کرونا کے بعد پوری دنیا کے معاشی حالات میں تبدیلی ہوتی نظر آئی اور یورپی ممالک سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک بھی دبائو کا شکار نظر آئے ۔ دنیا کی سب سے بڑی اکانومی امریکہ کے اندر بھی واضح انفلیشن دکھائی دی ۔ حتی کہ امریکہ کو مزید قرضے لینے کی لیے قرضے کی حد میں اضافے کے لیے اپنے متعلقہ اداروں سے قانون پاس کروانا پڑا ۔
یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستان جیسا پہلے سے ہی کمزور معیشت رکھنے والا ملک ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لینے والے اس معاشی بحران کے اثرات سے بچ سکتا ۔ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں اور گیس ، بجلی کے بلوں میں اضافے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی نے ریکارڈ مہنگائی پیدا کی اور ہر طرف شور مچ گیا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا بلکہ یہ آوازیں بھی سنای دے رہی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے لیکن بتایا نہیں جا رہا ۔ بہرطور ریاست کی بروقت کارروائی ، محنت اور حکمت عملی نے بازی پلٹ دی اور سپہ سالا جنرل عاصم منیر کے فوری اور مؤثر اقدامات کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ۔ آج ایک تسلسل سے پیٹرول کی قیمت میں مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے اور روپے کی قدر میں اضافہ نظر آ رہا ہے ۔ سپہ سالار کے یہ اقدامات فوری نوعیت کے اقدامات تک محدود نہیں بلکہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نہ صرف طویل مدتی حکمت عملی وضع کی گئی ہے بلکہ اس پر عمل درآمد کا بھی آغاز ہوچکا ہے ۔ اس حکمت عملی کا سب سے خاص عنصر یہ ہے کہ ملکی تعمیر و ترقی کے دھارے میں نوجوانوں کو خصوصی طور پر شامل کرنے اور ہر شعبے میں ان کے لیے مواقع پیدا کرنے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے جو کہ نہایت امید افزا ہے ۔ خاص طور پر زراعت ، معدنیات اور آئی ٹی کے شعبوں کو تربیت یافتہ نوجوانوں کے ذریعے ملک کی معیشت کا نصیب بدلنے کا منصوبہ امید کا وہ ستارہ ہے جو پاکستان کے تابناک مستقبل کی نوید سنا رہا ہے ۔
جس طرح تاجر کسی ملک کی معیشت کے حوالے سے ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتے ہیں اسی طرح کسی ملک و قوم کے نوجوان ریاست کا مستقبل ہوتے ہیں جو ریاست کے ہاتھ بن کر اس کی تعمیر کرتے ہیں اور پاؤں بن کر کٹھن اور مشکل راستوں پہ چل کے وطن کو بلند اور عظیم منزلوں کی طرف لے کے چلتے ہیں ۔ بقول شاعر
نوجوانوں کے ہاتھوں میں تعمیر ہے
اور پیروں تلے راستے
منزلوں تک پہنچتے ہوئے راستے
نوجواں عزم و ہمت کے کوہسار ہیں
عظمت و دامیت کے آثار ہیں
نوجوانوں کی آنکھوں میں صبحِ چمن
دیکھ کر بھی اگر ہم نے اس گیت کو
گنگنایا نہیں ، کچھ بھی پایا نہیں
یہ جو نوکِ قلم ، یہ جو تلوار ہے
سوچیے آج کیوں خود سے بیزار ہے
راز تیری سمجھ میں بھی آیا نہیں
راز میری سمجھ میں بھی آیا نہیں
کوئی ہے جو تدبر سے بھی کام لے ؟
ڈوبتی نائو کو تھام لے تھام لے
اور کنارے پہ لے آئے امید کے
جس جگہ صبحِ نو منتظر ہو
اجالے نویدِ سحر کی خبر دیں
نئے اور نرالے زمانے کا آغاز ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پوری دنیا اس راز کو جان چکی ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کا سب سے بڑا اثاثہ ، سب سے بڑی طاقت اس کا نوجوان طبقہ ہوتا ہے اور جدید اصطلاح میں اسے ہیومن کیپیٹل قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان کو قدرت نے زمینی خزانوں کی طرح اس انسانی خزانے سے بھی مالا مال کر رکھا ہے ۔ پاکستان کی تیرہ کروڑ کی آبادی 35 سال سے کم عمر یعنی جوانوں پر مشتمل ہے جس کی اہمیت سے واقف ہونے کے باوجود اور اعداد و شمار اکٹھے کرکے وعدے وعید کرنے کے باوجود اس پوٹینشل کو آج تک مناسب طریقے سے چینلائز کیا ہی نہیں گیا تھا ۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کی گزشتہ حکومتوں نے اگرچہ اس ضمن میں مختلف پراجیکٹس شروع کیے لیکن بغیر کسی لانگ ٹرم ویژن کے جن میں سے شاید ہی کوئی پایۂ تکمیل تک پہنچا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ کامن ویلتھ کے اعداد و شمار کے مطابق یوتھ گلوبل ڈویلپمینٹ انڈیکس 2013 میں پاکستان کی پوزیشن 89 کی تھی جو اب مزید خراب ہو چکی ہے۔ یہی وہ حقاق تھے جس نے ریاست کو اپنی توجہ بھرپور طور پر نوجوانوں پر مرکوز کرنے پر مائل بھی کیا اور قائل بھی ۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے ویژن کی بدولت پاکستان کی زراعت کو جدید انداز میں ایکسپلائیٹ کرنے کے منصوبے کے لیے ، ایگری سیکٹر ، آئی ٹی سیکٹر ، انجینئرنگ سیکٹر ، ٹرانسپورٹیشن اور درجنوں دیگر شعبوں میں لاکھوں نئی جابز کے دروازے کھل رہے ہیں ۔پاکستان کی زرعی اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں خاص طور پر میدانِ عمل میں آ چکی ہیں ۔ وزارت ِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کے احکامات دیے جاچکے ہیں۔ اسی طرح منسٹری آف مائننگ اینڈ منرلز اور آئی ٹی کے شعبوں میں تیزی سے کی جانے والی پیش رفت سے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے اجرا ء کے نئے عہد کا آغاز ہونے جا رہا ہے ۔
ایک اور اہم پہلو کی طرف اشارہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ ریاست کی طرف سے پاکستانی نوجوانوں کو سوشل میڈیا کا شعور بخشنے کی پالیسی بنائی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کا نوجوان سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچ کر اس سے مالی اور تعلیمی استفادہ کرنے کا اہل ہو سکے ۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا کہ ریاست کی طرف سے نوجوانوں کو سوشل میڈیا سے تعمیری کام لینے کا شعور دینے کی سوچ ملک و قوم کی تعمیر ِ نو میں کلیدی قدم اٹھانے جیسا ہے ۔ ریاست کے اس قدم کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی نوجوانوں کے ذہنوں پر یلغار کے باعث پہلے ہم یہ گلہ کرتے تھے کہ نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی ضرورت ہے جس کا حق ادا نہیں ہو پا رہا لیکن اب تو تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ تہذیب و ترتیب کی بھی ضرورت پیدا ہوگئی ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے منتشر اذہان کی مالک اور شخصی بے ترتیبی کی شکار جو نسل سامنے آئی ہے اس میں نوجوانوں کا نہیں بلکہ ہم بزرگوں کی نسل کا قصور ہے ۔ پچھلے پچھتر سالوں میں اگر ہر پہلی نسل آنے والی نسل کے لیے کوئی پختہ راہِ عمل متعین کر گئی ہوتی تو آج پاکستانی نوجوان پہلے سے کئی گنا بڑھ کر سر ِ افلاک جگمگا رہے ہوتے۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجو اگر ہمارا نوجوان کھیل کے میدان سے لیکر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی تک اور فنون ِ لطیفہ سے لے کر آئی ٹی تک دنیا پر اپنی قابلیت ثابت کر کے دھاک بٹھاتا آیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سرزمینِ پاک کی مٹی نم بھی ہے اور زرخیز بھی۔ اب یہ دہقان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مٹی سے کس طرح کی فصلیں حاصل کرتا ہے ۔
یہ بات مسلمہ امر ہے کہ نوجوان ہی کسی ملک و ملت کے مقدر کا ستارہ ہوتا ہے ۔ مضبوط اعصاب ، کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سرشار اور زندگی کی جنگ میں فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے عزم صمیم سے بھرا ہوا ہوتا ہے ۔ اس قوت اور جذبے کو سمت دکھاناہوتی ہے، پھر یہ اپنی رفتار سے آگے بڑھتا ہے اور چوٹیاں سر کرتا چلا جاتا ہے ۔
قائداعظم نے لاہور میں طلبا ء سے 30 اکتوبر 1937کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :'' تعمیرِ پاکستان کی راہ میں مصائب اور مشکلات کو دیکھ کر نہ گھبرائیں۔ نومولود اور تازہ وارد اقوام کی تاریخ کے متعدد ابواب ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں کہ ایسی قوموں نے محض قوتِ ارادی، توانائی، عمل اور عظمت ِکردار سے کام لے کر خود کو بلند کیا۔ آپ خود بھی فولادی قوت ارادی کے مالک اور عزم وارادے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ تاریخ میں وہ مقام حاصل نہ کریں جو آپ کے آباؤ اجداد نے حاصل کیا تھا۔ آپ میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔''
قائدِاعظم نوجوان نسل کی اہمیت اور قدر و قیمت سے بخوبی واقف تھے ۔انہوں نے جہاں ریاست کے لیے نوجوانوں کی نگہداشت کی ضرورت کو اجاگر کیا وہاں نوجوانوں کو اپنی قوت اور اپنے جذبے کو سنوار کر وطن کی تعمیر و ترقی کا سبق بھی دیا ۔ اگرچہ نوجوانوں میں مجاہدوں جیسا جذبہ پیدا ہوا اور ہوتا رہا ہے لیکن درمیان درمیان سے یہ سلسلہ ٹوٹتا بھی رہا یا توڑا جاتا رہا۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس کا احساس بہت جلد کر لیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں پاکستان کے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے ویژن اور کوشش کی داد نہ دینا بخل سے کام لینے کے مترادف ہوگا ۔
الحمدﷲ یہ امر اپنی جگہ بہت اہم ہیکہ پاکستان اپنی تاریخ کے شدید ترین معاشی بحران سے نکل کر استحکام اور ترقی کے نئے راستے پر گامزن ہوچکا ہے جس کی باگ ڈور پاکستان کے قابل ، محبت وطن اور قومی جذبے سے سرشار نوجوانوں کے ہاتھوں میں سونپنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور بفضل ِ تعالی نوجوان یہ فریضہ انجام دینے کے لیے تیار ہیں ۔ پاکستان کی طرف میلی نظر سے دیکھنے والے دشمن ایک دفعہ پھر مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ وہ جان چکے ہیں کہ روشن ، مستحکم اور طاقتور پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے مضبوط اور محفوظ ہاتھوں ہے ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے