کشمیری تہذیب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، یعنی عہدِموسیقیت، رومانویت اور حقیقت پسندی، لیکن یہ باتیں پرانی ہوئیں، یہ متنوع تہذیب موجودہ عہد میں بھی ایک دور سے گزر رہی ہے جس کا کوئی عنوان ابھی تک تجویز نہیں کیا جاسکا۔
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے بچوں کی مصوری کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ ان بچوں نے جو تصاویر بنائی ہیں، ان میں تشدد، سڑکوں پر بکھرے پتھر اور جلتے ہوئے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں جو ڈر ان بچوں کے ذہن میں بیٹھ گیاہے، وہ سب ان تصویروں میں دکھائی دیتا ہے۔
جواں سال گلو کار علی سیف الدین اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر کی اصل موسیقی تو وہی ہے جس نے صدیوں کی گود میں پرورش پائی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ اب وہ اس روایت پر قائم نہیں رہ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں ایک لڑکے کو گولی لگتے ہوئے دیکھوں یا اپنے کسی پیارے کے لاپتہ ہونے کی خبر سنوں تو میرے گانے میں بھی یہی چیخ و پکارہی سنائی دے گی۔
کشمیر کا عہدِ موسیقیت صرف موسیقی کے لیے معروف نہیں، کیوں کہ اس عہد کے لوگوں کا ذوقِ جمال زندگی کے ہر شعبے سے جھلکتا ہے جسے دیکھ کرایسی ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جیسی کوئی پھڑکتا ہوا شعر یا سریلا گیت سن کر کسی صاحب ذوق میں پیدا ہوسکتی ہے۔ عہد ِ رومان کو توازن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک لاپروا اور الہڑ جذبہ اپنی تمام تر زور آوری کے بعد جب توازن کی کیفیت اختیار کرتاہے تو عشق بلاخیز کو دوام مل جاتا ہے۔ ارضِ کشمیر کا حیران کردینے والا طرز تعمیر اور اس کی تمام تر تفصیلات کشمیری تہذیب کے دوسرے عہد کی نمائندگی کرتی ہیں۔
مغلیہ عہد میں کشمیر کا تہذیبی سفر جذبات اور توازن کے مرحلوں سے گزر کر پختگی کی منازل طے کر چکا تھا، لہٰذا اسے حقیقت پسندی (Realism) کے عہد سے تعبیر کیا گیا جس میں وہ صدیوں کے تجربات کے بعد یہ سمجھنے کے قابل ہوا کہ منہ زور جذبے اور توازن کے درمیان ایک نقطۂ اتصال بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ ارضِ ہند میں جن دنوں اسلامی تہذیب کی روشنی میں ایک نئے ثقافتی عہد کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی، اہلِ کشمیر یہ مرحلہ پہلے ہی طے کرچکے تھے۔
کشمیر اس تہذیبی معراج پر کیسے پہنچا؟ عہد رسالت ۖکے بعد تقریباً 80 برس کے دورانیے میں اسلام کا پیغام دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل چکا تھاجن میں وسط ایشیا بھی شامل تھا۔ کشمیر میں اسلام کی روشنی اسی راستے سے پہنچی۔ اسلام کی برکت سے ذات پات کے غیر انسانی نظام میں جکڑے ہوئے سماج میں مساوات، برابری، محبت اور برداشت جیسی اعلی اقدار فروغ پائیں جن کے زندگی کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔
کشمیری زبان و ادب کی نشوونما کا زمانہ بھی یہی ہے۔ یہاں کی ادبی تاریخ کم از کم چھ سو برس پرانی ہے۔ یہ کشمیری ادب اور اس کا لوک ورثہ ہی تھا جس کی عظمت کا اعتراف معروف مستشرق ہنٹن نولز نے یہ کہہ کر کیا کہ دنیا کی کسی زبان میں اس اعلیٰ پائے کا لوک ادب نہیں پایا جاتا جس قدر یہ کشمیری زبان میں پایا جاتا ہے۔
کشمیر میں باقاعدہ شاعری کی ابتدا لِلا عارفہ سے ہوتی ہے جو کہتی ہیں
ترک کر یہ ماسوا
ترک کر حرص و ہوا
نور ہی میں ڈوب جا
دیکھ اس کے نور کو
ہے وہ تیرے ہی قریب
کچھ نہیں اس کے سوا
کشمیر کی اس منفرد شعری روایت کی اگلی کڑی کشمیری گیت کی بانی حبہ خاتون ہیں۔ انہوں نے اپنے گیت میں کشمیر کے حسین نظاروں، شجر وحجر اور آبشاروں کے بیان میں نسوانی محسوسات ایسے فنکارانہ انداز میں سموئے ہیں کہ پڑھنے والا پڑھے اور سر دُھنے۔ انھیں بلاوجہ رومان اور غنائیت کی ملکہ نہیں قرار دیا جاتا۔ ان کی ایک بھرپور شناخت ہے جو دور تک پھیلی ہوئی ہے۔
لدے ہوئے پھولوں کے سبزہ زار
ڈوب گئیں پھولوں میں یکسر
میرے دیس کی جھیلیں اور کہسار
تو نے سنی بھی میرے دل کی پکار؟
آؤ لوٹیں جلوہ حسنِ بہار
1857 کی جنگِ آزادی نے برصغیر میں بیداری کی ایک نئی لہر پیداکی، یوں خطہ کشمیر میں بھی آزادی کی تمنا نے زور پکڑا۔ یہی زمانہ غلام احمد مہجور کی فکری تگ وتاز کا ہے۔ وہ کہتے ہیں
چمن والے چمن میں اب نئی ایک شان پیدا کر
کھِلیں گل، ہوں فدا بلبل، تو وہ سامان پیدا کر
مسلم برصغیر کا یہ حصہ بدقسمتی سے برصغیرکے دیگر حصوں کی طرح آزادی کی منزل نہ پاسکا جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگوں میں عمومی طور پر یاس کی کیفیات پیدا ہوئیں۔ 1989 ء میں شروع ہونے والی تحریکِ آزادی کی نئی لہر، گزشتہ چند برس کے دوران میں اس کی نوعیت کی تبدیلی اور اس جذبے کو دبانے کے لیے قابض غیر ملکی قوت یعنی بھارت کی طرف سے اختیار کیے جانے والے ظالمانہ ہتھ کنڈوں کے نتیجے میں جو تباہی پھیلی، عمومی زندگی پر اس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کشمیر کا شاعربھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکا، یوں مزاحمتی شاعری پیدا ہوئی۔ شاعری کی یہ صورت مقامی روایت سے بیگانہ نظر آتی ہے۔ رنج و الم کی یہ کیفیات تہذیبی اعتبار سے اِس خطرے کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کہیں یہ صورت حال کشمیر کے اس روایتی رنگ ہی کو گوشہ گمنامی میں نہ دھکیل دے جو کبھی اس کا طرہ امتیاز ہوا کرتا تھا۔ نسرین نقاش کے یہ شعر دیکھئے
فنا کے تیر ہوا کے پروں میں رکھے ہیں
کہ ہم گھروں کی جگہ مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے پاؤں سے لپٹا ہے خواہشوں کا سفر
ہمارے سر ہیں کہ بس خنجروں میں رکھے ہیں
بچے بھی دکھ اور خود رحمی کی اِس تکلیف دہ صورت حال سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ چودہ برس کی ایک مصنفہ ربائیتہ کی کئی کہانیاں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ اِ ن دنوں وہ جس ناول پر کام کررہی ہیں، اس کا عنوان ہے Blood Rain۔ یہ عنوان مقبوضہ کشمیر کی نئی نسل کی ذہنی وجذباتی کیفیات کو واضح کرتا ہے۔
کشمیر کے اس المیے کو صرف ثقافتی حوالے سے دیکھنے کے علاوہ ایک اور زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا تعلق جنگی جرائم سے ہے۔ جنگی جرائم کیا ہیں؟غیر مسلح شہری آبادیوں کو تہہ تیغ کر دینا۔شہریوں سے بے گار لینا اور انھیں غلام بنا لینا۔ تکنیکی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن کسی خطے اور اس میں بسنے والی قوم کے ورثے اور شناخت کو تباہ کر دینا، اسے اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اس قسم کے حالات پیدا کر دینا کہ لوگوں کی نفسیات اور انداز فکر تک بدل جائے، آخر یہ بھی تو کسی قسم کا جرم ہوگا۔
انسانی حقوق کی انجمنیں تسلیم کرتی ہیں کہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے حریت پسندوں کے خلاف عوامی املاک کو تباہ کرنے کا مقصد آبادی کو اجتماعی سزا دینا ہے۔ یہ صورت حال شاعری پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ مدہوش بالہامی کا ایک شعر ہے
ایسی بات نہیں ہے کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کر ہم ہی سمٹ گئے
برطانیہ کا وکٹوریہ البرٹ میوزیم اپنے حیران کن عجائبات کے لیے معروف ہے۔ یہاں کشمیری مصوری کے جو نمونے محفوظ ہیں، وہ اس صنف لطیف کے ایک منفرد اسلوب کے نمائندہ ہیں۔ یہ 16 ویں صدی عیسوی کے وسط کی بات ہوگی جب کشمیر میں مصوری کے ایک نئے مکتبہ فکر کی بنیاد پڑی۔ اس عہد کے مصور، مصور سے کچھ بڑھ کر ہی تھے، یوں کہہ لیجیے کہ جادوگر رہے ہوں گے۔ انہوں نے سوت کے کپڑے پر مصوری کے تجربات کیے۔ کہنے کو یہ مصوری تھی مگر مؤرخ کی آنکھ سے دیکھئے تو تاریخ تھی، ادیب کی آنکھ سے دیکھئے تو ادب۔ یہ مصور اپنے مو قلم سے رنگوں کی ایسی جوت جگاتے کہ بہار کیا جگاتی ہوگی۔
ان مصوروں نے کشمیری لوک کہانیاں مصور کیں، جنگوں کے مناظر کی منظر کشی کی، باغات اور محلات نِک سک سے ایسے درست بنائے کہ نقل پر اصل کا گماں گزرے۔ اس میوزیم میں محفوظ کشمیری مصوروں کی یہ جادوگری آج بھی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ مصوری کی ایسی زندہ جاوید روایت رکھنے والایہ خطہ جب سے آزمائش سے دو چار ہوا ہے، اس کی مصوری کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا ہے۔
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے بچوں کی مصوری کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ ان بچوں نے جو تصاویر بنائی ہیں، ان میں تشدد، سڑکوں پر بکھرے پتھر اور جلتے ہوئے گھر دکھائی دیتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں جو ڈر ان بچوں کے ذہن میں بیٹھ گیاہے، وہ سب ان تصویروں میں دکھائی دیتا ہے۔
بچوں کی طرح تجربہ کار اور معروف مصور بھی ڈپریشن میں ہیں۔ کشمیری آرٹ کا اپنا مزاج اور اس کے جغرافیے کی مناسبت سے اپنے رنگ تھے لیکن آج کشمیر کا مصور مایوسی کے عالم میں ہے۔ شوخ و شنگ رنگوں کا استعمال ماضی کا قصہ ہوا۔ نامور مصور مسعود حسین کہتے ہیں، یہ اس لیے ہے کہ ایک سچا مصور وہی کچھ پینٹ کرسکتا ہے جو اسے اپنے اطراف میں دکھائی دیتا ہے، لہٰذا آج کا مصور سیاہی مائل رنگوں سے تصویریں بناتا ہے جو غم اور تباہی کو اجاگر کرتا ہے۔
پرندوں کی چہکارسن کر بیدار اور ندی نالوں کی جل ترنگ میں دن اور رات گزارنے والے اہل کشمیر کا موسیقی کے ساتھ تعلق فطری ہے۔کشمیر میں ساز و آواز کی یہ روایت ہمیشہ توانا رہی جسے ہند اسلامی تہذیب نے فراخ دلی سے پروان چڑھایا لہٰذا اس خطے نے اپنے راگ اور راگنیاں ہی تخلیق نہیں کیں بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے آلات موسیقی بھی ایجاد کیے جن میں گِچک (Gichak) اور صد تارا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان سب تخلیقی کاوشوں کے نتیجے میں موسیقی کی وہ شکل ابھری جس کا انتہائی گہرا تعلق صوفی روایت سے ہے۔ اہل کشمیر کے اس وصف کی آئین اکبری میں بھی دل کھول کر داد دی گئی۔ جواں سال گلو کار علی سیف الدین اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر کی اصل موسیقی تو وہی ہے جس نے صدیوں کی گود میں پرورش پائی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ اب وہ اس روایت پر قائم نہیں رہ سکتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں ایک لڑکے کو گولی لگتے ہوئے دیکھوں یا اپنے کسی پیارے کے لاپتہ ہونے کی خبر سنوں تو میرے گانے میں بھی یہی چیخ و پکارہی سنائی دے گی۔
تو آج اہلِ کشمیر کی تہذیب، معاشرت، ادب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی بھری پری روایت اس مقام پر آٹھہری ہے جس کے بعد جو لے اٹھے گی، رنج و الم میں ڈوب کر اٹھے گی جو نالہ بلندہو گا، فریاد کنا ں ہوگا۔ کاش! احترام آدمیت اور تہذیب انسانی کواس کی بہترین شکل میں برقرار رکھنے کے خوش کن دعوے کرنے والی دنیا تک اہل کشمیر کی یہ آوازبھی پہنچ سکے۔
کشمیر کے اس المیے کو صرف ثقافتی حوالے سے دیکھنے کے علاوہ ایک اور زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا تعلق جنگی جرائم سے ہے۔ جنگی جرائم کیا ہیں؟غیر مسلح شہری آبادیوں کو تہہ تیغ کر دینا۔شہریوں سے بے گار لینا اور انھیں غلام بنا لینا۔ تکنیکی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن کسی خطے اور اس میں بسنے والی قوم کے ورثے اور شناخت کو تباہ کر دینا، اسے اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اس قسم کے حالات پیدا کر دینا کہ لوگوں کی نفسیات اور انداز فکر تک بدل جائے، آخر یہ بھی تو کسی قسم کا جرم ہوگا۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس تنزیل الرحمٰن مرحوم کہا کرتے تھے کہ صرف محفوظ قرار دی گئی عمارات جیسے ہسپتال، مساجداور مفاد عامہ کے دیگر مقامات کو زک پہنچانا ہی جنگی جرائم کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ تہذیب مظاہر کی تباہی اور ایسے حالات پیدا کردینا جن میں لوگ اپنے ثقافتی ورثہ سے صرف محروم نہ ہو جائیں بلکہ ان کا تخلیقی سفر ہی مختلف زاویے کی طرف جا نکلے، اسی تعریف میں آتا ہے اور یہ جرم چونکہ تہذیب اور انسانیت کے خلاف جرم ہے، اس لیے اس کی شدت دیگر جرائم سے بھی بڑھ کر ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ظلم ، تشدد اور قتل و غارت گری بھی کریہہ جنگی جرائم ہیں لیکن تہذیب کو مٹا دینا اس لیے زیادہ سنگین جرم ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک خطہ اور اس میں بسنے والی قوم اپنی شناخت سے محروم ہو جاتی ہے۔ جسٹس تنزیل الرحمن کی یہ دلیل متاثر کن ہے ۔ اگر اقوام متحدہ کی طرف سے ورثہ قرار دی گئی عمارت پر جارحیت جرم کی ذیل میں آتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ تہذیبی مظاہر کی تباہی کو جنگی جرم تصور نہ کیا جائے۔ وہ وقت دور نہیں جب عالمی ضمیر بھارتی جارحیت کے اس ثقافتی پہلو کو بھی ہدف تنقید بنائے اوراہل کشمیر کو ان کے ثقافتی اور تاریخی ورثے سے محروم کردینے والے بھارت کے ان جرائم کو بھی جنگی جرائم قرار دے کر اسے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ انشاللہ!!
مضمون نگار معروف صحافی اور کالم نگار ہیں۔
تبصرے