ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری شہری موجود ہیں وہ کشمیریوںسے اظہارِ یکجہتی کے طورپر ریلیوں اور سیمینارز کے ذریعے آزادی ِکشمیر کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس کے حل پر زور دیتے ہیں۔ 1948 میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو خود اس تنازع کو اقوامِ متحدہ لے کر گئے جہاں یہ قرار داد پاس کی گئی کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام استصوابِ رائے کے ذریعے خود کریں گے۔ انہی قرار دادوں کے دباؤ اور روشنی میں بھارت نے اکتوبر1949 میں اپنے آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا جس کے ذریعے کشمیریوں کو خصوصی حقوق دیئے گئے۔ کچھ برسوں بعد آرٹیکل 35-A کے تحت کشمیریوں کے خصوصی حقوق کو مزید تقویت دی گئی اور کشمیریوں کے اس غم وغصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی جو ان میں اس وقت سے موجود تھا اور ہے، کہ جب1947 میں کشمیرکی مسلمان اکثریت کو ڈوگرہ حکمران، جواہر لال نہرو اور برطانوی وائسرائے کی ملی بھگت سے بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کردیاگیا اور گرداسپور کو پاکستان سے الگ کرکے بھارت کو دے دیاگیاتاکہ بھارت کو جموں تک کا زمینی راستہ مل جائے اور کشمیرکو کنٹرول کرنا آسان ہو جائے لیکن بھارتی زیرِ تسلط کشمیرکے عوام نے نہ تب اس ہٹ دھرمی کو قبول کیا اور نہ آج کررہے ہیں۔
5 اگست2019 کو جس طرح بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور35-Aکو یک لخت ختم کردیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ بہرطورکشمیری عوام مزاحمت کی ایک دیوار بن کر بھارتی افواج کے سامنے کھڑے ہیں۔ کشمیریوں کی مزاحمت کو دبانے کے لیے بھارتی افواج اُنہیں طرح طرح کی اذیتوں کے ذریعے ہراساں اور کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ کبھی انہیں ماورائے عدالت ہلاکتوں کا شکار بنایا جاتا ہے تو کبھی پیلٹ گنوں کے ذریعے نوجوان کشمیریوں کو اپاہج بنایا جاتا ہے اور کبھی خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔آرٹیکل 370اور35-Aکے نام نہاد خاتمے کے بعد سے تو بھارتی مسلح افواج اور دیگر ادارے کھل کر کھیل رہے ہیں۔ کشمیرکی زمین دھڑا دھڑ ہندو شہریوں کو الاٹ کی جارہی ہے اور وہاں ہندو آبادیاں قائم کر کے کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے لیے انہیں کشمیر کے رہائشی ہونے کے ڈومیسائل کا اجراء کیا جارہا ہے۔ گویا وہ تمام اقدام اٹھائے جارہے ہیں جن سے کشمیریوں کے جذبے ماند پڑ جائیں اور وہ ذہنی طور پر شکست تسلیم کرکے اپنے نظریۂ آزادی سے ہٹ جائیں لیکن کشمیری عوام آج بھی اُسی طاقت اور عزم کے ساتھ بھارتی استعماریت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے تو کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ قرار دیاتھا۔پاکستان کا بطور ریاست آج بھی یہی مؤقف ہے کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کشمیری عوام اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے خود کریں گے۔ اس کے لیے پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی سطح پر کشمیریوں کو اخلاقی اور سفارتی معاونت فراہم کی ہے۔ آج اتنے برس بعد بھی اگر تحریکِ آزادی ٔ کشمیر اسی جذبے سے جاری ہے تو ریاستِ پاکستان کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے نومبر 2022میں اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا دورہ لائن آف کنٹرول کا کیا تھا۔ وہ وہاں تعینات ٹروپس سے ملے اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ انہوں نے اس امرکا اعادہ کیا کہ ملکی دفاع کوہر حال میں یقینی بنایا جائے گا۔
یوں پاکستان ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور اُس وقت تک کھڑا رہے گا جب تک ان کو خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں دے دیا جاتا ۔اس طرح یومِ یکجہتیٔ کشمیر ، کشمیریوں کے حق کے لیے ایک بھر پور آواز ہے جو ہر سال 5 فروری کو دنیا بھر میں بالعموم اور پاکستان میںبالخصوص بلند کی جاتی ہے۔ اس کامقصد اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں اور ممالک تک مظلوم کشمیریوں کی آواز پہنچانا ہے ۔ اِنشاء اﷲ کشمیری عوام کو اُن کا حق مل کر رہے گا اور ایک دن وہ بھارتی تسلط سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ضرورکامیاب رہیں گے۔
تبصرے