت دوپہر تھی۔اسکول کی چھٹی کے بعد زین اور ارحا جیسے ہی گھر کے دروازے پر پہنچے، انہوں نے بلی کے ایک بچے کو گھر کے باہر رکھے گملوں کے پیچھے چھپتے ہوئے دیکھا۔
’’دیکھئے بھائی! وہاں ایک بلی کا بچہ چھپا ہوا ہے۔‘‘ ارحا گملوں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی پُرجوش انداز میں بولی۔
’’اوہ! یہ زخمی ہے!‘‘ زین نے ایک گملے کے پیچھے جھانکتے ہوئے کہا۔
زین نے آگے بڑھ کر بچے کو اٹھا لیا۔ وہ بھورے رنگ اور نیلی آنکھوں والا ایک پیارا بلی کا بچہ تھا۔وہ سہما ہوا تھا اور سردی سے کانپ رہا تھا۔ اس نے زین کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھا ، جیسے کہہ رہا ہو، ’’مجھے سردی لگ رہی ہے... میں بھوکا ہوں.... مجھے گھر کے اندر لے چلو...‘‘
’’اسے کہاں سے اٹھا لائے ہو؟ ‘‘ امی نے زین کے ہاتھوں میں بلی کے بچے کو دیکھ کر منہ بنایا۔ انہیں بلیاں پسند نہیں تھیں۔
’’امی، یہ زخمی ہے! ‘‘ ارحا جلدی سے بولی۔ ’’ہم اس کے زخموں پر دوائی لگائیں گے۔‘‘
زین اور ارحا نے بلی کے بچے کے زخموں کو صاف کیا اور دوائی لگائی، اسے پینے کے لیے گرم دودھ دیا اور آتش دان سے گرمی پہنچائی۔
چند ہی گھنٹوں کی دیکھ بھال کے بعد بچے کی حالت خاصی بہتر ہو گئی۔
’’اب یہ ٹھیک ہو گیا ہے! ‘‘ امی بولیں۔ ’’اندھیرا ہونے سے پہلے اسے باہر چھوڑ آئو۔‘‘
’’نہیں نہیں امی!... اسے گھر ہی میں رہنے دیجیے!‘‘ زین التجائیہ انداز میں بولا۔
’’ دیکھیے امی! یہ کتنا پیارا ہے!‘‘ ارحا نے زین کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ۔ ’’ہم اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
بچوں کی ضد کے آگے امی نے ہتھیار ڈال دیے لیکن بلی کا بچہ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
زین اور ارحا نے بلی کے بچے کو ’’کِکی‘‘ کا نام دیا۔ چند ہی دنوں میں کِکی ان سے خاصا مانوس ہو گیا۔
ایک روز کِکی نے میز پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے امی کا قیمتی گلدان توڑ دیا۔ امی بہت غصہ ہوئیں، کِکی سہم گیااور دھیرے دھیرے چلتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
زین اور ارحا اسکول سے گھر واپس آئے تو کِکی کو موجود نہ پا کر پریشان ہوگئے اور اسے ڈھونڈنے کے لیے گھر سے باہر نکل گئے۔
کچھ ہی دیر میں انہوں نے کِکی کو تلاش کر لیا، وہ جھاڑیوں کے بیچ اداس بیٹھا تھا۔ زین اور ارحا اسے واپس گھر لے آئے۔
.........
ایک شام کا واقعہ ہے۔ سردی اپنے عروج پر تھی۔ زین کو موسمی بخارچڑھا، رفتہ رفتہ شدت بڑھتی گئی، اور لاکھ کوشش کے باوجود بخار کی شدت میں کمی نہ آئی۔ اس صورتحال پر امی خاصی فکر مند دکھائی دیتی تھیں۔ اتفاق سے اس روز ابو کسی کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔
ان حالات میں کِکی زین کے بستر کے اردگرد ہی رہتا، کبھی کبھی امی کی نظروں سے بچ کر بستر پر چڑھ جاتا اور میائوں میائوں کی آوازیں نکال کر زین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتا۔
امی کِکی کی آوازوں سے الجھن محسوس کر رہی تھیں۔انہوں نے کِکی کو کمرے سے نکال کر دروازہ بند کر دیا۔وہ ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ برآمدے میں جا بیٹھا۔امی جب کسی کام سے دروازہ کھول کر باہر آتیں، کِکی دوڑ کر زین کے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتا، لیکن ناکام رہتا۔
کچھ دیر بعد کِکی گھر کے عقبی حصے کی طرف چلا گیا، زین کے کمرے کی ایک کھڑکی اس طرف کھلتی تھی۔ متعدد کوششوں کے بعد آخر کار وہ کھڑکی کی چوکھٹ تک پہنچنےمیں کامیاب ہو گیا لیکن سردی کی وجہ سے کھڑکی بند تھی۔
کِکی کھڑکی کے بند شیشوں کے پیچھے سے زین کو فکرمند نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ امی نے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی اور پھر زین کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
شام سے رات اور رات سے صبح ہو گئی۔ کِکی کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھا رہا جبکہ امی زین کے سرہانے بیٹھے بیٹھے تھک کر سو گئیں۔
صبح ہوئی تو زین کا بخار اتر چکا تھا۔ امی نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا لیکن جیسے ہی ان کی نظر کھڑکی پر پڑی، ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔کِکی اب بھی کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھا زین کومسلسل دیکھے جا رہا تھا، اسے ٹھنڈ کا احساس تھا نہ بھوک اور پیاس کی فکر۔
ایک بلی کے بچے کی انسان سے محبت کا یہ عالم دیکھ کر امی کا دل پسیج گیا۔ انہوں نے فوراً کھڑکی کھول دی۔
کِکی نے پہلے کھڑکی سے کمرے میں چھلانگ لگائی اور پھر سیدھا زین کے بستر پر... وہ زین کے گرد چکر لگاتا رہا۔
امی کی آنکھیں بھر آئیں، کِکی سے ان کی بیزاری اب محبت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ انہوں نے کِکی کو اٹھا یا اور اسے پیار کرنے لگیں۔
’’کِکی اب ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ ‘‘ امی پُرجوش لہجے میں بولیں۔ ’’میں اس کے لیے گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔‘‘
کِکی کے ساتھ پہلی بار امی کا یہ محبت بھر اانداز دیکھ کر زین اور ارحا بے ساختہ مسکرا دیے۔
تبصرے