گزشتہ چند ماہ سے ملک میں معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک میں معیشت کی درستگی کے لیے ہر وہ اقدام کیا جائے گا جس سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر ہو سکے ۔پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور زراعت پر ہی اس کی معیشت کا انحصار ہے مگرمختلف ادوار میں وضع کی گئی ناقص پالیسیوں، نامساعد قدرتی حالات یا بدقسمتی کی وجہ سے زرعی اجناس برآمد کرنے والا ملک اس وقت گندم اور غذائی اشیاء درآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ گئے ہیں اور تجارتی خسارہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا ہے جس پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی تدابیر کارگر نہیں ہو رہیں۔بہر حال اب قومی سطح پرسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل( ایس آئی ایف سی) کے تحت مختلف شعبوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جارہا ہے۔ زراعت ان شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا کردار اس حوالے سے بہت اہم ہے۔ گزشتہ دنوں خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نیکہاکہ'' ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی، پاکستان میں زرعی انقلاب آ کر رہے گا،گرین پاکستان انیشیٹیو کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا۔''
بلاشبہ زراعت ہی ایسا شعبہ ہے جو پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے، جنگلات بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں، مویشی بھی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی تو جنگلات زیادہ ہوں گے اور پھر اسی رفتار سے گائے، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہو گی ، اس طرح ملک میں خوراک بھی وافر ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ دودھ، گھی، گوشت اور انڈوں کی بھی فراوانی ہو گی۔
پاکستان میں زرعی ترقی کے لیے سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے تعاون سے متعدد زرعی منصوبے زیر غور ہیں جو ملک کی برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ان شعبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری، ماہی گیری اور شمسی توانائی کا استعمال شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک جامع پروگرام کے تحت مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آب پاشی نظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائیں گے، جس سے ملک کے ہر حصے میں نہ صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت بھی کی جائے گی۔
پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضائع ہو جاتا ہے، اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسا کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی، سپرنکلر آب پاشی اور محور آبپاشی کا استعمال کیا جائے گا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، مویشیوں کا چارہ ، گندم، روئی، چاول، سورج مکھی، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوائی انرجی شامل ہیں۔
پاکستان میں کل زمین 79.6 ملین ہیکٹر ہے جس میں سے 24 ملین ہیکٹر زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں جب کہ 9.1 ملین ہیکٹر زمین قابل کاشت بنجر زمین ہے جس پر کام کر کے اسے زرعی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔حکومت نے کسانوں کے لیے کھاد پر سبسڈی دے رکھی ہے جس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ کسان، کھاد کی بوری پر لگے کوپن دکھا کر اس پر دی گئی سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے گندم کی کھپت اور پیداوار میں پانچ کروڑ میٹرک ٹن کا فرق ہے۔ یعنی گندم کی کھپت تیس کروڑ میٹرک ٹن جبکہ پیداوار 25 کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ زراعت کے شعبے پر عدم توجہی اس قلت کا سبب ہے۔ گرین پاکستان انیشیٹیو اس قلت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
علاوہ ازیںزراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں ۔ نئے ڈیم بنانا اچھا فیصلہ ہے، اس کے ساتھ نہروں ، کھالوں کو پختہ کر کے اور ان کی مرمت کر کے اس قابل بنایا جائے کہ پانی ضائع ہوئے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔
ایسے میں پاک فوج کی طرف سے ملک میں زرعی انقلاب لانے کی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالنے کے عزم کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ خانیوال میں زرعی انقلاب کی بنیاد رکھنے کے موقع پر افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ '' ہمیں کشکول اٹھا کر باہر پھینکنا ہے۔'' آرمی چیف کے اس اعلان سے یقینا زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے والوں کے حوصلے بلند ہوں گے کیونکہ ان کی پشت پر سرحدوں کی حفاظت کرنے والے مجاہدوں کے آہنی ہاتھ اور استقامت کی قوت بھی ہو گی ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سکیورٹی اور معیشت کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ سکیورٹی کے لیے معیشت اور معیشت کے لیے سکیورٹی ناگزیر ہے۔ آرمی چیف کے معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات اب ملک کے کونے کونے میں مختلف شکلوں میں نظر آ رہے ہیں۔ موجودہ وقت میں جب پاکستان معاشی ابتری کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے، زرعی انقلاب لا کر ملک کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا عزم ایک دلیرانہ اقدام ہے جسے حکومت اور پاک فوج مل کر ہی عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ملک میں لاکھوں ایکڑ رقبہ بنجر اور غیر آباد پڑا ہے۔ اسے قابل کاشت بنا کر پاکستان اپنی زوال پذیر معیشت کو بحال کر سکتا ہے۔ ہمارے کسان محنت اور جفاکشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ انہیں جدید سہولتیں مہیا کی جائیں تو مٹی سے سونا پیدا کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی کمپنیو ں کی طرف سے اعلانات بھی کیے جا چکے ہیں۔ جن میں سستی کھاد اور آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی بھی شامل ہے۔ نگران حکومت کی کسان دوست پالیسیوں پر انتخابات کے بعد آنے والی حکومت بھی عمل پیرا رہے اور ان میں مزید بہتری لائے تو کوئی وجہ نہیں کہ زرعی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔
ایک خوشی کی خبر یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کا 14 لاکھ ایکٹر زمین پر معاہدہ ہو چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل سٹریٹجک پروجیکٹس پاکستان آرمی کاکراچی میں ساتویں فیوچر سمٹ سے خطاب میں کہنا تھا کہ'' حکومت کے پاس 91 ملین ہیکٹر زمین خالی پڑی ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 14 لاکھ ایکٹر زمین پر معاہدہ کر لیا ہے،گرین پاکستان انیشی ایٹو ملک کی زراعت اور خوراک کے تحفظ کا ضامن پروگرام ہے۔ اس پروگرام میں جتنی زمین کو قابل کاشت بنا رہے ہیں وہ کئی ملکوں کے مجموعی رقبے سے زیادہ ہے۔'' اس دو روزہ کانفرنس میں 25غیر ملکی مندوبین سمیت 70 ماہرین معیشت ، ماہرین تعلیم اور کارپوریٹ لیڈرز نے بھی خطاب کیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ گرین پاکستان انیشیٹو حکومت پاکستان اور پاکستان آرمی کے اشتراک سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان میںمختلف قسم کی جغرافیائی زمین ہے جہاں ہر قسم کی فصل کاشت ہو سکتی ہے۔یہ ایک خوش آئند امر ہے۔تاریخ اس حوالے سے پاک فوج کے کردار کو سنہری حروف میں لکھے گی۔
مضمون نگار شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔
[email protected] m
تبصرے