بچپن میں جب ہم سنتے تھے کہ فلاں سیارہ ہم سے اتنے لاکھ میل کے فاصلے پر ہے یا کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جارہی ہیں تو اکثر سوچتے تھے کہ ماہر فلکیات کو یہ باتیں کیسے پتا چلتی ہیں۔ کیا یہ لوگ فیتا پکڑ کر زمین سے سیارے تک کا فاصلہ ناپتے ہیں یا پھر انہوں نے دور آسمانوں میں کوئی اڈہ بنایا ہوا ہے جہاں سے انہیں کوئی پیغامات بھیجتا ہے۔ فیتے والی بات تو غلط نکلی البتہ اڈہ بنانے والی بات ہبل ٹیلی سکوپ کی شکل میں کسی حد تک درست ثابت ہوئی ۔ یہ ٹیلی سکوپ خلا میں موجود ہے اور وہاں سے کہکشاں کا مشاہدہ کر کے اپنی رپورٹ بھیجتی ہے۔ ہبل کی بدولت ہی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ کائنات تیرہ ارب سال پہلے وجود میں آئی اور کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اس ٹیلی سکوپ کا نام ایڈون ہبل نامی ایک ماہر فلکیات کے نام پر رکھا گیا جس نے سب سے پہلے 1929 میں یہ دریافت کیا تھا کہ یہ کائنات بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے۔ اس نے یہ بات محض دوربین سے کہکشاں کو دیکھ کر اخذ نہیں کی تھی بلکہ علم فلکیات کے کلیے ریڈ شفٹ سے ثابت بھی کیا تھا۔ ریڈ شفٹ کی مدد سے کسی دور افتادہ سیارے یا کہکشاں کا فاصلہ ماپنا فیتا پکڑ کر ماپنے جیسا تو نہیں مگر کافی حد تک درست ہی ہوتا ہے۔ جب سائنس دانوں کو یہ پتا چلا کہ'' آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں'' تو انہوں نے کائنات کے پھیلائو کی رفتار سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماضی کے کسی لمحے میں یہ کائنات سکڑ کر ایک ذرّے کی مانند ہو گی اور یوں انہوں نے اس کی عمر کا تعین کیا اور پھر وہیں سے بگ بینگ تھیوری کی بنیاد رکھی جو یہ دعوی کرتی ہے کہ کائنات ایک عظیم الشان دھماکے سے وجود میں آئی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا ؟ وقت کی شروعات کیسے ہوئی ؟ کیا یہ جہان رنگ و بو محض ایک پروٹون کے دھما کے سے وجود میں آگیا؟ اور اگر یہ کائنات Nothing سے وجود میں آسکتی ہے تو پھر خدا کے وجود پر سوال کیوں کر اٹھایا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ؟
سائنس دانوں کے بقول بگ بینگ سے پہلے وقت کا وجود نہیں تھا کیونکہ آج سے 13.7 ارب سال پہلے کا ئنات کا حجم نہ ہونے کے برابر تھا اور اس کی حالت ایک کثیف بلیک ہول کی مانند تھی جہاں وقت اپنا وجود نہیں رکھتا اور چونکہ وقت کا وجود نہیں تھا اس لیے کسی علت کا وجود بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ علت کے لیے وقت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایٹم کی وہ دنیا ہے جہاں پروٹون ، کوانٹم میکینکس کے قوانین کے تحت ، یکدم وجود میں آتے ہیں اور پھر کچھ دیر ظاہر رہنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں اور پھر کسی اور مقام پر دوبارہ ظاہر ہوتے ہیں ۔ آج سے 13.7 ارب سال پہلے کائنات اسی sub - atomic level پر تھی جب وہ عظیم الشان دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک سکینڈ کے 1/1035 ویں حصے میں لامتناہی توانائی کے اخراج سے لاکھوں کروڑوں ستارے، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ کائنات کی رفتار روشنی سے بھی کہیں زیادہ ہوتی جبکہ آئن سٹائن کا خصوصی نظریہ اضافیت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتی کیونکہ جو نہی ہم روشنی کی رفتار کے قریب پہنچیں گے تو دو باتیں ہوں گی، ایک وقت تھم جائے گا، دوسرے، ہمیں لامتناہی توانائی در کار ہو گی۔ سو یہ نا ممکن ہے کہ بگ بینگ کے بعد کا ئنات روشنی کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلی ہو۔ مگر ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک بات تو ممکن ہوئی۔ کون سی بات یہ تا حال ایک معمہ ہے جس کا جواب سائنس کے پاس نہیں۔ دوسرا معمہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ مفروضہ مان لیں کہ کائنات صفر سے وجود میں آئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کا ئنات کی کُل توانائی بھی صفر ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ 'جائولز'کے نظریے کے تحت نہ توانائی کو تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
آئن سٹائن بھی یہی کہتا ہے کہ کائنات میں مادے اور توانائی کی مقدار کم یا زیادہ نہیں کی جاسکتی لہذا یہ بات کیسے ممکن ہے کہ بگ بینگ کے وقت توانائی صفر تھی ؟ ان تمام معموں کا ایک حل یہ ہے کہ ہم فرض کر لیں کہ کائنات ہمیشہ سے ہی وجود رکھتی تھی۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ مفروضہ بھی درست نہیں ہو گا۔ سٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ اگر ہم آسمان پر نظر دوڑائیں تو رات کو ہمیں آسمان تاریک نظر آتا ہے۔ اگر ہم یہ تصور مان لیں کہ کروڑوں اربوں ستارے ازل سے روشن ہیں تو ہمیں رات کو بھی آسمان سورج کی طرح روشن دکھائی دینا چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ازل سے وجود نہیں رکھتی ، ماضی میں ضرور کچھ ایسا ہو ا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ستارے کسی مخصوص وقت میں روشن ہوئے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ دور افتادہ ستاروں کی روشنی اب تک زمین پر نہیں پہنچی ، اگر یہ ستارے ازل سے روشن ہوتے تو ان کی روشنی اب تک ہر سو پھیل کر پورے آسمان کو دن اور رات روشن رکھتی ۔ ان معموں کی ایک توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ جس طرح نیوٹن کے قوانین روشنی کی رفتار کے آگے باطل ہو جاتے ہیں اسی طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھی اس مرحلے پر بے جان ہو جاتا ہے جس ایک لمحے میں کائنات وجود میں آئی تھی۔
سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ چونکہ آئن سٹائن کا نظریہ ایک کلاسیکی نظریہ ہے جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ کسی مخصوص وقت میں اشیاء کی رفتار اور ان کا مقام کیا ہو گا اس لیے ہم ان معلومات کی روشنی میں ماضی یا مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ایک خلائی جہاز کسی مخصوص وقت میں مدار میں چھوڑا گیا اور اس کی رفتار ایکس تھی تو ہم با آسانی بتا سکیں گے کہ وہ مدار کا چکر کاٹ کر کب زمین پر پہنچے گا۔ لیکن ایٹم کی دنیا میں یہ ترتیب، معنویت اور قطعیت نہیں ہوتی ، وہاں قوانین یکسر مختلف ہوتے ہیں اور نظریات کا اطلاق sub-atomic level پر نہیں ہوتا۔ اسی لیے جب ہائژن برگ کہتا ہے کہ ہم ایٹمی ذرات کے مقام اور رفتار کا بیک وقت تعین نہیں کر سکتے تو وہ بظاہر ہمیں ایک ایسی ما بعد الطبیعاتی دنیا کی کہانی لگتی ہے جہاں پہنچ کر صوفی اور سائنس دان ایک طرح سوچنے لگتے ہیں۔ سائنس دان اس دنیا کی بے ترتیبی اور بے یقینی کی فضا میں غوطے لگا کرایک ایسی کائنات کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جس کے بارے میں جاننا شاید اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کلاسیکی نظریات اور کو انٹم مکینکس میں تال میل نہ ہو جائے۔ دوسری طرف صوفی اس بے ہنگم کائنات میں انا الحق کا نعرہ لگا کر مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر مستی اور سرشاری کے عالم میں اپنے سالک کو اس معمے کا حل سمجھانے کی کوشش کرتا ہے جو خود صوفی کی زبان میں unknowable ہے۔
آج اگر انسان کوئی ایسا خلائی جہاز بنالے جس میں روشنی کی رفتار سے سفر کیا جا سکے تو بھی اس پوری کائنات کی سیر کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ ہماری پہنچ زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہے ، اس سے آگے کی تمام کہکشائیں ابد تک ہماری پہنچ سے باہر ہیں، گویا کل کائنات کا فقط چھ فیصد ایسا ہے جو ہم کسی صورت میں دیکھ سکتے ہیں ، باقی قیامت تک ممکن نہیں۔ شاید اسی کو صوفی unknowable کہتے ہیں، ایسی دنیائیں جن کا بیان ممکن نہیں۔ لیکن ہم ایسی دنیائوں کی کیا فکر کریں، ہماری تو اپنی دنیا تا حال 'ایکسپلور' نہیں ہوئی۔
بقول غالب
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن،
ہم کو تقلید تنگ ظرفی منصور نہیں
مضمون نگار معروف کالم نویس اور تجزیہ نگار ہیں۔
[email protected]
تبصرے