علی اور کامران ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ دونوں بہت اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے پڑوسی بھی تھے۔
آج اسکول کی طرف سے امتحانات کا سلیبس مل گیا تھا۔ کامران سلیبس اور ٹائم ٹیبل کو غور سے پڑھنے لگا جبکہ علی نے لاپروائی سے اسے بیگ میں رکھ لیا۔
’’علی!پہلا پیپر سائنس کا ہے اور اس بار پانچ ٹاپک آرہے ہیں۔‘‘ کامران نے نصاب پر نظریں جماتے ہوئے کہا لیکن علی کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے نظریں اٹھائیں تو دیکھا کہ وہ گیند ہوا میں اچھال کر اسے بڑی مہارت سے کیچ کرنے میں لگا ہواتھا۔
’’علی!میں تم سے کچھ کہہ رہا ہوں۔‘‘کامران نے اس کے سامنےسلیبس کی کاپی لہرائی ۔
’’اف!! ارے بھئی ابھی امتحانات میں ایک مہینہ باقی ہے... آرام سے دیکھ لیں گے۔ تمہیں کیا جلدی ہے؟ ‘‘ علی نے اطمینان سےجواب دیا۔
’’ کم از کم دیکھ تو لو...‘‘کامران کو اتنا اطمینان ہضم نہیں ہورہا تھا لیکن علی ابھی بھی کھیل میں مگن تھا۔ کامران نے کندھےاچکاتے ہوئے دوبارہ اپنا دھیان سلیبس پر لگا دیا۔
اگلے دن کامران نے اپنی تیاری شروع کردی ۔ اس نےایک لائحہ عمل ترتیب دیا جس میں اسے روزانہ تین گھنٹے پڑھائی کودینے تھے۔ وہ اسکول سے آ کر تھوڑاآرام کرتا ، پھر تین سے چھ بجے تک پڑھائی کرتا، اس کے بعد ٹی وی پراپنا پسندیدہ پروگرام دیکھتا یاکھیلنے چلا جاتا اور رات دس بجے تک سوجاتاتھا۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب کامران اسکول کے بعد دوپہر کا کھانا کھا کر سونے ہی لگا ہی تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ اس سے پہلے کہ وہ سوچتا کہ کون آیا ہوگا،امی جان نے آواز دی،’’کامران بیٹا! علی، آپ سے ملنے آیا ہے۔‘‘
علی اپنے کمرے سے باہر آیا تو کامران بولا: ’’بھائی! چلو آج عزیر کے گھر چلتے ہیں، وہاں سارا دن ویڈیو گیم کھیلیں گے۔‘‘
کامران نے علی کو گھورتے ہوئے کہا، ’’پورا دن...؟ بات سنو! مجھے شام میں پڑھائی کرنی ہے ۔ چھ بجے کے بعد میں صرف ایک گھنٹہ ویڈیو گیم کھیلنے کے لیے آ سکتا ہوں لیکن اب، جبکہ امتحانات سر پر ہیں، ہمیں پڑھائی کو روز وقت دینا چاہیے تاکہ عین وقت پر کوئی پریشانی نہ ہو۔‘‘
علی ہنسا اور ہنستا ہی چلا گیا، ’’ارے بھئی! امتحانات میں ا بھی ایک ہفتہ باقی ہے ، ایک دن اگر نہیں پڑھو گے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، چلو بھی اب پلیز....‘‘
کامران چونکہ اپنے ارادے کا پکا تھا اس لیے اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا اور اس دن بھی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی ایک گھنٹہ عزیر کے گھر کھیلنے گیا۔
آخر وہ دن بھی آ گیا جب ان کا پہلا پیپر تھا۔ کامران اس دن شام کو مطلوبہ پیپر کی تیاری کرنے بیٹھا تو اسے اطمینان تھا کہ سارے اسباق کی تیاری مکمل تھی۔ وہ ایک نظر ڈالتا ہوا صفحات پلٹے جارہا تھا کہ امی کی آواز آئی، ’’کامران! بیٹاعلی آپ سے ملنے آیا ہے۔‘‘
علی خود ہی کامران کے کمرے میں پہنچ گیا، ’’یار کامران! میری سائنس کی کاپی نہیں مل رہی ، اب میں کیا کروں؟‘‘
’’کیا! ‘‘ کامران ششدررہ گیا۔ کیا مطلب ؟ تم نے سر حشمت سے اپنی کاپی واپس لی تھی نا؟ اور اس بات کو تو دو ہفتے گزر چکےہیں۔‘‘
’’ارے ہاں! ‘‘ علی کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔
’’سر نے کہا بھی تھا کہ اسٹاف روم سے خود جا کر لے لو اور میرے ذہن سےنکل گیا... اب کیا ہوگا؟ ‘‘
’’اب... اب ایسا کرو کہ تم میری کاپی لے جاؤ اور اس سے پڑھ لو لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ تمہیں امتحان سے ایک دن پہلے اپنی کاپی یاد آئی ہے؟ تم ایک دن میں سارے اسباق کیسے ازبر کرو گے؟‘‘ کامران کے لہجے میں فکر کے ساتھ تاسف بھی تھا۔
’’اگر میں تمہاری کاپی لے گیا تو تم کیسے پڑھو گے ؟ ‘‘ علی نے شرمندگی اور ہچکچاہٹ سے پوچھا۔
’’الحمدللہ! میری تیاری مکمل ہے۔ اب صرف کتاب سے ہی سارے اسباق دہرا لوں گا لیکن تم میرے بھائی! خدا کے لیے سدھر جاؤ۔ اگر کھیل کود کے ساتھ ساتھ تم روزانہ تھوڑی تھوڑی تیاری کر تے تو آج اتنے پریشان نہ ہوتے۔ پیارے دوست،وقت کی قدر کرو! وقت کبھی کسی کا نہیں رہتا۔‘‘ علی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
اگلے سال علی نے بھی کامران کی طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے ہی تیاری مکمل کرلینے کی وجہ سے وہ امتحانات کے دنوں میں مطمئن اور پر سکون تھا ۔
تبصرے