دوارکا شہر:
دوارکا (Dwarka)سطح سمند رکے ساتھ بھارتی ریاست گجرات کا ایک قدیم شہر ہے۔بی بی سی کے مطابق انڈیا میں دوارکا کی خاص اہمیت ہے۔ یہ وہ واحد شہر ہے جو مہا بھارت میں بیان کیے گئے واقعات کے زمانے میں موجود تھا۔ڈاکٹر الوک ترپاٹھی جو کہ بحرِ ہند میں ڈوبے ہوئے کھنڈرات کو تلاش کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ"زیر آب کھنڈرات کی اہم ترین کھدائیوں میں سے ایک دوارکا کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ یہ جگہ اپنی تاریخی اہمیت ، اپنی مذہبی عظمت اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے بھی اہم ہے۔"
آپریشن کا تعارف:
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں فرمایا تھا کہ پاکستان نیوی ایک چھوٹی فورس ہے لیکن ذمہ داری کا علاقہ بہت زیادہ ہے لہذا اسے اپنی اعلیٰ تربیت سے دشمن پر حاوی ہونا ثابت کرنا ہے۔ پاکستان نیوی نے یہ بات 1965 میں ثابت کی اور دشمن کو اس کے گلے سے جا کر دبوچ لیا ۔ نیوی کی تاریخ میں 6میل کے فاصلے سے دشمن پر حملے کی نظیر بہت کم ملتی ہے۔ دشمن مکمل طور پر حیران رہ گیا اور بروقت کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکا۔ہر سال 8 ستمبر پاکستان نیوی کے اس عظیم معرکے کی یاد دلاتاہے۔اس حملے کا ہدف دشمن کا ایک ریڈار اور ایک بیکن تھا جوکہ دشمن کے بمبار طیاروں کو گائیڈ کر رہے تھے۔
منصوبہ بندی اور فورس:
آپریشن سومنات، آپریشن دوارکا کے نام سے مشہور ہے۔1965 کی پاک بھارت جنگ میں آپریشن دوارکا پاک بحریہ کا ایک آپریشن تھا جو 8ستمبر 1965 کو بھارتی ساحلی شہر دوارکا پر کیا گیا تھا۔ یہ پاک بحریہ کا کسی بھی پاک بھارت جنگ میں پہلا استعمال تھا۔اپنی تربیت پر یقین رکھتے ہوئے، بحری بیڑے نے 8/9 ستمبر کی درمیانی رات، کراچی سے تقریباً 120میل مشرق میں دوارکا قصبے پر بمباری کرکے بھارتی ردعمل کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے مزید نقصان پہنچایا جا سکے۔ پہلے9 عدد گولے عین ریڈار سٹیشن کے احاطے میں جاکر گرے جن کے باعث ریڈار سٹیشن مکمل طور پر تباہ اور ڈیوٹی پر موجود دو آفیسرز اور تیرہ بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے۔ حملہ دشمن پر کافی حد تک اخلاقی طور پر اثر انداز ہوا ۔ دوارکا آپریشن پاک بحریہ کی طرف سے بھارتی شہر گجرات کے ساحلی قصبے دوارکا پر حملے کی بے مثال داستان ہے۔ دوارکا میں بھارت کی بحری بندر گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ریڈار سسٹم نصب تھا جس کی مدد اور رہنمائی سے بھارتی ائیر فورس پاکستان کے مختلف شہروں خاص طور پر کراچی جیسے اہم تجارتی و معاشی مرکز پر فضائی حملے کر رہی تھی۔ کراچی شہر بندر گاہ کی وجہ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل تھا جس کی فوری حفاظت یقینی بنانا پورے ملک کے لئے بے حد اہم تھا۔
آپریشن میں پاک بحریہ کے ان جنگی جہازوں نے حصہ لیا۔ ان میں پی این ایس بابر، پی این ایس خیبر، پی این ایس بدر، پی این ایس جہانگیر، پی این ایس عالمگیر، پی این ایس شاہ جہاں اورپی این ایس ٹیپو سلطان شامل تھے۔
آپریشن کے لیے جہازوں کو دوارکا سے 120 میل مغرب میں پوزیشن سنبھالنے کی ہدایات دی گئیں۔7 ستمبر کی شام 6 بجے، جہازوں نے دوارکا کی سمت پیش قدمی کی۔ آدھی رات کو جہازوں نے دوارکا کے ریڈار سٹیشن پر بمباری شروع کی۔ بمباری کے نتیجے میں ہدف حاصل ہو گیا اور دشمن مکمل طور پر ششدر رہ گیا۔
بمباری کے بعد، جہازوں نے دوارکا کے ساحل پر واقع دیگر اہداف کو بھی نشانہ بنایا۔ اس میں ایک فوج کی چوکی، ایک فوجی اڈہ، اور ایک ٹریفک پولیس کا سٹیشن شامل تھا۔آپریشن دوارکا میں پاک بحریہ کو کامیابی ملی۔ آپریشن کے نتیجے میں بھارتی بحریہ کو نقصان پہنچااور آج تک انڈین نیوی اس کا قابل ذکر جواب نہیں دے سکی۔آپریشن دوارکا کو پاکستان میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آپریشن نے پاکستانی بحریہ کی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہبھارتی بحریہ اس غیر متوقع حملے سے گرفت میں آگئی۔اس حملے میں ساحل سمندر ایک ریلوے ریسٹ روم اور ریلوے ٹریک کے ایک چھوٹے سے حصے کو نقصان بھی پہنچا۔ ظاہر ہے رات کے اندھیرے اور جدید ذرائع کی کمی کے باعث بہتر ڈیجیٹل ریکارڈ حاصل نہیں کیا جا سکا۔
آپریشن دوارکا کے نتائج:
1۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باضابطہ بحری جنگ کا آغاز تھا، جس میں پاکستان نیوی کی گرجدار کامیابی مستقبل کی بحری پیش رفت کی تمہید تھی۔ اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے کیونکہ آپریشن کی کامیابی نے بھارت کو اپنے زخم چاٹنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد بھارتی افواج کی جانب سے ساحلی پٹی پر کوئی جوابی فضائی، بحری یا بری حملہ نہیں کیا گیا۔
2۔ یہ آپریشن پاک بحریہ کی آپریشنل تیاری، رابطہ کاری اور درستگی کے لیے ایک لٹمس ٹیسٹ کے طور پر بھی ثابت ہوا کیونکہ یہ ایک کامیاب ترین مشن تھا،دیے گئے پلان پر پوری طرح عمل کیا گیا اور تمام اہداف کو ہدایت کے مطابق حاصل کیا گیا، کوئی ریڈیو مواصلات کا انتظام نہیں کیا جا رہا تھاتاکہ آپریشن خفیہ رہے۔
3۔ سب سے بڑھ کر، آپریشن دوارکا نے بھارتی بحریہ کے حوصلے کو نمایاں طور پر پست کیا۔ یہاں تک کہ بھارتی جنگی جہاز "INS-Mysore"، جو کہ کوچن کے قریب ہی تعینات تھا، نے پاکستان نیوی کی طرف سے شروع کیے گئے حملے کا جواب نہیں دیا۔
٭جائزہ:
اگر آپریشن دوارکا کا پیشہ ورانہ جائزہ لیں تو پاک بحریہ کی جنگی مہارت اور حکمت عملی پہ داد دیئے بنا نہیں رہا جا سکتا۔ 1965 کی جنگ میں پاک بحریہ کو پہلی بار جنگی سطح پر اپنی پیشہ ورانہ قابلیت دکھانے کا موقع ملا اور اپنے پہلے آپریشن سے ہی پاک بحریہ نے اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کا لوہا منوا لیا۔
اس لیے شہر قائد کو بھارتی حملوں سے محفوظ رکھنے اور دشمن فوج کے حوصلے پست کرنے کے لئے دوارکا بندر گاہ اور ریڈار اسٹیشن کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یوں تو بھارت کی تمام افواج کے پاس پاکستان کی نسبت زیادہ اسلحہ تھا مگر پاک بحریہ کو اپنی غازی آبدوز کی بدولت بھارتی بحریہ پر فوقیت حاصل تھی۔ اس وقت تک بھارت کے پاس آبدوز نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنی اس برتری کا استعمال کرتے ہوئے غازی آبدوز کو گہرے پانیوں میں تعینات کر دیا۔
غازی آبدوز کی ذمہ داریوں میں بھارتی بحریہ کے بڑے جنگی جہازوں اور طیارہ بردار بیڑے وکرانت سے نپٹنا تھا۔ غازی آبدوز کا بھارتی بحریہ پہ اتنا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے اپنے طیارہ بردار بیڑے وکرانت کو محفوظ رکھنے کے لیے اسے سات سو کلومیٹر دور جزائر انڈمان میں لے جا کر چھپا دیا۔ اس کے علاوہ غازی آبدوز کی دہشت سے بھارتی بحریہ کے کسی جنگی جہاز کی کھلے سمندر میں نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا کوئی بھی بحری جہاز غازی آبدوز سے بچ کر نہیں جا سکتا۔
پاک بحریہ کا بحری بیڑا رات کی تاریکی میں ریڈیو سگنلز استعمال کیے بغیر آگے بڑھ رہا تھا کیونکہ ریڈیو سگنلز استعمال کرنے سے دشمن کو پاک بحریہ کی منصوبے کی بھنک پڑ سکتی تھی اس لیے سمت کا تعین کرنے کے دیگر طریقے استعمال کیے گئے۔ جب پاکستان کا بحری بیڑا دوارکا کے قریب ایسی پوزیشن پر پہنچ گیا جہاں سے پورا شہر پاکستانی توپوں کی زد میں تھا تب تک رات کے بارہ بج چکے تھے۔ 8 ستمبر کو رات بارہ بج کر چوبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا اور پاک بحریہ کی آگ اگلتی توپوں نے منٹوں میں دوارکا بندر گاہ، ریڈار اسٹیشن اور رن وے تباہ کر دیا۔ مشن مکمل کرنے کے بعد پاکستان کا بحری بیڑا پورے اطمینان اور حفاظت سے واپس لوٹ آیا۔ اس حملے اور غازی آبدوز سے دشمن اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوا کہ ان کے کسی جہاز نے پاکستان کے بحری بیڑے کا پیچھا تک نہ کیا۔
پاک بحریہ ایک شاندار دفاعی قوت ہے اور یہ بات درست بھی ہے کیونکہ ہمارے بحری محافظ ساحلوں سے دور سمندروں کی سطح اور گہرائی میں اپنا مشن جاری رکھتے ہیں۔ ایک آبدوز جب پانی کی سیکڑوں میٹر گہرائی میں آپریشن کرتی ہے تو وہ نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے لیکن وطنِ عزیز کے دفاع، آبی سرحدوں کی نگرانی اور اب جدید چیلنجزکے پیش نظر پاک بحریہ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
1965 میں اس اچانک حملے پر بھارتی کمان حیران تھی تاہم اس مشن میں پاک بحریہ کو کئی خطرات بھی لاحق تھے لیکن پاک بحریہ کے جوانوں نے اپنے جذبۂ شہادت اور مشن کی تکمیل کے لیے ان تمام خطرات کی بالکل بھی پرواہ نہ کی۔اور پاک بحریہ کی تاریخ میں ایک سنہری باب رقم کر دیا۔اس جنگ میں پاک بحریہ کو امریکی آبدوز غازی کی شکل میں بھارت پر سبقت حاصل تھی اور ایسی آبدوز پورے خطے میں موجود نہ تھی۔
وائس ایڈمرل(ریٹائرڈ)شمعون عالم خان کے مطابق رن آف کچھ کے معرکے کے بعد ہمارے جہاز چھ ماہ تک سمندر میں مصروف عمل رہے۔ غازی آب دوز نے بہت دنوں تک بمبئی کا محاصرہ جاری رکھا اور انڈین نیوی کو حرکت نہ کرنے دی۔انڈین نیوی نے دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ ہماری نیوی نے عددی کمی کے باجود جارحانہ اقدامات کیے۔انڈین نیوی کو ٹریپ کرنے کا یہ اعلی منصوبہ تھا۔
اسی طرح ڈی آر مانکی گرکی کتاب میں مصنف لکھتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے کے چوبیس گھنٹوں کے اندر صدر ایوب خان نے بھرپور جواب دینے کے ارادے سے اپنی بحریہ کو بھی میدان میں اتار دیا۔بحریہ کے فریگیٹس نے دوارکا کی قریب ترین، سب سے چھوٹی بندرگاہ پر حملہ کیا اور بمباری کی۔بھارتی بحریہ اس غیر متوقع حملے سے گرفت میں آگئی۔ بھارتی بحریہ کے جہاز ابھی مشرقی ساحل کی ایک مشق سے واپس آئے تھے اور اس وقت ضروری مرمت کر رہے تھے جب 22 ،روزہ جنگ شروع ہوئی تھی۔ دراصل انڈین آرمی کی 1965 کی جنگ کی سرکاری تاریخ کے مطابق 7 ستمبر کی آدھی رات کو، کچھ پاکستانی بحریہ کے جہاز، بشمول کروزر پی این ایس بابر، تجارتی جہازوں کے بھیس میں، سوراشٹرا کے ساحل پر واقع دوارکا کی معمولی بندرگاہ کے قریب آئے اور اس پر بمباری کی۔
پاکستان ایئر فورس کی مدد سے اس علاقے میں بمباری کی گئی۔ پاکستان کی مسلح افواج کی تاریخ میں اس طرح کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔
جنگی حکمتِ عملیکے تحت سمندر میں پاک بحریہ نے جنگ کے آغاز میں ہی بھارتی نیوی کو دوارکا کے مقام پر جا لیا، ہلاکتوں کے علاوہ مالی اور جانی نقصان پہنچایا اور بھارتی نیوی کو غیر یقینی کیفیت میں ڈال کر محدود کر دیا۔آئی ایس پی آر نے 1998میں اس موضوع پر ایک فلم بھی بنائی تھی۔ یہ پاکستان کی قومی اور عسکری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جانے والی ایک عظیم داستان ہے۔دوارکا ایک حقیقت ہے جس کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے۔جس پر بلا شبہ فخر کیا جاسکتا ہے۔
مضمون نگار عسکری و قومی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے