حوالدارمحمد انور رضاشہید کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کا مضمون
وطنِ عزیز کی تاریخ ہے کہدھرتی کے سپوت مادر وطن کی عزت وحرمت پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے آئے ہیں۔ ایسا ہی ایک فرزند حوالدار محمد رضا بھی ہے۔شہر اقبال سیالکوٹ کے گائوں پل بجواں (علاقہ بجوات )سے تعلق رکھنے والا حوالدار محمد انور رضا شہید ولد لانس نائیک غازی طالب حسین مرحوم 11جون 1982 کوایک غریب گھرانے میں پیداہوا۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول پُل بجواں سے حاصل کی ،میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول پھوکلیان سے اچھے نمبروں میں پاس کیا ۔مزید تعلیم کے حصول کے لیے مدرسہ محمد یہ غوثیہ سیالکوٹ کینٹ میں داخلہ لیا اور پھر وہیں سے ایف اے،بی اے، ایم اے عربی ،عربی فاضل اور پھر سات سالہ عالم فاضل کا کورس کیا ۔شہید محمد انور رضا کے چھوٹے بھائی عظمت حسین جوکہ پاک فوج سے بطور لانس نائیک ریٹائرڈ ہیں،آپریشن ''المیزان'' جنوبی وزیرستان میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑے آپر یشن ''ضرب عضب'' 2014-15میں بھی اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں ،بتاتے ہیں کہ ہمارے خاندان کاپاک فوج کے ساتھ بہت گہرا اور مضبوط رشتہ ہے ،میرے ناناجان ،میرے تین ماموں،میرے والد،میرے سسر اور بہت سے رشتہ دار، عزیز واقارب پاک افواج کا حصہ رہ چکے ہیں اور کچھ ہیں۔ہمارے والد مرحوم طالب حسین جوکہ پاک فوج میں بطور لانس نائیک ریٹائرڈ ہوئے۔ 1971ء کی جنگ میں شامل تھے جس میں انہوں نے دوسال تک بنگال میں قید کاٹی اور غازی بن کر واپس تشریف لائے۔ اپنی مٹی سے محبت کا درس ہمیں اپنے بڑوں سے وراثت میںملا ہے۔
شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ شہید اور میں دونوں اکٹھے 28اکتوبر 2004ء کو سیالکوٹ فوج بھرتی دفتر گئے اور دونوں ہی سلیکٹ ہوگئے۔24دسمبر 2004کو شہید حوالدار محمد انور رضا کا کال لیٹر آگیا جہاں سے ان کی فوجی زندگی کا آغاز ہوا،اس دن شہید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، گھر میں خوشی کا سماں تھا ،بالخصوص والد صاحب بہت خوش تھے ۔بلوچ رجمنٹ سنٹر ایبٹ آباد سے انہوں نے ٹریننگ حاصل کی ،دوران ٹریننگ وہ ہرطرح کے ایونٹس میں شاندار کارکردگی کی بنا پر پہلی پوزیشن حاصل کرتے رہے ،اس دوران ان سے بذریعہ خط وکتابت ہی رابطہ ہوتا تھا۔ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد انہیں 43بلوچ رجمنٹ بھیج دیا گیا۔ انکی پہلی پوسٹنگ سیالکوٹ میں ہوئی۔ اس کے بعد یونٹ کے ساتھ 8اکتوبر 2005کو آنے والے زلزلے میں انہیں کشمیر بھیجاگیا جہاں انہوں نے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی، اس کے بعد انکی یونٹ کو سکردو بھیج دیا گیا جہاں بیک وقت برف اور دشمن کے ساتھ جنگ رہتی ہے ۔اس دوران ان سے بہت کم رابطہ ہوپاتا تھا ،شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ شہید ایک عالم دین بھی تھے یقین کیجیے میں نے اپنی زندگی میں انہیں کبھی نماز قضاء کرتے نہیں دیکھا۔ وہ تہجد گزار تھے، ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے، دشمن کے لیے فولاد اور حلقہ یاراں میں ریشم کی طرح نرم تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازاتھا ،ہم آٹھ بھائی بہن تھے جن میں چار بہنیں اور چار بھائی(بھائی کی شہادت کے بعد)اب تین بھائی ہیں۔ شہید سب سے الگ اور منفرد تھے، سب سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ویسے تو ہر سپاہی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وطن ،اپنی دھرتی پر قربان ہوجائے مگر کچھ تو صرف اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے ہی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔شہید کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا پہلا اور آخری مقصد اللہ کی راہ میں جان دینا ''شہیدہونا'' ہوتا ہے ،شہید ہرنماز کے بعد اپنے لیے اللہ کے حضور گڑگڑا کر شہادت کی دعا کرتے تھے ۔وہ ہر لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے۔آپ اس بات سے ان کے اخلاق کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ جب بھی چھٹی پر آتے تو پورا گائوں ان سے ملنے چلا آتا اور گائوں کے بزرگ بھی ان سے بڑی عقیدت رکھتے، پاس بٹھا کر آپ سے فوج کی بہادری کی کہانیاں سنتے اور کوئی دینی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ بھی پوچھتے ۔2013ء کو ہمارے والد صاحب سفر آخرت پر روانہ ہوئے تو ان کی وفات کے بعد شہید بہت دیر تک اس صدمے سے باہر نہ آسکے کیونکہ ان کی والد صاحب کے ساتھ بے حد دوستی تھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد انہوں نے بڑے بھائی کے پیار کے ساتھ ساتھ ہمیں باپ کا پیار بھی دیا ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ شہید حوالدار محمد انور رضا کے چار بچے ہیں جن میں دو بیٹیاں اور دوبیٹے ہیں،ان کی ہمیشہ یہ خواہش تھی کہ ان کے سبھی بچے پاک فوج میں جائیں ۔
شہید کی بڑی بیٹی مقدس انور بتاتی ہے کہ میرے بابا مجھے کہتے تھے کہ آپ پڑھ کر فوج میں جانا اور یاد رکھنا کہ اگر میں وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوجائوں تو آپ نے میری شہادت پر غمزدہ نہیں ہونا کیونکہ شہید زندہ ہوتا ہے اور مسلمان زندہ پر رویا نہیں کرتے مقدس انور یہ بتاتے ہوئے رونے لگی اور کہنے لگی کہ میں اپنے بابا کی خواہش کو ضرور پورا کرونگی اور میں بھی انشاء اللہ پاک فوج میں جائوں گی اور پھر بابا کی طرح اس دھرتی پر قربان ہوجائوں گی اورمیرے سبھی بہن بھائی بھی فوج میں جائیں گے۔بیٹی کے جذبے،ہمت اور سوچ کو سلام ہے۔ جس قوم کی بیٹیاں اپنے ملک وقوم کی حفاظت کے لیے ایسے جذبات رکھتی ہوں، اس پر کبھی زوال نہیں آسکتا ۔ چھٹی جماعت کی طالبہ مقدس انور کی باتیں اپنی عمر سے بڑی ہیں وہ کہتی ہے کہ میں بڑی ہوکر اپنے بابا کے نام پر ایک ہسپتال بنائوں گی جس میں غریبوں کا علاج بالکل مفت ہوگا ۔شہید محمد انور رضا کے بھائی بتاتے ہیں کہ بچے اپنے بابا کو بہت یاد کرتے ہیں ۔شہید آخری بار گذشتہ چھوٹی عید پر چھٹی پر گھر آئے تو کہنے لگے کہ ان چھٹیوں میں چھوٹی بہن کی شادی کا فرض ادا کر کے جائوں گا، زندگی کا کیا بھروسہ ؟ہوسکتا ہے کہ اس بار میری شہادت والی دعا قبول ہوجائے۔ شہید بھائی نے اپنے ہاتھوں سے بہن کی شادی کرکے اسے رخصت کیا ،ہمیں کیا علم تھا کہ یہ وہ آخری خوشی تھی جو ہم نے شہید بھائی کے ساتھ منائی ہے اس کے بعد پھر ان سے کبھی ملاقات نہ ہوپائے گی۔چھٹی کے بعد بھائی واپس ڈیوٹی پر چلے گئے ۔
شہید کے بھائی عظمت حسین بتاتے ہیں کہ میں 13فروری 2023کو بطور لانس نائیک 25سنگل بٹالین کوہاٹ کینٹ سے ریٹائرڈ ہوا ،ابھی مجھے ریٹائر ہوئے صرف چار ماہ ہی گزرے تھے کہ بھائی شہید ہوگئے ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ بھائی2جون 2023کو مالی خیل وزیرستان بیس پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے،میری رات دس بجے کے قریب ان سے بات بھی ہوئی تھی سب خیریت تھی کہ رات دوبجے کے بعد ان پر دہشت گردوں نے چاروں اطراف سے حملہ کردیا ،رات کا وقت اور اچانک حملے کے باوجود جوانوں نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس دوران ایک جوان موقع پر ہی شہید ہوگیا جبکہ حوالدار محمد انور رضا نے دشمن کا بے جگری سے مقابلہ کیا ،دو دہشت گرد مارے گئے ،حوالد ار محمد انور رضا بھی شدید زخمی ہوئے انہیں فوری طور پر سی ایم ایچ بنوں منتقل کیا گیا ۔
سی ایم ایچ بنوں میں ان کا آپریشن ہوا اور آپریشن کے بعد ان کو ہوش نہ آیا اوروہ شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائزہوگئے۔اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔ آمین۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ بھائی محمد انور رضا کی شہادت سے تین دن پہلے یکم جون 2023 کو حوالدار سے نائب صوبیدار کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ہمیں 3جون شام ساڑھے سات بجے فون آیا کہ آپ کا بھائی اس وطن کا بیٹا اپنی دھرتی ماں پر قربان ہوگیا ہے ،آپ کا بھائی شہید ہوگیا ہے ۔میرے منہ سے بے ساختہ نکلا( اناللہ وانا علیہ راجعون ) یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمارے خاندان کو بھی ایک شہید کا خاندان ہونے کا شرف بخشا ۔الحمدللہ ۔میں نے یہ خبر جب گھر والوں کو سنائی تو رونا تو فطری عمل تھا مگر میری والدہ ،شہید کی بیوہ اور باقی سب بہن بھائیوں نے بڑے صبر ،ہمت اور بہادری سے اس صدمے کو برداشت کیا ۔چند منٹوں میں یہ بات پورے گائوں میں پھیل گئی، سارا گائوں ہمارے گھر امڈ آیا ،ہر آنکھ اشک بار تھی، میری والدہ سب کو یہی کہہ رہیں تھیں کہ کسی نے میرے بیٹے کی شہادت پر رونا نہیں کیونکہ میرے بیٹے نے اس ملک قوم کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جان دی اور وہ شہید ہوا ہے اور شہید زندہ ہوتے ہیں ۔اس نے میرے دل کو سکون دیا ہے، اس کا خواب پورا ہوگیا ہے وہ اللہ کا مہمان بن گیا ہے ۔سی ایم ایچ بنوں سے تقریباً 12گھنٹے کی طویل مسافت کے بعد4جون کو صبح10بجے شہید کا جسد خاکی ایمبولینس کے ذریعے گائوں لایا گیا ۔گائوں والوں نے اس محبت سے شہید کا استقبال کیا کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔شہید کا چہرہ چمک رہا تھا اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی، دیکھنے میں یوں لگتا تھا کہ جیسے سو رہے ہیں ۔ 11بجے شہید کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میںفوجی حکام،وزیر،سول انتظامیہ اور سیکڑوں سوگوران کی موجودگی میں جسد خاکی کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا۔
وطن کا بیٹا وطن سے وفا کا حق نبھا گیا ۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے لیے شہادت کا انتخاب کرتے ہیں اور اس سے بھی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا انتخاب شہادت خود کرتی ہے۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ہمارا علاقہ بجوات تقریباً 90گائوں پر مشتمل ہے اور اس میں حوالدار محمد انور رضا پہلا شہید ہے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات مزید بلند فرمائے، اور اس ملک کو ہر قسم کی دہشت گردی سے محفوظ رکھے ۔آمین۔
مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے