مملکت خداداد پاکستان کا قیام یقینا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کا ظہور اور اس کا وجود کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ پیارے ملک پاکستان کے حصول میں جہاں حکمتِ خداوندی پوشیدہ تھی وہاں بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرِ پاکستان شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال جیسے اہم اور جید رہنماؤں کی جہد مسلسل بھی کارفرما رہی تھی جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو اکٹھا کرکے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کا مقصد حیات عطا کیا۔
انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران مختلف قسم کی معاشرت ،معشیت اور تہذیب و تمدن کو قریب سے جاننے، سمجھنے کا موقع ملا تو اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ برصغیر کا نوجوان ابھی تک بے راہ روی اور بے مقصدیت کا شکار ہے۔ لہٰذا انگلستان سے واپسی پر اُنہوں نے خصوصی طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کرکے شاعری کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا اور اُن کی فکر کو ایک نئی نہج عطا کی۔
الحمد للہ پاکستان کو وجود میں آئے آج 76سال گزر چکے ہیں، آج بھی ہم قومی مسائل کا سیاسی اور جمہوری حل اقبال کے فلسفے اور تعلیمات سے ہی کشید کرتے ہیں۔ اقبال کا عہد ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی، زوال اور استحصال کا عہد تھا۔ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت 1857ء میں ختم تو ہو چکی تھی مگر انگریزی حکومت مسلط ہونے کے سبب خصوصی طور پر مسلمانوں کی معاشی، سیاسی، معاشرتی اور تعلیمی حالت انتہائی پسماندہ تھی۔ دوسری طرف یورپ اور مغربی ممالک تہذیب و تمدن کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہے تھے اور علم و ہنر کے ایک نئے عروج میں داخل ہو رہے تھے۔ ایسے میں علامہ اقبال نے برِّصغیر کے نوجوانوں کے لیے نہ صرف ''خودی'' کی جوت جگائی بلکہ مقصد حیات سے بھرپور شاعری شروع کر دی ۔
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران مختلف قسم کی معاشرت ،معشیت اور تہذیب و تمدن کو قریب سے جاننے، سمجھنے کا موقع ملا تو اقبال اس نتیجہ پر پہنچے کہ برصغیر کا نوجوان ابھی تک بے راہ روی اور بے مقصدیت کا شکار ہے۔ لہٰذا انگلستان سے واپسی پر اُنہوں نے خصوصی طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کرکے شاعری کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا اور اُن کی فکر کو ایک نئی نہج عطا کی۔
مگر جلد ہی اقبال کواس امر کا بھی بخوبی احساس ہوگیاکہ اگر برصغیر کے مسلمان نوجوانوں کی تربیت کرنی ہے تو سب سے پہلے انہیں آئینِ اسلام کے دائرہ کار میں لانا ہوگا۔ علامہ اقبال چونکہ اوّل و آخر مکمل مسلمان تھے، اُنھیں پتہ تھا کہ دین ِاسلام ہی وہ واحد راستہ ہے جو مکمل طورپر مقصد حیات اور آئین عمل عطا کرتا ہے۔
اقبال نے برصغیر کے نوجوانوں کو لفظ ''آزادی'' کی نہ صرف معنویت سے روشناس کرایا بلکہ اُن کے دلوں میں آزادی حاصل کرنے کی لگن کا جذبہ بھی پیدا کیا اور مسلمان نوجوانوں کی فکری تربیت کرتے ہوئے مقصد کے بامِ کمال تک پہنچنے کی راہ بھی دکھائی۔ اب نوجوانانِ مسلمان کے سامنے ایک بلند مقصد حیات تھا اور وہ تھا ایک آزاد، خود مختار مملکت کا حصول۔ اقبال کی نظرمیں اس وقت کے نوجوان کو معاشی اور معاشرتی غلامی سے نجات دلانے سے کہیں زیادہ ضروری اُنھیں ذہنی غلامی سے نکالنا تھا۔ اسی لیے نوجوانانِ مسلمان کو ''شاہین'' کا نام دیا ۔ اُنھیں بلند پرواز کی راہ دکھائی، خودی کے فلسفے سے روشناس کرایا۔
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوںمیں
یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اقبال چونکہ معاشرتی اور سماجی حالات پر گہری نظر رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے نوجوانوں کی تربیت کے لیے لائحہ عمل دیتے ہوئے بعض وجوہات کی بناء پر سامنے آنے والی خامیوں، کوتاہیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی بھی کی۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تُو نے؟
وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
اسی لیے اقبال نے اعلیٰ تعلیم اور کردار کی نشوونما پر زور دیا انہوں نے نوجوانوں کو اپنی روحانیت کو تلاش کرنے اور فطرت سے گہرا تعلق جوڑنے کی بھی تلقین کی ہے۔ یہی فلسفہ نوجوان ذہنوں کو ایک بامعنی اور بامقصد وجود تلاش کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ اقبال نے کل، آج اور آنے والے کل کے نوجوانوں کو بھی درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یکجہتی، تعاون اور مکالمہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
لمحۂ فکریہ کہ آج کی نوجوان نسل کے کچے ذہنوں کو استعمال کرتے ہوئے دشمن اپنے مطابق ذہن سازی میں مصروف ہیں۔یہاں ہمارا بطور ایک قوم یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اقبال کی تعلیمات سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے انہیں غیروں کے ہاتھوں میں استعمال ہونے سے بچائیں اور نوجوان نسل جو اصل میں ہمارا قومی سرمایہ ہے، کو مثبت راہوں کی جانب گامزن کرنے میں ان کی مدد کریں۔
تبصرے