مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق ایک منظم منصوبے کی تکمیل تھی۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی اسمبلی کی تحلیل سے لے کر صدر راج تک اگر ان تمام اقدامات کو دیکھا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مودی حکومت کا ایک طے شدہ منصوبہ تھا جس پر سلسلہ وار عملدر آمد کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2015 میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی اور محبوبہ مفتی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ بعد ازاںبھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے لی جس کی وجہ سے 19 جون 2018 کو محبوبہ مفتی نے وزارتِ اعلیٰ سے استعفٰی دے دیا۔ مقبوضہ کشمیر کے گورنر نے حکومت سازی کی مہلت دیئے بغیر اگلے ہی دن 20 جون کو مقبوضہ کشمیر کے آئین کی دفعہ 92 کے تحت گورنر راج نافذ کر دیا حالانکہ محبوبہ مفتی کا یہ دعویٰ تھاکہ وہ حکومت دوبارہ بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔یہ گورنر راج قانونی طور پرصرف 6 ماہ کے لیے تھا ۔
بھارت کے 5اگست 2019اور اس کے بعد کے اقدامات سے بھارت کے خلاف جموں و کشمیر میں نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے یہ دعوے کہ حالات معمول پر ہیں، بھی حقائق پرمبنی نہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے قابض فوج کی تعداد میں ایک سپاہی کی بھی کمی نہیں کی۔ بلکہ حال ہی میں پونچھ میں سورن کوٹ میںچارکشمیری نوجوانوں''سفیر حسین ، محمد شوکت ، شبیر احمد اور محمد صدیق'' پر تشد د اور ان کی مسخ شدہ لاشوں نے باشعور کشمیریوں کے ذہنوں میںبھارت سے آزادی کے جذبے کو مزید اجاگر کیا ہے۔
5 اگست 2019 کوبھارت کے صدر نے آرڈر(C.O.272) جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ اس سے پہلے کے تمام آئینی حکم نامے جن سے آئین کی مخصوص دفعات ترمیم یا بلا ترمیم جموں و کشمیر پر لاگو ہوئی ہیں، کی جگہ بھارت کے آئین کی تمام دفعات جموں و کشمیر پر لاگوہوں گی اور آرٹیکل 370(3) میں آئین ساز اسمبلی کے بجائے لفظ قانون ساز اسمبلی استعمال ہو گا۔ 5 اگست 2019 کو ہی بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموںو کشمیر کی اسمبلی کے طور پر کارروائی کرتے ہوئے جموں وکشمیری آرگنائزیشن بل 2019 کی منظوری دی۔ پھر 6 اگست 2019 کو اسی پارلیمنٹ نے بھارتی پارلیمنٹ کے طور پر قانون سازی کرتے ہوئے جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن بل منظور کیا۔بل کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو کم کرتے ہوئے دو یونین علاقوں، جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کر دیا گیا ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کا آئین ختم کرتے ہوئے بھارت کا آئین مکمل طور پر لاگو کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1927سے لاگو باشندہ ریا ست کا قانون جس کوبھارتی آئین کے آرٹیکل 35اے کے تحت تحفظ دیا گیا تھا، کو بھی ختم کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر میںبھارتیوں کی آبادکاری کے لیے نیا ڈومیسائل قانون بنایا گیا۔
بھارت کے اس اقدام کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں مختلف اپیلیں دائر کی گئیں جن پر بعد از سماعت 5 رکنی بنچ نے مورخہ 11 ستمبر 2023 کو فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ 352 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس سنجے کشن کول نے 121 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ اور جسٹس سنجیو کھنا نے 3 صفحات پرمشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہبھی بھارت کی عدالتوں کے دیگر متعصبانہ فیصلوں کی طرح ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس میںکہا تھا کہ بابری مسجد کو گرانا درست عمل نہیں ہے لیکن جنہوں نے یہ جرم کیا ان کوبابری مسجد کی جگہ پر قبضے کا حق بھی دے دیا گیا ۔اسی طرح افضل گوروکیس میں سپریم کورٹ نے کہاکہ افضل گورو کے خلاف کوئی براہِ راست شہادت موجود نہیں ہے تا ہم عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ اسی طرح اس مقدمے کا فیصلہ بھی بھارت کی حکومت کو مطمئن کرنے اور اس کے غیر آئینی اقدام کو تحفظ دینے کے لیے ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ اور بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370 میں ترمیم اور بعد کے اقدامات کے حوالہ سے دو سوال انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
پہلا سوال، کیا ان اقدامات سے تنازع کشمیر کی حیثیت بدل جائے گی ؟نہیں ہرگز نہیں۔تنازعہ کشمیر پر ان منصوبہ جات کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔
اور دوسرا سوال جب جموں و کشمیر کے عوام بھارت کے آئین کو ہی نہیں مانتے تو ان ترامیم پر احتجاج کیوں؟ دوسرے سوال کا جواب ہمیشہ جموں و کشمیر کے عوام نے دیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت قیادت کو بار ہابھارت کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اور زیادہ اندرونی خود مختاری کے لییبھارتی حکومتوں کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کی گئی جس کو کشمیری قیادت نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہبھارت کے آئین کے اندر رہتے ہوئے وہ کو ئی مذاکرات نہیں کریں گے۔
بھارت کے 5اگست 2019اور اس کے بعد کے اقدامات سے بھارت کے خلاف جموں و کشمیر میں نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے یہ دعوے کہ حالات معمول پر ہیں، بھی حقائق پرمبنی نہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بھارت نے قابض فوج کی تعداد میں ایک سپاہی کی بھی کمی نہیں کی۔ بلکہ حال ہی میں پونچھ میں سورن کوٹ میں4کشمیری نوجوانوں''سفیر حسین ، محمد شوکت ، شبیر احمد اور محمد صدیق'' پر تشد د اور ان کی مسخ شدہ لاشوں نے باشعور کشمیریوں کے ذہنوں میںبھارت سے آزادی کے جذبے کو مزید اجاگر کیا ہے۔اس طرح کے غیر انسانی اور سفاکیت سے بھر پور وحشیانہ اقدامات سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبایا نہیں جا سکتا،جبکہ باشعور کشمیری ا نڈین سپریم کورٹ کے اس متازع فیصلے کو کشمیر کی تاریخی و جغرافیائی اہمیت اور حیثیت کے تناظر میں دیکھ کر درج ذیلحقائق سامنے آتے ہیں۔
• انڈین سپریم کورٹ نے محدود نکات پر بحث کر کے بھارتی حکومت کے اقدامات کو قانونی جواز فراہم کیا ہے جبکہ تنازع کشمیر ساری بحث سے باہر رہا۔
• انڈین پارلیمنٹ کو کشمیر کے مستقبل کا اختیار دے کر کشمیری عوام کی رائے اور خواہشات کو نظر انداز کرنے کو جائز قرار دیا۔
370 lکو عبوری قرار دیا مگر اس کے متبادل قانون یا طریقہ جس میں کشمیری عوام کے حقوق کا تحفظ ہو سکے کے بارے میںسپریم کورٹ خاموش ہے۔
• باقی ریاستوں کو حاصل خصوصی سٹیٹس کا ذکر نہ کر کے کشمیر کے لوگوں پر انڈین حکومت کے جبری کنٹرول کو قانونی قرار دیا ہے۔
• کشمیر کی سٹیٹ اور اس کی حدود اور تنازعات بشمول آزاد جموں و کشمیر اور اکسائی چن(Aksai Chin) کا ذکر کیے بغیر ادھوری ریاست کو زیر بحث لایاگیا جو کہ بے معنی قانونی بحث سے زیادہ اورکچھ نہیں۔
• انڈین حکومت کے اقدامات میں موجود واضح بدنیتی جس کا مقصد کشمیری عوام کی رائے کو بُری طرح سے رَد کرنا تھا، کو سراسر نظر انداز کیا گیا۔
• فیصلہ کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں کر سکا مگر انڈین حکومت کی بدنیتی کو آشکار کر گیا ہے۔بھارت میں موجود اقلیتوں کا مستقبل کیا ہے؟
• اگریہ سب قانون اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ہے تو اتنی فوج اور سکیورٹی فورسز کشمیر میں کیا کر رہی ہیں؟ حکومت کاایک گورنرمرکز کا نمائندہ کیوں ہے ؟
انڈین سپریم کورٹ، انڈین ریاست کا ذیلی ادارہ ہے ۔اس سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف فیصلہ دے گا۔
جدوجہد اور جنگ جاری رہے گی۔۔۔ بھارت کے زیرِ تسلط غیر قانونی مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام ایک دن ضرور سُرخرو ہوں گے۔
مضمون نگار قومی و عالمی امور پر لکھتے ہیں۔
تبصرے