حوالدار رانا حبیب اللہ شہید کے حوالے سے محمد علی اسد بھٹی کی تحریر
پاکستانی فوج جہاں وطنِ عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے وہیں پر اس کے کارناموں اور جرأ ت وبہادری کی بھی مثال نہیں ملتی ۔اِسی لیے پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔نظم وضبط، اتحاد وتنظیم، دیانت وصداقت، یقین محکم، جذبہ جاںنثار ی سے سرشار ،باہمی تعاون ،پیشہ ورانہ تربیت ،جذبہ جہاد اور ڈسپلن پاکستانی فوج کا طرہ امتیاز ہے تو سونے پر سہاگہ ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ جیسی دولت سے مالامال خصوصیات کی وجہ سے اسے دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے۔
عالمی سطح پر پیدا ہونے والے بحرانو ں اور جارحیت کے خلاف جب بھی پاکستانی افواج کی خدمات حاصل کی گئیں تو اس پر بھی لبیک کہتے ہوئے پاکستانی افواج نے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا ۔ اقوام متحدہ کی امن فوج کے شانہ بشانہ پاک فوج اب تک بہترین کردار ادا کرچکی ہے۔ پاکستانی دستے دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ صومالیہ میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے امن فوج کے ساتھ پاک فوج کے جن شاہین صفت جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ان میں ایک نام حوالدار رانا حبیب اللہ شہید کا بھی ہے۔
رانا حبیب اللہ جون1965ء کو ہڈالی میں رانا نیاز محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر1اور میٹرک تک گورنمنٹ ہائی سکول ہڈالی سے حاصل کی۔ حبیب اللہ بچپن ہی سے ذہین ،ہونہار، فرماںبرداراور نماز روز ے کا پابند بااخلاق نوجوان تھا۔ بزرگوں اوربڑوں کا احترام کرتا اور چھوٹوں سے شفقت کے ساتھ پیش آتا۔ حبیب اللہ سکول میں ایک اچھا اور ذہین طالب علم سمجھا جاتا اس لیے اپنے اساتذہ کا منظور نظر بھی تھا۔چونکہ گھر میں سب سے بڑا تھا اس لیے اپنی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہ رہا اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھتا، ان کی کوئی پریشانی اس سے دیکھی نہ جاتی لیکن کبھی کبھار غصے میں ان کو خوب ڈانٹ بھی پلا دیتا، اسی وجہ سے سارے گھر میں اس کا خوب رعب اور دبدبہ تھا لیکن مجموعی طور پر حبیب اللہ ہمدرد و غمگسار نوجوان تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری حبیب اللہ کے کاندھوں پر آن پڑی تو تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی اور جب عملی زندگی میں قدم رکھنے کا وقت آیا تو دوسرے شعبوں کے بجائے اِس جوان رعنانے فوجی زندگی کو ترجیح دی کیونکہ وہ اکثر کہا کرتا کہ انسان تو پیدا ہی مرنے کے لیے ہواہے تو کیوں نہ ایسی موت مرے جو کسی مقصد کے لیے ہو اور ایسی موت شہید کی ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ'' شہید زندہ ہوتا ہے۔'' مرنے سے بہتر ہے کہ انسان کو ابدی زندگی ملے اور اسی نصب العین کے تحت حبیب اللہ نے فوجی زندگی کو اپنایا ۔
رانا حبیب اللہ 23اکتوبر1978ء کو نوشہرہ چھاونی میں بلوچ رجمنٹ میں بھرتی ہوا، بعد میںبلوچ رجمنٹ کی اس یونٹ کو سندھ رجمنٹ میں تبدیل کر دیا گیا، یوں بلوچ رجمنٹ سے سندھ رجمنٹ میں آنے والے نوجوانوں کے پہلے دستے میں رانا حبیب اللہ بھی شامل تھا۔ فوجی زندگی میں آنے کے بعد حبیب اللہ کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہوا اور وہ ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ حبیب اللہ نے دوران سروس تما م بڑی چھائونیوں میں وقت گزارا ۔
سپاہی سے لے کر حوالدار تک کے تمام مراحل اور کورسز نہایت ہی کامیابی سے پاس کیے ابھی وہ مزید ترقی کرتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی عظیم کامیابی سے نوازا کہ جس کا نعم البدل دنیا میں نہیں ہے۔ اسکی یہ کامیابی اس کے اپنے لیے ،ملک و قوم، خاندان اور علاقہ کے لیے سرمایہ افتخار بن گئی۔
1993ء میں جب صومالیہ کے بحران میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے ساتھ پاکستانی دستے بھی شامل کیے گئے تو ان میں رانا حبیب اللہ کی خدمات اور فرض سے لگن کے پیش نظر، اسے بھی ساتھبھیجا گیا ۔صومالیہ ہی میں ہڈالی کے میجر ملک احمد خان ٹوانہ (جو بعد از اں 1999ء میں معرکہ کارگل میں شہید ہوئے) سے بھی ملاقات ہوئی، میجر احمد خان ٹوانہ گائو ں میں رانا حبیب اللہ کے پڑوسی اور محلہ دار تھے۔ اس لیے ایک دوسرے کو بچپن سے ہی جانتے تھے ۔
چونکہ میجر احمد خان فوجی لحاظ سے تو حبیب اللہ سے سینیئر اور افسر تھے لیکن عمر کے لحاظ سے حبیب اللہ سے چھوٹے تھے اس لیے احمد خان حبیب اللہ کی بہت عزت کرتے۔ ایک دن ملاقات میں میجر احمد خان حبیب اللہ سے کہنے لگے، بھائی حبیب اللہ ویسے عمر میں تو آپ مجھ سے بڑے اور قابل احترام ہیں لیکن فوجی لحاظ سے میں آپ سے سینیئرہوں اس لیے یہاں پردیس میں میں آپ کو صرف ایک ہی نصیحت کرتا ہوں بس''گرائیں ویکھیں اپنے پنڈ دی پگ دا خیال رکھیں''حبیب اللہ نے ہنس کر جواب دیا ''سر انشاء اللہ میں تہاڈی اس گل دا مان رکھاں گا۔''
چند ہفتوں کے بعد حبیب اللہ دو ماہ کی چھٹی لے کر گھر آیا یہاں سبھی رشتے داروں ، دوستوں اور احباب سے ملاقات کی تو بے تکلف دوستوں سے میجر احمد خان کی کہی ہوئی بات بتائی۔ اس چھٹی کے دوران حبیب اللہ بے قرار ہی رہا کہ کب واپس جاؤں ۔شاید اس کی چھٹی حس اُسے کوئی اشارہ د ے رہی تھی اور فرض اُسے پکار رہا تھا جس کی وجہ سے وہ جلدی میں تھا۔ آخرکا ر دو ماہ کی چھٹی گزارکر واپس چلا گیا۔ صومالیہ پہنچتے ہی 21ستمبر1993ء کو موغا دیشومیں سرکاری گاڑی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ جا رہا تھا کہ گھات میں بیٹھے دشمن نے ان کی گاڑی پر راکٹ لانچر سے حملہ کر دیا۔ راکٹ لانچر لگتے ہی گاڑی میں آگ لگ گئی جس میں حبیب اللہ اپنے ساتھیوں سمیت شدید زخمی ہو گیا، اس نازک موقع پر بھی حبیب اللہ نے نہایت ہی دلیری اور فرض شناسی کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے ساتھیوں کو آگ میں لپٹی ہوئی گاڑی سے نکال لیا لیکن اس فرض شناسی میں رانا حبیب اللہ نے خود اپنی جان کی بازی ہار کر یہ ثابت کر دیا کہ پاک فوج کا اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی ثانی نہیں۔ یوں رانا حبیب اللہ نے دیارِغیر میں اپنے' غیورپنڈ کی پگ' کا شملہ اونچا رکھا۔
بعد از شہادت پاکستانی پرچم میں لپٹا شہید کا جسدخاکی پاکستان آیا اور پھر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہید اپنے آبائی گاؤں ہڈالی کے قبرستان میں ابدی نیند سو گیا ۔
مضمون نگار شعروادب سے خصوصی لگائو رکھتے ہیں اور خوشونت سنگھ لائبریری ہڈالی (ضلع خوشاب) کے منتظم ہیں۔
تبصرے