اقبال کی نظر میں نوجوان ہی قوم و ملّت کا مستقبل ہوتے ہیں!
اقلیمِ سخن ، حدائقِ بلاغت، ترجمانِ حقیقت، دانائے راز، نابغۂ روزگار، گنجینۂ علم و آگہی ،مصورِ پاکستان، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے فکر و فن میں لاتعداد گہرِآب دار موجود ہیں۔ آج اربابِ دانش، حیرت و استعجاب کی وادی میں فکرِ اقبال کے انبوہِ کثیر سے گنج ہائے گراں مایہ کشید کر رہے ہیں۔ اقبال ہر دور کے شاعر ہیں۔ اُنھوںنے قوم کے تمام افراد کو متاثر کیا۔ بانگِ دراکی ابتدائی نظموں کو بچوں کی نذر کر کے نونہالانِ چمن کی ذہن سازی کا درس دیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں اقبال کا ایک سیر حاصل مضمون مستقبل کے ستاروں کی کردار سازی کا قابلِ تقلید چارٹر ہے ۔ اُنھوں نے یوں تو ہر مکتبۂ فکر کو جہدِ مسلسل اور تسخیرِ کائنات کا درس دیالیکن مسلمان قوم کے نوجوانوں کو باالخصوص اپنے افکار کا محور و مرکز بنایا۔ اُنھیں تسخیرِ کائنات کا پیغام دیا۔ جہدِ مسلسل ، عملِ پیہم اور اُمتِ مسلمہ کے درخشندہ ماضی کو اُن کے لیے تحرک قرار دیا۔ مسلمان نوجوان اقبال کی نظر میں ایک شاہین کا درجہ رکھتا ہے ۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ قوم و ملت کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ نیا جوش ،نیا ولولہ اور نئی اُمنگوں کے حامل نوجوان ہی ستاروں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔ نوجوان اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ پاکیزہ سے قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔خنجر ہلال کا انفرادی نشان ہر نوجوان کی پہچان بن جائے تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
مسلمان نوجوان اقبال کی نظر میں ایک شاہین کا درجہ رکھتا ہے ۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ قوم و ملت کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ نیا جوش ،نیا ولولہ اور نئی اُمنگوں کے حامل نوجوان ہی ستاروں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔ نوجوان اوصافِ حمیدہ اور اخلاقِ پاکیزہ سے قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔خنجر ہلال کا انفرادی نشان ہر نوجوان کی پہچان بن جائے تو راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فطرت کی جولانیوں، رنگینیوں اور مناظر قدرت کے شاہکاروں سے بہت متاثر رہے۔ انھوںنے ہر شخص میں اور ہر چیز میں فطرت کی حنا بندی محسوس کی۔ وہ کبھی چیتے کی آنکھ، کبھی جگنو، کبھی پروانے، کبھی شمع اور کبھی شاہین کی صفات کے قائل ہیں۔ وہ شاہین کی صفات نوجوانوں میں دیکھنے کے تمنائی ہیں۔ شاہین تیز نگاہ ہے، کسی کا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھانے کا خوگر ہے۔ مردار نہیں کھاتا۔ بلند پرواز ہے اور طائر سدرہ تک پہنچنے کا متمنی رہتا ہے۔ پہل کرنے کا مادہ رکھتا ہے۔ جھپٹنا اس کی سرشت ہے اور پلٹ کر جھپٹنا اس کا فن ہے۔ شاہین کبھی تھکتا نہیں وہ راہیں تراشتا ہے۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شاہین ہی مرد مومن، مرد خود آگاہ، مرد قلندر اور مثالی نوجوان ہے۔ علامہ محمد اقبال آنے والے کل کو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا دور سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آنے والا کل کامیابیوں و کامرانیوں کی نوید ہوتا ہے۔ وہ رجائیت، امید اور کامیابی کو مسلمان کی میراث سمجھتے ہیں۔ ناکامی لفظ بھی ان کی لغات میں نہیں ہے۔ شاہین خودی کے پروں پر اڑتا ہے، شہپر جبرئیل کی قوت،اُس کی قوتِ ایمانی ہے۔ یہ جذبۂ قوت ایمانی رزق حلال سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال روح کی پاکیزگی کو اوّلین ضرورت سمجھتے ہیں۔ شاہین اپنی روش تبدیل نہیں کرتا وہ اپنے ہی شکار پر بھروسہ کرتے ہوئے محو پرواز رہتا ہے۔
اے طائرِ لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
مسلمان دنیا میں اللہ کریم کا نائب ، اُس کا خلیفہ، اور اُس کا ترجمان ہے ۔ نیابتِ الٰہی اس کا فخر ہے ۔ اقبال نوجوانوں کو تن آسانی ،مغرب کی غلامی اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے گریز کی دعوت دیتے ہیں۔ خودی کے تناظر میں اقبال نوجوانوں کو حرارت عطاء کرتے ہیں۔ اقوام کی تعمیر و ترقی کے لیے نوجوان مسلمانوں کی نشاة ثانیہ اور عظمتِ رفتہ کے استعارے ہیں۔ اقبال کا نوجوان مثلِ شاہین زندگی گزارتا ہے ۔
میانِ شاخساراں صحبتِ مرغِ چمن کب تک
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ کوہستانی!
ـ٭ـ
ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تُو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تُو
ترے صیدِ زبوں میں افرشتہ و حُور
کہ شاہینِ شہِ لولاکۖ ہے تُو!
ـ٭ـ
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا!
ـ٭ـ
گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
ـ٭ـ
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں!
ـ٭ـ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ!
ـ٭ـ
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اقبال کا نوجوان صاحبِ دانش و بینش ہے۔ وہ اخلاقی ، عملی اور فکری طور پر آسمانِ حیات کاآفتاب و مہتاب ثابت ہو ۔ اُسے چمنستانِ حیات کی بہاربن کر دوسروں کے لیے خوشبو کا استعارہ کہا جانے لگے۔ اقبال نے کئی اشعار میں طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، محمد بن قاسم ، اور ایسے ہی متعدد سرفروش نوجوانوں کا ذکر کیا ہے ۔ جنھوں نے تاریخ کی پیشانی پر اپنے کارنامے رقم کیے۔ اقبال کا شاہین صفت نوجوان اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر نظر آتا ہے ۔ پاکیزہ جذبوں کا پاسدار نوجوان جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین کی طرح جھپٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،جب وہ اُڑتا ہے تو فضائے بسیط میں نغمے بکھرنے لگتے ہیں، جب و ہ اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو زمین سے اُس کی پیشانی کو چومنے کے لیے پھول اُگ آتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے ۔ اُسے سہاروں کی دنیا پسند نہیں ہے ۔ اقبال کا نوجوان وہ اندازِ زندگی نہیں گزارتا جس سے اُس کی خودی مجروح ہوتی ہے ۔
نگہِ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے
اقبال کو شاہین ایک بلند پرواز، بے نیاز، غیرت مند، تیز نگاہ اور خلوت نشین پرندے کی حیثیت سے بہت پسند ہے۔ اس پرندے میں علامہ اقبال کی قوت، تیزی، وسعتِ نظر، دور بینی، بلند پروازی، درویشی، خود داری اور بے نیازی کی صفات جو نظر آتی ہیں یہی صفات وہ اپنی قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بقول اقبال :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال بلند پروازی کے سلسلہ میں ہمیشہ سراپا تلقین رہے ، وہ ہمیشہ نوجوانوں کو ستاروں پر کمندیں ڈالنے، کبھی آسمانوں سے پرے تک پرواز کی دعوت دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ عارضی دنیاہے ، اس عالمِ رنگ و بو پر ہی قناعت نہ کرو بلکہ زمان و مکاں کی وسعتوں کو تسخیر کرتے ہوئے اُڑان بھرتے رہیں۔
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر
تُو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت
جو اس سے نہ ہو سکا، وہ تُو کر
اقبال آزادی کی نعمت سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ آزادی جو حدود اللہ کے دائرۂ کار میں رہے، حقیقی آزاد ی ہوتی ہے۔ انھیں مغرب کی غلامی سے سخت نفرت تھی اور اپنے شاہین صفت نوجوانوں میں بھی یہ صفت دیکھنے کے تمنائی تھے ۔اقبال کے افکار ایک ایسا قلزمِ بے کراں ہے جس میں ہر قسم کے ہیرے جواہرات موجود ہیں۔ مسلمانوں کی تقدیر بدلنے کی توقع صرف نوجوانوں سے ہی کی جا سکتی ہے ۔ اپنے عہد کے بہت سے نوجوانوں کی غفلت ، کوتاہی اور فرائضِ منصبی سے روگردانی اُن کے لیے پریشانی تھی۔ وہ غفلت شعار ، ذمہ داریوں سے عاری اور سنجیدگی سے بے نیازنوجوانوں کے بارے میں کہتے ہیں:
جوانوں کو مرِی آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال یہ دیکھ کررنجیدہ ہوا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب اور نئی نسل نے ہمارے نوجوانوں کو بے عمل، مذہب دشمن، بے کار، بزدل اور غلام بنا رکھا ہے۔ اس پر یوں شکوہ کرتے ہیں:
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اقبال کی نظم ''ساقی نامہ'' اور ''جاوید کے نام'' بہت سے اشعار نوجوانوں کی مخفی صلاحیتوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر آج کا نوجوان اقبال کا شاہین بن جائے تو اُسے پوری دنیا میں انفرادیت حاصل ہو جائے ۔ علم و ہنر ، اَدب و اخلاق، حکمت و دانائی اُس کے شخصی اوصاف بن جائیں ۔ شاہین کی بلند پروازی ، اُس کی زندگی کا نصب العین ہو۔ وہ تیز نگاہ اور بلند پروازی سے جستجو اور تجسس کا خوگر ثابت ہو ۔وہ اُمید دامن تھام کر منزلِ مراد حاصل کرے۔ اُس کی زندگی سادگی کامرقع اور اپنے قوت و بازو پر بھروسہ کرنے والی زندگی کا آئینہ دار ہو۔ افکارِ اقبال میں جہاں بھی بلند پروازی یا آگے بڑھنے کی دعوت موجود ہے اُس کے پس منظر میں اقبال کا شاہین موجود ہے ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے نوجوان کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔جس طرح تحریکِ پاکستان میں نوجوانوں نے قائداعظم کے شانہ بشانہ جدوجہد کی آج اُسی جذبے کی خاص ضرورت ہے ۔
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے