فلسطین کو 'انبیا ئِ کرام کی سرزمین' کہا جاتا ہے اور القدس اس کا دارالحکومت ہے۔ قبلہ اول ''بیت المقدس مسجد اقصی ''مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ:''پاک ہے وہ ذات جو لے گیا ایک رات اپنے بندے(حضرت محمدۖ) کومسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک، کہ جس کا اردگرد ہم نے بابرکت کررکھا ہے تاکہ اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے، بے شک وہ سننے والا ,دیکھنے والا ہے۔''۔(الاسر)
تاریخی لحاظ سے موجودہ فلسطین ،وسیع تر شام کا حصہ رہا ہے جو کبھی حالیہ ملک شام، فلسطین'لبنان اور اردن پر مشتمل تھا۔شام کے مسلمانوں کے لیے رسول اللہ ۖ کی دعا بھی ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا تھا : اللھم بارک لنا فی شامنا
یعنی :اے اللہ ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما! (صحیح بخاری)
ایک اور مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ملتی ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا تھا :
''عنقریب وقت آئے گا کہ آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی جتنی زمین ہو کہ جس سے اس کی نظر بیت المقدس تک جاسکے 'اس کے لیے یہ پوری دنیا سے افضل ہوگا 'یا پھر یہ الفاظ کہے 'یہ اس کے لیے دنیا و ما فیھا سے افضل ہوگا۔''
(روایت ابو ذر رضی اللہ عنہ، بحوالہ البانی)
ہمارے نبی ِآخر الزماں ۖکا پہلا قبلہ بھی بیت المقدس ہے جس کی طرف رخ کر کے آپۖ نے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نمازیں پڑھیں ۔
مسجد کوئی بھی ہو،اللہ کا گھر ہے تو وہ مسجد کتنی عظیم الشان ہوگی جہاں سے حضور ۖکے سفر معراج کا آغاز ہوا اور جس کا تذکرہ رب عظیم نے اپنی کتاب میں کیا اور جس کی تلاوت ساری مسلم امت کرتی ہے _'قبہ الصخری ' یا' سنہری گنبد' وہ مقام ہے جہاں وہ چٹان ہے جس سے رسول اکرمۖ سفر معراج کے لیے حضرت جبرائیل کی رفاقت میں آسمان کی جانب روانہ ہوئے تھے ۔
7 اکتوبر 2023 کو فلسطینی مجاھدین نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے نئے دور کا آغاز کیا جب فلسطینی پیرا گلائیڈرز نے قابض صیہونیوں پر نازل ہوکر حملے کیے اور انھیں حیران کردیا ،اسے ''آپریشن طوفان الاقصیٰ''کا نام دیا گیا لیکن جدوجہد کا آغاز درحقیقت 1917 میں اسی وقت ہوگیا تھا جب 'معاہدہ بالفور ' کے مطابق انگریز حکومت نے صہیونیوں کے وطن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔1948 میں عالمی طاقتوں نے ایک گھناؤنی سازش کے تحت یہودیوں کو لا کر فلسطین میں آباد کرنا شروع کیا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ آج ارض فلسطین پر فلسطینی مسلمانوں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے اور یہودیوں نے ظلم و بر بریت کے ہتھکنڈوں سے اپنی ناجائز حکومت قائم کرلی ہے -اس وقت اسرائیل کے تشدد اور بربریت کا مقابلہ فلسطین کے مسلمان اپنی جان کی بازی لگا کرکر رہے ہیں ۔
مسئلہ فلسطین کوئی آج کا مسئلہ تو نہیں ہے ، اس کشمکش کو ایک صدی ہوچلی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں نے در بدر بھٹکتے جن یہودیوں کو ترس کھا کے پناہ دی تھی ،آج وہ ہی محسن کشی پر اتر آئے ہیں ۔ اسرائیلی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی ،گریٹر اسرائیل کا جو نقشہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود ہے ،اس کے مطابق فلسطین ،شام، لبنان، اردن ،عراق، ترکی کا اسکندریہ ،مصر سے سینا، ڈیلٹا کا علاقہ ،سعودی عرب سے بالائی نجد و حجاز ،جس میں نعوذ باللہ مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے،یہ سب شامل ہیں۔اگر ان خطرناک عزائم کو روکنا ہے تو پھر مسلمانوں کو متحد ہوکر کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ اس وقت حریت پسند تنظیم " حماس" کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن " طوفان الاقصی" نے فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد آزادی میں ایک نئی روح پھونکی ہے تاہم اس وقت اسرائیل جس طرح نہتے شہریوں ،آبادیوں یہاں تک کہ ہسپتالوں پر بھی وحشیانہ بمباری کررہا ہے ،ہزاروں معصوم شہری بشمول خواتین اور بچے شہید کیے جاچکے ہیں ،زخمیوں کے علاج معالجہ کی خاطر خواہ ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام ناکافی پڑ گیا ہے ،پانچ نمازوں کے ساتھ چھٹی نماز ،جنازہ کی پڑھائی جارہی ہے۔ ہسپتالوں میں اب ڈاکٹر بغیر بے ہوش کیے مریضوں کے آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔اسرائیلی حکومت نے پانی اور بجلی کی سپلائی منقطع کردی ہے ۔مہلک کیمیائی ہتھیار، مسلسل بموں کے دھماکے ، اپنے پیاروں کی اموات کے مناظر نے ننھے منے بچوں کی نفسیات پر بہت برے اثرات ڈالے ہیں۔۔
خط کے چھوٹے سے تراشے میں نہیں آئیں گے
غم زیادہ ہیں ،لفافے میں نہیں آئیں گے !
سال 2023 میں اسرائیل نے فلسطین کے علاوہ ' الضف العربیہ ' سے گیارہ ہزار فلسطینی مسلمانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں پھینک دیا ۔اسرائیلی قید خانوں میں ہزاروں مسلمان پابند سلاسل ہیں -غزہ میں بجلی کی سپلائی معطل ہے ، پینے کا پانی میسر نہیں ۔غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائر جیل کہا جاتا ہے۔جنگ کا آغاز ہوئے چوتھا ماہ ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گی ۔ خوراک کا بحران بھی ہنگامی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ یونیسیف کے مطابق غزہ میں بچوں کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے ۔''
امت مسلمہ کی مجموعی صورت حال غورو فکر کی متقاضی ہے۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے بجا طور پر کہا ہے کہ اگر ہم نے بیت المقدس کھودیا تو پھر ہم مکہ اور مدینہ بھی کھو دیں گے۔ اسرائیل کے آپریشن کا نام '' آہنی تلوار''ہے اور وہ جنگ کے تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا رہا ہے ۔ ماہرین کے مطابق اب تک جتنے ٹن بارود غزہ پر گرایا گیا ہے ،اتنا جنگ عظیم کے دوران بھی نہیں گرایا گیا تھا۔ اسرائیل نے جس طرح غزہ میں اندھا دھند بمباری کرکے شہری آبادی، ہسپتالوں، شفاخانوں حتی کہ اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والے رضاکاروں اور صحافیوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا ہے وہ بلاشبہ ہولو کاسٹ سے کم نہیں ہے۔فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔اسرائیل نہ صرف امنِ عالم کے لیے خطرہ ہے بلکہ یہ حالات کچھ عملی اقدامات کے متقاضی ہیں ۔ہر مسلمان کا دل چھوٹے چھوٹے بچوں کی شہادتوں پر اشک بار ہے ۔
رفح میں 'سپریم ایمرجنسی کمیٹی' کے سربراہ احمد الصوفی نے کہا ہے :
" ایجنسی کی پناہ گاہوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 7 لاکھ 13ہزار ہے جن میں بیرونِ شہرنقل مکانی سے آنے والے بھی شامل ہیں۔
ایک جنگ وہ بھی ہے جو سوشل میڈیا پر لڑی جارہی ہے ،آپ اسے ''نظریات کی جنگ'' بھی کہہ سکتے ہیں۔کچھ لوگ ''حماس'' پر اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں, کچھ تو اسے اسرائیل کی اپنی تیار کردہ جماعت کا نام دے رہے ہیں۔ حقیقت ان سب مفروضوں سے بالکل مختلف ہے ۔ "حماس" کا اصل نام " حرک المقاوم الاسلامیہ" ہے ،اس تنظیم کی بنیاد "شیخ احمد یاسین" نے 1987 میں رکھی تھی اور انھوں نے شہید ہونے سے قبل پیش گوئی کی تھی کہ اسرائیل 2025 تک ختم ہوجائے گا ، حماس کی حالیہ جدوجہد اسی نصب العین کی طرف پیش رفت ہے۔ فلسطینی مسلمان کئی برس سے اسرائیلی ظلم و بربریت کا نشانہ ہیں لیکن "قبلہ اول بیت المقدس " کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ 7 اکتوبر سے " طوفان الاقصی " کی نئی لہر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔یہ ناجائز تسلط سے آزادی کی تحریک ہے جو فلسطینیوں کا بنیادی حق ہے ۔
فلسطینیوں کی حالیہ جدوجہد نے اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا امیج ختم کردیا ہے اور اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور حفاظتی شیلڈ کا خوف بھی ختم کردیا ہے -
پاکستان روز اول سے اسرائیل کے قیام کو فلسطینی مسلمانوں پر قابض قوت سمجھتا ہے اور فلسطین کی مکمل آزادی کے مؤقف کے ساتھ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آزادی کے ساتھ رہنے کا پورا حق ہے، اقوامِ متحدہ سمیت اسلامی و دیگر ممالک کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ فلسطین کی آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
مضمون نگار قومی، عالمی اور اُمور سے متعلق موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے