’’دادا جان! آج کون سی کہانی سنائیں گے؟‘‘داداجان مغرب کی نماز سے فارغ ہوکراٹھے ہی تھے کہ پاس کھڑی رمیزہ اُن کاہاتھ پکڑ کر ان کے ساتھ ساتھ چل دی ۔ دادا جان کا معمول تھا کہ وہ شام ہوتے ہی بچوں کو کوئی دلچسپ حکایت، اخلاقی کہانی یا پھر کوئی واقعہ سناتے تھے۔ اس طرح بچوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا اور ان کی اخلاقی تربیت بھی ہو جاتی تھی۔
رمیزہ کا سوال سن کر دادا جان مسکرائے اور پوچھنے لگے کہ کیا اُس کے باقی سب بہن بھائی بھی کہانی کے منتظر ہیں۔ رمیزہ نے جی میں جواب دیا۔ کمرے میں پہنچ کر دادا جان نے اپنی کرسی سنبھال لی اور کہنے لگے: ’’بھئی! آج کا واقعہ بہت خاص ہے۔‘‘ یہ سن کر سب بچے متوجہ ہو گئے ۔
’’وہ ایک سہانا اورپُرسکون دن تھا۔ مسجد نبوی تعمیرہوچکی تھی اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ اس کے صحن میں تشریف فرما تھے۔ آپﷺ نے تمام صحابہ کرام کو وہاں جمع ہونے کی تلقین کی تھی۔ ان میں مکہ سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین شامل تھے اور مدینہ کے رہنے والے انصار بھی ۔ مکہ سے آنے والوں کے پاس گھر تھا نہ ہی کوئی مال و دولت ۔ وہ اپنا سب کچھ مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تھے جبکہ انصار کے پاس اپنے گھربھی تھےاور مال مویشی بھی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام ؓپر ایک نظر ڈالی اور فرمانے لگے کہ آج یہاں جمع ہونے کا مقصد آپ سب کو ایک عظیم رشتے میں پرونا ہے اور وہ عظیم رشتہ ہے’ اخوت‘ یعنی بھائی چارہ۔ آج کے بعد آپ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ‘‘
دادا جان ایک لمحے کو رکے اور پھر کہنے لگے،’’بچو!تاریخِ اسلام میں اس واقعہ کو مواخات مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس دن نبی پاکﷺ نے مومنوں کے درمیان بھائی چارے کا عظیم رشتہ قائم کر دیا۔
انصار مدینہ نےیہ سنا تو بہت خوش ہوئے۔ انہوں نےاپنےمہاجربھائیوں کوگلےسے لگا کراخوت کی ایسی مثال قائم کی جس پر مسلمان آج بھی فخر کرتےہیں۔ میں آپ کو ایک انصاری صحابی حضرت سعدبن ربیعؓ اور حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کے درمیان ہونے والا ایک اہم واقعہ سناتا ہوں۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہمارے نبیﷺ نے مواخات کا اعلان کیا توایک انصاری صحابی سعدبن ربیعؓ آگے بڑھے اور حضور نبی کریمﷺ سے اجازت طلب کرکے کہنے لگے:’میں انصار میں سب سے زیادہ ما ل دار ہوں۔ چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ میرا بھائی عبد الرحمن بن عوفؓ میرے مال کا آدھا حصہ اپنے پاس رکھ لے ۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے یہ سنا تو اپنے بھائی کا شکریہ ادا کیا اوران کو دعا دے کر کہنے لگے کہ آپ مجھے بازارکا راستہ دکھا دیں۔ میں وہاں جا کر محنت مزدوری کروں گا اور اپنی گزر بسر کرلوں گا۔ ‘‘
’’اس دن کے بعد مدینہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان ہر طرح کی تفریق ختم ہو گئی اور وہ سب متحد ہو کر آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ یہ سب بھائی چارے کی بدولت تھا۔ اس کے بعد مومنوں پر جب بھی کڑا وقت آیا ، وہ سب مل کر اس کے سامنے ڈٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابیوں سے نوازا اور دنیا بھر میں ان کی عزت و احترام میں اضافہ ہوا۔ ‘‘
دادا جان کی باتیں سن کر بچے حیران ہو رہے تھے۔ وہ خاموش ہوئے تو علی کہنے لگا کہ ان کی ٹیچر نے انہیں بھائی چارے کے عالمی دن کے بارے میں بتایا تھا۔ دادا جان اس کی بات سن کر مسکرائے اور کہنے لگے کہ بھائی چارہ اور باہمی محبت دنیا کے تمام ممالک او ر لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ نے 4 فروری کو بھائی چارے کا عالمی دن قرار دیا جو ہرسال پوری دنیا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عالمی سطح پر بھائی چارے کو فروغ د ینا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی بھائی چارے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام نے تمام مسلمانوں کو چاہے وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں بستے ہوں،ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے۔
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی رنگ ونسل اور وطن سےہو۔ جو کلمہ طیبہ پڑھ کراسلام میں داخل ہو جاتاہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف یا ایذاء پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس کے درد کو محسوس کرتا ہے۔ یہ درد ہمیں بھی محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آج ہمارے فلسطینی بہن بھائی اور کشمیری مسلمان جن مشکلات اور ظلم و جبر کا شکار ہیں ، وہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے۔ ہمیں فلسطین اور کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھا نی ہے اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑنا ۔ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور یہی ہمارے دین کی تعلیمات بھی ہیں۔
’’پاکستان میں بسنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ان کے درمیان بھائی چارے کی فضا قائم کرناہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی محبت اوربھائی چارے کو فروغ دیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکے ۔‘‘ دادا جان بچوں کو تلقین کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ کے اسکول میں پڑھنے والے دیگر طالب علم اور محلے دارسبھی آپ کے بھائی ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناتےآپ سب کو ان کے لیے وہی جذبہ اور رویہ رکھنا ہے جو آپ اپنے حقیقی بہن بھائیوں کےلیے رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے ارد گرد بسنے والے تمام لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ اگر کوئی کسی مشکل میں مبتلا ہے تو اس کی ہر ممکن مدد کرنی ہے۔
’’بچو! یاد رکھو! اسلامی اخوت کا رشتہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے واسطے سے جڑا ہوا ہے لہٰذا یہ کبھی کمزور نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان باہمی محبت اور اخوت کا مظاہرہ کریں۔قرآن مقدس میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ’’بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات، آیت 10)
تبصرے