لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدرشہید کے بارے میں رابعہ رحمن کی تحریر
بریگیڈئرغلام حیدر انجینئرزکور سے تھے۔ ان کی شادی16اپریل1978ء کو ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک رحمت اور تین نعمتوں سے نوازا۔ علی حیدر،حسن حیدر، مصطفی حیدر اور فاطمة الزہرہ۔ علی حیدر اس وقتماہرِ امراضِ چشم ہیں،مصطفی حیدر ٹیلی کام انجینئرہیں اور بیٹی ڈاکٹر ہیں۔ وہ ہستی جن کے سبب آج راقمہ یہ سب تحریرکررہی ہے وہ لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدر شہید ہیں۔ حسن شہید 29ستمبر1980ء کو نوشہرہ میں پیدا ہوئے، والد کی تبادلوں کے ساتھ ساتھ سکول بھی بدلتے رہے۔حسن شہید کو اپنے والدکی وجہ سے فوج بہت پسند تھی۔ اس لیے انہوں نے پہلی بار ہی ملٹری کالج جہلم کا امتحان پاس کیا اور آٹھویں جماعت میں وہاں کے کیڈٹ بن گئے۔ انتہائی نفیس اور منظم طبیعت کے حامل حسن شہید نے کبھی کسی بات کا شکوہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وہ اپنی تکالیف کا ذکر بھی نہیں کرتے تھے۔ زندگی میں جو بھی امتحان دیے، حسن شہید نے ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اپنی محنت اور خواہش کے مطابق ملٹری کالج جہلم میں پانچ سال مکمل کیے، ایف ایس سی پری انجینئرنگ میں پوزیشن لی۔ وہاں سے پی ایم اے کاکول گئے، پھر وہاں سے ملٹری سگنلز میں آئے۔ چار سال کی ٹیلی کام کی ڈگری مکمل کی اور بہترین کارکردگی پر میڈل حاصل کیا۔لیفٹیننٹ کرنل حسن شہید2005ء میں پاس آئوٹ ہوکرسگنلز کی ایک یونٹ میں پوسٹ ہوگئے، حسن شہید کی والدہ سے بات ہوئی تو کہنے لگیں کہ حسن کی زندگی پائوں پائوں چلتے کب بھاگنے لگی اورپھر اتنا تیز کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتے، پڑھتے اور شرارتیں کرتے کیسے اور کب منفردہوگیا، پتہ ہی نہ چلا۔ میرا شیرجوان بیٹانڈر،دلیر،جرأت مند، بے خوف وردی پہنے بوٹوںکی دھمک کے ساتھ چلتا۔ نورانی چہرے کی خندہ پیشانی لیے سلیوٹ کرتا میرے سامنے آگیا اور میں نے اس کی بلائیں اتاریں، اس کے صدقے دیے، پورا خاندان اس پہ واری صدقے جارہاتھااور پھر وہ سب سے جیت گیا اور اس نے وطن کیلیے اپنی جان کا صدقہ اتار دیا۔
ماں نے کہاکہ جب بھی حسن شہید کے لیے دعاکرتی تو پورے ونگ کے لیے کرتی، شاید انہی دعائوں کا نتیجہ ہے کہ میرے لخت جگر نے ساری گولیاں سینے پر کھائیں، وہ پشت کرکے بھاگنے والوں میں سے تھاہی نہیں۔ ماں رونے لگیں تو آمنہ حسن، حسن شہید کی بیگم نے فون لے لیا، اب گفتگوکا سلسلہ آمنہ حسن سے جاری ہوا تو وہ کہنے لگیں کہ29اپریل2012ء کو ہماری شادی ہوئی، وہ ایک بہترین انسان تھے۔ انہیں پڑھنے کا جنون تھا۔ آج کل فرینچ زبان سیکھ رہے تھے اورتیراہ سے واپسی پہ انہوں نے آگے پڑھائی کا ارادہ بھی کررکھاتھا جوکہ آن لائن انہوں نے جاری رکھنا تھا، اس کے علاوہ نماز اور تلاوت ان کا عشق تھا، کیسا بھی خاندانی مسئلہ یا معاملہ ہوتا ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتے۔ حج کرنے کی شدید خواہش رکھتے تھے، انتہائی شستہ اوربرجستہ مذاق کرتے، ہم نے کبھی ان کو نازیبا کلمات ادا کرتے نہیں سنا تھا۔
اللہ نے انہیں اولادجیسی نعمت عطانہیں کی تھی۔ آمنہ نے بتایا کہ حسن نے کبھی بچوں کا ذکرنہیںکیا اورکہاکرتے کہ ہم دونوں چھٹی لے کے دنیا گھومیں گے، کتابیں پڑھیں گے، دنیا کی کہاں کہاں لائبریریاں ہیں ہم ان کا پتہ لگاکر وہاں جائیں گے۔ وہ کسی بھی بات پہ آمنہ اور دیگر اہل خانہ کو اداس یا غمزدہ نہیں ہونے دیاکرتے تھے۔ ان کا ماننا تھاکہ زندگی کے اگلے پل کی خبرنہیں اس لیے جس میں زندہ ہو اس کو اللہ سے قربت اوراس کی مخلوق سے محبت کا ذریعہ بنائو۔
شہادت سے چند دن پہلے چھٹی گزارکے گئے تھے ۔وادیٔتیراہ میںصندل پال (Sandalpal) علاقے میں آپریشن تھا انہوں نے آمنہ کو آخری میسج کیا (Leaving) توآمنہ نے جواب دیا(اللہ دے حوالے) پھر جواب آیا کہ آکر بات کرونگا ،اور پھر بس! آمنہ کو شام میں بہن کی کال آئی کہ حسن بھائی کو گولی لگی ہے۔ وہ گھر پہنچیں تو پتہ چلاکہ انہیں حسن شہیدکا جسدِخاکی لینے جانے کی تیاری کرنی ہے۔
حسن شہید کے بھائی علی حیدر سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ میرے بھائی پوسٹ توسگنل یونٹ میں ہوئے مگر اپنے طور اطوار کے حساب سے انفنٹری کے سولجرلگتے تھے۔
کیپٹن بن کے وہ سیالکوٹ پوسٹ ہوئے،ملٹری انٹیلی جینس میں بھی رہے، سٹاف کالج بھی گئے، یونٹ بھی کمانڈ کی اوراب جانے سے پہلے انہیں یہ مژدہ بھی سنا دیا گیا تھا کہ وار کورس میں بھی ان کا نام آگیاہے۔ ایسے لگ رہاتھا جیسے کامیابی پہ کامیابی دوڑی چلی آرہی ہے مگر حسن شہید دنیا کے لالچ اور ان کامیابیوں سے بے پرواہ کسی اور دنیا میں جیتے تھے ۔انہیں کوئی خواہش نہ تھی، ماسوائے پڑھنے، مسجد میں عبادت کرنے اور وطن کے لیے نڈرہوکر آگے بڑھنے کے۔ وہ عقاب تھے اپنی پرواز اور نگاہ میں۔ ان کے سپاہی کہا کرتے تھے کہ ہم سرکوکسی بھیآپریشن کا بتاتے تو حسن شہید فوراً کھڑے ہو کر کہتے بس مجھے دس لوگ چاہئیںلیکن یہ امر بھی حقیقت ہے کہ کمانڈر نڈر ہو تو ان کی زیرِ کمان لوگ اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے۔ اتناکہہ کر وہ چل پڑتے، پیچھے مڑکے بھی نہ دیکھتے۔ ان کے ساتھیوں کا کہناہے کہ وہ حسن شہید کی بہادری پہ نازکرتے تھے۔ ان کی ایک خوبی تھی کہ جہاںبھی جاتے غریبوںکیلیے لنگر کھول دیاکرتے تھے اپنے سپاہیوں سے باپ کی طرح پیارکرتے۔
اپنی وادی کلیئرکرکے لیفٹیننٹ کرنل حسن شہید بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ لوگوں نے کہاکہ ہمیں دہشت گردوں کی حرکت محسوس ہوئی ہے تو لیفٹیننٹ کرنل حسن ایک دم تیار ہوگئے اور اپنے انداز میں دسVolunteersمانگے۔ سب نے کہاکہ سرآپ نے اپنا علاقہ کلیئرکردیاہے یہ تودوسری رجمنٹ کاہے مگر لیفٹیننٹ حسن شہید نے کہاکہ اُس رجمنٹ کا افسر ابھی پہنچاہے مجھے اس علاقے میں ہرجگہ کا علم ہے آج میں چلاجاتا ہوں۔ آزاد کشمیر رجمنٹ نے لیفٹیننٹ کرنل حسن کی معاونت کے لیے اپنے ایک افسر لیفٹیننٹ قہارکواُن کے پیچھے بھیجا جب لیفٹیننٹ کرنل حسن نے دیکھا توکہاکہ'' تم کیوں آئے ہو ابھی تو تمہاری عمر پڑی ہے ان آپریشنز کیلیے، پیچھے رہو اس سے آگے میری منزل ہے۔''
اسی اثناء میں دہشت گردوں نےRPG گولے داغے جن سے کچھ سپاہی شہید ہوئے مگر لیفٹیننٹ کرنل حسن شہید نے ان کے جسدخاکی لے جانے کے لیے حملہ آوروںکو روکا اور اپنے سینے پہ گولیاں کھائیں۔جوانوں کی آوازیں آئیں کہ سر آپ زخمی ہیں، پیچھے آجائیں مگرحسن شہیداس حالت میں بھی وائرلیس پہ ہدایات بھی دے رہے تھے اورپھر زخموں سے چُور سورة یٰسین کی تلاوت بھی فرمارہے تھے جو سب نے سنی۔ اسی زخمی حالت میں اس شیرجوان اللہ کے سپاہی نے گن بھی لوڈکی اورکہامیں کسی حال میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ٹریگر پر انگلیاں دبائیں، اسی دوران دوبارہ گولی لگی توان کی شہادت واقع ہوگئی اور انگلیاں ٹریگر پرہی مڑی رہ گئیں۔شہید ہونے تک وہ جوانمردی سے لڑتے رہے درودپاک اورکلمہ ان کی زبان سے جاری رہا۔ ایسے بہادر جری اور شیرجوان دنیا کی کسی فوج میں نہیں ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدر شہید بنے ہی شہادت کے لیے تھے، ایسی شہادت کہ جس کے لہو کے چھینٹوں سے تاریخ رقم ہوگی۔شہیدکے بھائی نے بتایا کہ حسن نے خود کو پوری قوم کا بیٹا ثابت کیا اوراپنی جان لٹا دی۔ ہم نے اپنے بھائی کو لحد میں بڑی شان سے اتارا۔ لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدر کی قبر ان کے والد بریگیڈئر حیدرکے ساتھ ہے، وہ جس والد کے قدم چومتے تھے آج ان کے پہلو میں ہیں۔ماںکی اجازت سے ہم نے انہیں وہاں دفنایا ہے کیونکہ وہ جگہ ماں نے اپنے لیے مختص کررکھی تھی۔
لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدر شہیدقوم و وطن کا فخر ہیں۔جب تک ایسے بیٹے موجود ہیں دشمن کی کوئی چال وطنِ عزیز کو گزند نہیں پہنچا سکتی۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے