قائد اعظم محمد علی جناح اس خطے کی وہ واحد شخصیت تھے ، جنہیں قیام پاکستان سے قبل اس وقت کی کشمیری حکومت کے وزیر اعظم سربینی گال نرسنگ را ئونے سرکاری طور سے کشمیر آنے کا دعوت نامہ بھیجا تھا اور ریاست جموں و کشمیر کی اس دور کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر شیخ عبداللہ نے بھی قائد اعظم کو کشمیر کے دورے کی دعوت دی تھی، یہ ایک اعزاز تھا کہ قائد اعظم جس قدر متحدہ ہندوستان کے مقبول لیڈر تھے ، اسی قدر کشمیر میں بھی ان کا احترام تھا۔ اپریل 1944 میں جب قائد اعظم سیالکوٹ سے سوچیت گڑھ کے راستے 8 مئی کو ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہوئے تو، سوچیت گڑھ سے جموں ویلی تک اور پھر جموں سے سری نگر تک عوامی استقبال اس قدر والہانہ تھا کہ کشمیر کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ حالانکہ کانگریسی لیڈر پنڈت جواہر لعل نہرو اور دیگر بھی چھٹیاں گزارنے کشمیر جاتے رہے لیکن عوام نے ان کے لیے دیدہ ٔ دل اس قدر کبھی فرش راہ نہیں کیے جو جذبات و قدر و منزلت قائد اعظم کے حصے میں آئی ، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ دوسری عالمی جنگ خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی، ایسے میں لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ آنے والے دنوں میں اس خطے کی سیاست میں قائد اعظم کا کردار انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہو گا ۔یہی وجہ تھی کہ کشمیر میں قائد اعظم کا استقبال سری نگر سے بانہال تک کی نظیر نہیں ملتی ۔ انہی دنوں کشمیر میں ایک غیر ملکی مبصر نے لکھا تھا کہ اگرچہ گاندھی اور نہرو بھی دنیا میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں لیکن حقیقت میں ہندوستان کے سیاسی پلیٹ فارم پر مقبول اور زور دار شخصیت قائد اعظم ہی ہیں۔
1944 کے کشمیر کے اس آخری دورے میں جس کا آغاز لاہور سے قرمزی رنگ کی شیور لیٹ کار میں شروع کیا تھا اس دورے میں محترمہ فاطمہ جناح بھی قائد اعظم کے ہمراہ تھیں، ذاتی ملازم ، گل محمد زریں گل جس کا تعلق موضع کرپلیان ریاست امب دربند ضلع ہزارہ سے تھا وہ بھی قائد کے ساتھ تھا یاد رہے کہ بعد میں ریاست امب، دربند اور ستھانہ وغیرہ کے علاقے تربیلہ جھیل میں آگئے تھے،بس ایک لساں نواب محفوظ رہا ، قائد اعظم کے اس دورے میں گوا کے دو عیسائی ایک ان کا قائم مقام پرائیو یٹ سیکرٹری ، جیکوئم ایگزیلوئر لوبواور دوسرا ذاتی کک فلپ بھی شامل تھے ۔ سری نگر میں کشمیری سکھ مہاراجا حکومت نے جان بوجھ کر مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کے لیے قائد اعظم کے استقبال کے لیے الگ الگ جگہیں مقرر کیں ، کوشش یہ تھی کہ شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو استقبال کا موقع پہلے مل جائے، چونکہ شیخ عبداللہ کشمیری عوام میں اس قدر مقبول نہ تھے جتنا کہ مسلم کانفرنس کے چودھری غلام عباس کا احترام تھا اسی لیے شیخ عبداللہ نے مہاراجا حکومت سے ساز باز کر کے پرتاپ پارک کو قائد اعظم کے استقبال کے لیے مخصوص کرا لیا تھا ، ظاہر ہے لوگ قائد اعظم کے دیدار کے شوق کے لیے پہلے والے استقبالی مقام پرتاب پارک میں پہنچے ، جب کہ مسلم کانفرنس کو پرتاپ پارک سے کوئی دومیل دور ، ڈھل گیٹ میں استقبالی جلسے کی اجازت دی جو کوئی کشادہ جگہ بھی نہ تھی ، وہ سارا تردد محض ، قائد اعظم کو منفی تاثر دینے کے لیے کیا گیا تھا ، کہ مسلم کانفرنس کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ پرتاب پارک میں شیخ عبداللہ نے سپاسنامہ پڑھا ، قائد اعظم نے اپنی مختصر سی تقریر میں فرمایا'' آپ نے استقبال میری ذات کا نہیں ، بلکہ اس لیے کیا کہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائدہ جماعت، ''آل انڈیا مسلم لیگ'' کا صدر ہوں ! نہر کے کنارے کھڑے کشمیر مسلم کانفرنس سٹوڈنٹس یونین نے بھی اپنے جنرل سیکریٹری کے۔ ایچ خورشید کی قیادت میں قائد اعظم کا استقبال کیا ، استقبالیہ کمیٹی کے چیئر مین مولوی محمد امین تھے اور جموں کے حلقے سے کشمیر اسمبلی کے ممبر شیخ محمد امین بھی موجود تھے، مسلم کانفرنس کے رہنما چودھری غلام عباس ، میر واعظ محمد یوسف شاہ ، اور اے آر ساغر سمیت چند دیگر بھی تھے ، قائد اعظم محمد علی جناح نے ، ڈھل گیٹ ، میں بھی خطاب تو مختصر کیا مگر پیغام آفاقی تھا۔ قائد نے فرمایا '' ہمارا خدا ایک ، رسول ۖ ایک ،کتاب اور دین ایک ہے تو ہماری تنظیم اور قائد بھی ایک ہی ہونا چاہئے ۔''
قائد اعظم کا قیام اس آخری دورے میں سری نگر سے تقریباً چھ میل دور مغل شہنشاہ شاہجہاں کے تعمیر کردہ باغ '' نشاط باغ '' اور چشمہ شاہی کے درمیان ایک چھوٹی سی پہاڑی پر ایک خوش نما بنگلے '' کوشک''میں تھا، وہ کوٹھی سید مراتب علی کی تھی، کوشک میں شیخ عبداللہ اور قائد اعظم میں لگ بھگ درجن کے قریب ملاقاتیں رہیں، شیخ عبداللہ نے باربار کوشش کی مگر قائد اعظم کو قائل نہ کر سکے ، آخر کار قائد اعظم نے 17 جون کو سری نگر کی جامع مسجد سے متصل مسلم پارک میں وہ سارا کچھ تشت از بام کر دیا جو شیخ عبداللہ چاہتے تھے۔
قائد نے فرمایا ،تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ہندوستان میں ایک اصول پر کام کروں اور کشمیر میں کوئی دوسرا اصول اختیار کروں ، تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہندو لیڈر جو برصغیر کے مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ، کیا وہ تمہیں دھوکا نہیں دے رہے ،، شیخ عبداللہ تم میرے بچوں کے برابر ہو ، تم ہندوؤں کو نہیں جانتے ، میرا ساری عمر ان سے سابقہ رہا ہے ، میں ان کی ذہنیت ، ان کے مقاصد ،ان کے تعصبات اور ان کے تصورات کو خوب جانتا ہوں، یاد رکھو عبداللہ تم دھوکہ کھائو گے، باز آ جا ئواور مسلم کانفرنس کا ساتھ دو۔ اس جلسے میں سری نگر کے علاوہ پانچھ ، میر پور ، مظفر آباد ، گلگت ، جموں ، لداخ ، اور کشمیر کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ آئے تھے ، ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ افراد نے اس جلسے میں شرکت کی تھی ، وہ کشمیر کی تاریخ کا پہلا جلسہ تھا جس میں کشمیری خواتین نے بھی بھرپور شرکت کی تھی۔ بہت سے ریاستی ملازمین گرد و پیش کی عمارتوں کی چھتوں سے قائد اعظم کا خطاب ڈیوٹی کے طورپہ سن رہے تھے، اس جلسے کا تاثر اتنا گہرا ہوا کہ بہت سارے متزلزل خیالات والے غیر جانبدار مسلمان پاکستان کے حامی ہو گئے حتیٰ کہ نیشنل کانفرنس میں بھی پاکستان کا حامی گروپ پیدا ہو گیا تھا وہ شیخ عبداللہ جس نے خود قائد اعظم کو مدعو کیا تھا اور قائد اعظم کو مسلمانوں کا لیڈر کہہ کے خطبہ استقبالیہ پیش کیا تھا وہ برداشت نہ کر سکااور چیخ اٹھا کہ باہر سے لوگ آتے ہیں انہیں کشمیر کے اندرونی معاملات اور سیاست میں مداخلت کا کیا حق ہے۔مسٹر جناح کو چاہئے کہ وہ کشمیر چھوڑ کر چلے جائیں اور پھر اس کے نو سال بعد قائد اعظم کے کہے ہوئے الفاظ حقیقت بن کے اس وقت سامنے آئے جب پنڈت جواہر لعل نہرو نے شیخ عبداللہ کو وزارت عظمی سے اتار کر جیل میں ڈالا، بھارتی آئین کی خاص دفعہ 370 کے تحت کشمیر بھارت کے پبلک سروس کمیشن ، سپریم کورٹ اور آئین ساز اسمبلی سے باہر تھا ، اس کا پرچم ، ترانہ زبان اور ریڈیو بھی بھارت سے الگ تھا ، نہرو نے اس دفعہ میں بھی ترمیم کر دی تھی، مسئلہ کشمیر ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں ، لوگوں کے حق خوداریت کی بات ہے ، یہ ایک سیاسی اکائی ہے۔ قائد اعظم یہی بات شیخ عبداللہ کو باور کراتے رہے ، مگر وہ حوس اقتدار میں کچھ بھی سننے سے عاجز رہا اور کشمیری مسلمانوں کا مستقبل اجیرن بنا گیا ۔ اسٹیلے والپر وہ واحد مؤرخ ہے جس نے چند جملوں میں قائد اعظم کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' دنیا میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ کا رخ پلٹتے ہیں ، کچھ دنیا کا نقشہ تبدیل کرتے ہیں اور شاید ہی کسی نے ایک قومی ریاست تشکیل دی ہو مگر محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے ۔''
جسٹس یوسف صراف نے لکھا کہ 1926 اور 1928 میں قائد اعظم دو مرتبہ راولپنڈی کے راستے سری نگر گئے، ان کی اہلیہ محترمہ بھی ہمراہ تھیں۔ اس سفر میں قائد اعظم نے اپنی گاڑی خود ڈرائیو ، کی تھی ۔
قائد اعظم نے کشمیر کے دورے کے دوران یہ محسوس کیا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلے میں کشمیر میں مسلمان دوسرے اور تیسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اس دورے میں زعما سے بھی ملے تھے۔ پاکستان واپسی پر لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں متفقہ طور سے ایک قرارداد منظور کر کے مہاراجا کشمیر کو بھجوائی جس میں مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی حقوق کی جانب توجہ دلوائی اور وائسرائے ہند کو اپنا وفد بھیج کر کشمیر کے داخلی مسائل اور مسلمانوں سے روا رکھے سلوک سے آگاہ کیا ۔ قائد اعظم اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان ادھورا ہے، کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ قائد اعظم کا مؤقف اٹل تھا ، وہ پاکستان اور کشمیر کو لازم و ملزوم سمجھتے تھے ، انہوں نے اس وقت کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی ابتری اور کسمپرسی پر توجہ دی جب کشمیریوں کی پکار سننے والا خطے میں کوئی موجود نہ تھا ، وہ کشمیر کی آزادی کے لیے قانون ضابطے ، قاعدے اور مہذب طریقے سے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے، قائد اعظم کا بار بار کشمیر جانا کشمیریوں سے دوستی اور اسلام سے لگائو کی ایک کڑی ہے، وہ تیسری بار 1936 میں کشمیر گئے ، سری نگر کی مجاہد منزل میں قیام کیا پتھر مسجد کے ایک عید میلادالنبیۖ کے جلسے کی صدارت بھی کی تھی اور شیخ عبداللہ کے اصرار پر ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں پیش بھی ہوئے اور ایک ہی پیشی میں مقدمہ جیت لیا تھا۔ قائد اعظم تین سے زیادہ مرتبہ کشمیر گئے تھے ، قائد اعظم 1946 ,1947 میں بھی کشمیر جانا چاہتے تھے مگر مصروفیت آڑے آئی۔ البتہ کشمیری عوام اور قیادت کے نام پیغام بھجوا دیا تھا کہ کشمیر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اتحاد و یگانگت کو بہر کیف بر قرار رکھیں اور چودھری غلام عباس کی قیادت اور مسلم کانفرنس کے جھنڈے تلے جمع رہیں۔
1944 میںکشمیر کے آخری دورے سے واپسی پر قائد اعظم نے دو جگہ پڑا ئوکیا ایک بھارہ کہو ، موجودہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقہ پھل گراں سٹاپ پر ،جہاں 80 سالہ ریٹائرڈ تحصیل دار راجہ سکندر نے مختصر عقیدت بھرا اظہاریہ بیان کیا اور دوسرا پڑائو مل پور میں ہوا جہاں راجگان مل پور نے قافلے کو عقیدت بھری درخواست پر روکا اور راجہ امیر اکبر نے قائد کو مل پور اور اردگرد کے عوام کی طرف سے دعوت دی کہ وہ کچھ قیام کریں، قائد اعظم نے گاڑی سے اتر کے راجہ امیر اکبر سے مصافحہ کیا اور کہا ہم آپ کے خلوص اور جذبات کی قدر کرتے ہیں ، آپ سب کو ہمارا سلام ، تھکاوٹ ہو رہی ہے اس لیے جلدی ہے آپ اجازت دے دیں اور سب لوگوں کو پیغام دے دیں کہ یہ وقت ہے ، آپ سب مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں ، جب راجہ امیر اکبر کا اصرار بڑھا کہ نہیں آپ ہماری قیام کی دعوت قبول کریں تو راولپنڈی مسلم لیگ کے رہنما ، سید مصطفے شاہ گیلانی نے کہا چلیں ایسا کرتے ہیں آپ لوگ سڑک کنارے ایک قطار میں بیٹھ جائیں قائد اعظم آپ لوگوں سے مختصر خطاب کر دیتے ہیں اور پھر ہم انہیں لے جائیں گے کہ واقعی قائد تھکے ہوئے ہیں، یوں بیس پچیس ملپوری اور دس پندرہ قائد کے قافلے کے لوگ سڑک کنارے بیٹھ گئے ، سامعین جنوب رو تھے اور قائد اعظم کا چہرہ شمال کے اس علاقے کی سمت تھا جو بعد میں پاکستان کا وفاقی دارلحکومت اسلام آباد بنا ، قائد اعظم نے مل پور میں خطاب میں فرمایا:'' لوگ پاکستان کو خواب سمجھ رہے ہیں، کچھ کاخیال ہے ہم مراعات لے کرچپ ہو جائیں گے۔ ہندو پریس کہتا ہے یہ کیسے ملک کی بات کر رہے ہیں جس کا نہ کوئی آئین بنایا، نہ منشور اور نہ کوئی ضابطہ بتایا گیا،'' تو ایسے میں قطار میں بیٹھے ایک شخص نے گلے میں قرآن پاک ڈالا ہوا تھا ، قائد اعظم اس شخص کے پاس گئے اور کہاکہ'' ہمارا آئین ، ضابطہ اور قانون یہ کتاب ہے۔ ہمیں کوئی نیا آئین لکھوانے کی ضرورت نہیں ، ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں دے گئے تھے۔ یہ ہمارا آئین ہے ، ہندو پریس کو بتا دو ، پاکستان کا آئین قرآن ہے ''!!
مضمون نگار: ایک معروف صحافی اور مصنف ہیں۔ ایک قومی اخبار کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے