اگرآپ کا دل شہروں میں بنے مصنوعی تفریح گاہوں، پارکس، فارم ہاؤسز سے اکتا گیا ہو تو گلگت بلتستان آئیے جہاں آپ قدرت کے عظیم شاہکار،اللہ کے بنائے ہوئے تفریحی مقامات کا مشاہدہ کریں گے۔ جہاں کی ہر وادی کو اللہ نے اپنی خوبصورتی کا مظہر بنایا ہے۔یہاں آکرآپ اللہ کے جمال، شان اور عظمت کوسبزہ زاروں، بہتے چشموں، گرتے آبشاروں، چہچہاتے پرندوں،بل کھاتے دریاؤں، صاف شفاف نیلی جھیلوں،جھرنوں،صحرا کی ٹھنڈک اور اونچے اونچے برف پوش دیو ہیکل پہاڑوں کی شکل میں دیکھیں گے۔یہ سر زمین سراپا امن ہے،محبت ہے، ادب ہے، تہذیب ہے،اور سب سے بڑھ کر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کا پرخلوص جذبہ رکھتی ہے۔
حال ہی میں ایک برطانوی ٹریول ایجنسی نے گلگت بلتستان کو دنیا کے 20 سیاحتی مقامات میں سب سے بہترین قرار دیا ہے۔ یہاں آپ قدیم روایات، تہذیب، آثار قدیمہ، جھیلیں، فلک پوش پہاڑی سلسلے،جن میں ہمالیہ، قراقرم،ہندوکش شامل ہیں کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ بلندی پر موجود دوسرے بڑے میدان دیوسائی کے خوبصورت، حیرت انگیزاور طلسماتی نظاروں سے بھی محظوظ ہوسکیں گے۔
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے۔انتظامی طور پر گلگت بلتستان کو تین ڈویژنز(گلگت، دیامر استور اور بلتستان)اور دس اضلاع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دارالحکومت گلگت اور سب سے بڑا شہر سکردو ہے۔شینا، بلتی اور بروشسکی یہاں کی مقامی زبانیں ہیں جبکہ لوگوں کی اکثریت اردو زبان بھی بول سکتی ہے۔بہت سے نوجوان انگریزی سمیت دوسری بین الاقوامی زبانیں بھی سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد پاک فوج سے منسلک ہے ، یہاں نوجوان پاک فوج کا حصہ بن کر نشانِ حیدر جیسا بڑا قومی اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں اور نشان حیدر کا اعزاز اس علاقے کے لوگوں کی وطن سے غیر مشروط محبت، عقیدت اور لگاؤ کا منہ بولتاثبوت ہے۔مذہبی رواداری، بھائی چارہ، اخلاقی اقدار یہاں کے لوگوں کا خاصہ ہے۔
یہاں کے لوگ ملنسار، سادہ، اور مہمان نواز ہیں۔لوگوں کاجذبہ ایثار قابل دید ہے۔ ملکی یا غیر ملکی سیاح اور کوہ پیما اپنے آپ کو یہاں بالکل محفوظ تصور کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیاحت، کوہ پیمائی یا کسی بھی حوالے سے آنے والے مہمان یہاں سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے جس کا اظہار قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں ہوتا رہتا ہے۔
گلگت بلتستان کی تخلیق میں رب العزت نے اپنی فیاضی دکھائی ہے۔یہاں کا جداگانہ لینڈسکیپ اس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔گلگت بلتستان میں تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔
دنیا کے8000 میٹرسے بلند 14عظیم پہاڑوں میں سے 5 گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔جن میں کے۔ٹو، نانگا پربت، براڈ پیک،گشہ بروم I اور گشہ بروم II شامل ہیں۔دنیا کے تین گلیشیئرز میں سے دو یہیں پائے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان قدرتی حسن سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں معدنی ذخائر، زرخیز زمین، سبزیاں اور پھل خصوصاً سیب،ناشپاتی، خوبانی، چیری، انگور، سمیت دوسرے پھلوں کے باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔سہولیات بہم پہنچائی جائیں تو گلگت بلتستان خوبانی برآمد کرنے والی تیسری بڑی مارکیٹ کے طور پہ سامنے آ سکتا ہے جبکہ ہر طرح کی سبزیاں بھی اگائی جاتی ہیں۔قدرت نے گلگت بلتستان کو معدنی ذخائر خصوصاً قیمتی پتھروں سے بھی نوازا ہے۔اب تک کی معدنیات اوربیش قیمت پتھروں کی دس قسمیں دریافت ہوچکی ہیں۔
جس طرح وطن عزیز کا حکومتی مرکز اسلام آباد، ثقافتی، علمی مرکز لاہور اور معاشی مرکز کا درجہ کراچی کو حاصل ہیںاسی طرح سکردو کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سیاحتی مرکز کے طور پہ جانا جاتا ہے۔سکردو بلتستان ریجن کاانتظامی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اورتعلیمی مرکز ہے۔مشہور صحافی و مصنف رضاعلی عابدی نے سکردو کو پیالے میں موتی سے تشبیہ دی ہے۔سکردو کے چاروں طرف آسمان سے باتیں کرتے پہاڑوں کی فصیل ہے۔جہاں ایک طرف قلعہ کھرفوچو اور گنگوپی ہرکونگ سکردو کے شاندار ماضی کی گواہی دے رہے ہیں تو دوسری طرف سدپارہ جھیل جو کہ اب ڈیم میں تبدیل ہوچکی ہے، سکردو کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے جس سے آبپاشی اور توانائی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
سکردو، بلتستان میں واقع تمام بلند و بالا چوٹیوں،گلیشیئرز، سبزہ زاروں، قدرتی حسن سے مالا مال تفریح گاہوں،سیرگاہوں اور کولڈ ڈیزرٹ کا گیٹ وے ہے۔ بلتستان کے لیے سفر بھی کسی ایڈونچر سے کم نہیں ہے۔اسلام آباد سے سکردو کا فاصلہ لگ بھگ 700 کلو میٹر ہے۔اگر آپ بائی روڈ سفر کرنا چاہتے ہیں تو راولپنڈی کے پیر ودھائی بس اسٹینڈ سے بسز، کوچز، ویگنیں اور کاریں مناسب کرائے پر دستیاب ہیں۔بائی روڈ سفر کی صورت میں آپ دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہراہ قراقرم پر سفر کریں گے۔شاہراہ قراقرم جو پاک چائنہ دوستی کی علامت ہے، سنگلاخ چٹانوں کو کھود کراور پہاڑوں کے دامن کو چیر کر بنائی گئی ہے۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاک فوج کے سیکڑوں جوانوں کا خون بھی شامل ہے۔ایک طرف بل کھاتی اوپر نیچے جاتی سڑک تو دوسری طرف دریائے سندھ کا بہاؤاور اس کا مسلسل شور۔ اہل ذوق بائی روڈ سفر سے بھی بہت محظوظ ہوں گے۔
لیکن اگر آپ فضائی سفر کرنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد سے گلگت اور سکردو کے لیے روزانہ فلائٹس جاتی ہے۔فلائٹ کا دورانیہ بالترتیب 30 منٹ اور 50 منٹ ہے۔ بائی ائیر سفر کی صورت میں آپ وادیِ کاغان، وادیِ ناران خاص طور پر کوہ ہندوکش، کوہ ہمالیہ اورقراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلے کا فضائی نظارہ کریں گے۔ خاص کر نانگا پربت کا کہ جس کے ایک نظارے کی خاطر لوگ ہفتوں ہوائی سفرکا انتظار کرتے ہیں۔جس کا اعلان فلائٹ کا ہر کپتان کرتا ہے اور مسافروں کو اسی اعلان کا انتظار رہتا ہے۔اور سب بے صبری سے اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ونڈو پر جھک جاتے ہیں۔سکردو میں قیام و طعام کے لیے مناسب قیمت پر ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز ہمہ وقت دستیاب ہیں ۔
سکردو قلعہ کھرفوچو کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔دفاعی اہمیت کے پیش نظرسکردو کے طاقتورحکمران مقپون نے اسے تعمیر کیااور سکردو کوپایہ تخت بنایا۔ اس سے پہلے شگری پایہ تخت ہوا کرتا تھا۔اسی قلعہ کے دامن میں علی شیرخان انچن کی ملکہ نے پانچ منزلہ محل تعمیرکرایااور رانی کے نام کی مناسبت سے میندوق کھر مشہور ہوا۔قلعہ کھرفوچو آج بھی سیاحوں کے لیے پرکشش ہے اور یہاں سے سکردو شہر کے دلفریب منظر کو الفاظ میں ڈھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
سکردو سے 28 کلو میٹر کے فاصلے پر لوئرکچورا لیک(Heart shaped) اور اس پر بنے ہوٹل نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنے قدرتی حسن، دلکش مناظر، اوردلفریب لینڈ سکیپ کی وجہ سے زمین پہ جنت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر سیاح اس کی بناوٹ اور حسن و رعنائی میں کھو جاتے ہیں۔جبکہ یہاں سے کوئی ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر اپر کچورا لیک سیاحوں کی دلچسپی کا محور ہے۔کچورا کی ان دونوں جھیلوں میں ٹرائوٹ مچھلی بکثرت پائی جاتی ہے۔ سیاح یہاں کی یخ بستہ مگر صاف و شفاف پانی میں کشتی رانی سے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ ان دونوں مقامات کے لیے سکردو سے کاریں، جیپ،ویگنیں مناسب قیمت پرہمہ وقت دستیاب ہیں۔
سکردو آمد کے بعد سدپارہ جھیل اور دیوسائی میدان کا نظارہ کیے بغیر شاید ہی کوئی سیاح واپس لوٹے۔ جی ہاں اگر آپ دنیا کے دوسرے بلند اور بڑے سبزہ زار میں جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو دیوسائی حاضر ہے۔ ساڑھے تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع اس سبزہ زار کی وسعت 580 مربع میل ہے۔ جہاں آپ شیوسر لیک کا نظارہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کا بادشاہ براؤن بئیر،سنو ٹراؤٹ، گولڈن ایگل اور سنو ٹائیگرکا مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں اور اسی دیوسائی کے اوپر واقع برگے لا سے دنیا کا سب سے حسین، دلفریب اور ہیجان خیزپہاڑی منظر کے۔ٹو، براڈپیک،گشہ بروم، مشہ بروم اور چوغو لیزا کو ایک ہی صف میں دیکھنے کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔
سکردو سے لگ بھگ 30 کلو میٹر کے فاصلے پر وادی شگر کی سرزمین واقع ہے۔ یہاں شگر فورٹ، کولڈ ڈیزرٹ، حشوپی باغ، جربہ ژھو(Blind Lake)سمیت اہم اور خوبصورت سیرگاہیں موجود ہیں۔ یہاں آپ قدیم بلتی ثقافت اور زمانے کی جدت کوایک ساتھ محسوس بھی کرسکتے ہیں اور لطف اندوز بھی ہوسکتے ہیں۔یہاں حال ہی میں بننے والے کھوج ہوٹل نے سیاحوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کررکھا ہے۔وادی کھرمنگ سکردو سے 60 کلو میٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔کھرمنگ میں منٹھوکھہ آبشار، خاموش آبشار اور دیگر تفریحی مقامات دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔خاص کر منٹھوکھہ آبشاراور وہاں تک پہنچنے کے لیے ندی کنارے سفر کے لطف کو الفاظ میں ڈھالناناممکن ہے۔یہاں بھی قیام و طعام اور استراحت کے لیے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔جبکہ دوسری طرف سکردو سے کھرمنگ جاتے ہوئے اگر آپ اُلٹے ہاتھ ہمایوں پل کے اس پار جائیں گے تو بلتستان کا دوسرا بڑا ضلع گانچھے آپ کو خوش آمدید کہے گا۔گانچھے،خپلو کے نام سے بھی مشہور ہے۔خپلو میں گرمیوں میں "گنگ گلیشئیر'' پگھلنے سے بہنے والے نالے کی مناسبت سے گانچھے کانام سامنے آیا۔ خپلوضلع گانچھے کا صدر مقام ہے اورسکردو سے 103 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اسی طرح خپلو فورٹ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لئے ایک اہم پکنک پوائنٹ ہے۔جو اپنی شاہانہ عظمت،شاندار ماضی اور اہم تاریخی صفحات سے پردہ اٹھانے کو بے تاب ہے۔ یہ محل 1840 میں یہاں کے حکمران یبگوراجہ دولت علی خان نے تعمیر کیا۔اس محل کی تعمیر میں بلتی، کشمیری اور وسط ایشیائی کاریگروں نے حصہ لیا اسی لیے یہ محل ان تینوں علاقوں کے فن تعمیر کا شاہکار ہے۔محل کے اندر بلتی اشیا کی ایک نمائش گاہ یا میوزیم اورشائقین کی دلچسپی کے کافی سامان موجود ہیں۔
خپلو میں ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ایک اور قلعہ تھوقسی کھریا تھرہرژے کھر بھی ہے۔یہاں سے آپ نہ صرف خپلو شہر بلکہ مشہ بروم کی بلند و بالا برف پوش پہاڑی سلسلے کا دلکش نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ فلک بوس پہاڑوں کے بیچوں بیچ بل کھاتا تاحد نظر ریتلے میدان میں پھیلا ہوا دریائے شیوک کا منظرخپلو کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔G.T.VIGNE نے اپنی کتاب Travels in Kashmir, Ladak' Iskardo میں جس انڈس کا ذکر کیا ہے حقیقت میں یہ دریائے شیوک ہے جو کریس کے مقام پہ دریائے سندھ میں جا گرتاہے۔خپلو کی قدیم جامع مسجد چقچن بھی سیاحوں کے لیے خاص کشش کا باعث ہے۔ کہا جاتاہے مبلغ اعظم امیر کبیر سید علی ہمدانی نے 1381 میں اس مسجد کی بنیاد رکھی۔لیکن زیادہ تر مورخین کے مطابق سید محمد نوربخش 1446 میں بلتستان تشریف لائے۔اس وقت خپلو میں راجہ شاہ اعظم کی حکومت تھی۔ انہی کے دور حکومت میں آپ نے ہی جامع مسجد چقچن کی بنیاد رکھی۔
دنیا کا سب سے اونچا، سرد ترین اور مشکل ترین محاذ جنگ سیاچن اور گیاری بھی اسی ضلع میں واقع ہیں۔جہاں وطن عزیز کے بہادر بیٹے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے عظیم قربانیاں دے کر تاریخ رقم کررہے ہیں۔
بلتستان کی وادیِ روندو بھی اپنے بے پناہ قدرتی حسن کی وجہ سے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ روندو کے سیاحتی مقامات میں طورمک، تھورچے بلامک، استک، تلو اور تلو بروق کو خاص مقام حاصل ہے۔بلتستان کے ان تمام علاقوں کے لئے سکردو سے روازانہ کی بنیاد پہ گاڑیاں جاتی ہیں اور یہ تمام علاقے ہر طرح سے محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی سیاح ان علاقوں میں بے خوف و خطرقدرتی مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔خاص کرسکردو سے57 کلومیٹر کے فاصلے پردریا کنارے واقع اپنے نام کی طرح خوبصورت گاؤں باغیچہ میں گھنے پیڑوں کے سائے تلے ناشتے کا لطف قسمت والے ہی اٹھا سکتے ہیں۔۔۔۔
مضمون نگارماہرتعلیم اورکالم نویس ہیں۔
[email protected]
تبصرے