لینڈانفارمیشن مینجمنٹ سسٹم(LIMS) کے زیرِ اہتمام منعقدہ سمپوزیم کے تناظر میں لکھی گئی تحریر
پاکستان میں زرعی انقلاب لانے کی خاطرچھ ماہ قبل ملکی سیاسی اور ملٹری قیادت نے خصوصی ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)قائم کی۔ لیکن اِس قدر قلیل عرصے میں اس کی کارکردگی انتہائی قابلِ اطمینان اور ستائش ہے کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پرکشش ترغیبات دے کر ایسے ملک میں لانا، جسکی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہو اور جہاںقدم قدم پر سرخ فیتے کی رکاوٹیں کھڑی ہوں، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں سبز انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے زیر اہتمام، اس کے ذیلی ادارے لینڈانفارمیشن مینجمنٹ سسٹم(LIMS) نے7دسمبر کو ایک اعلی معیار کے سمپوزیم کا انعقاد کیا۔ اس اجلاس میں مختلف معاشی اور تیکنیکی دانشوروں نے اپنے تجربات کی روشنی میں قیمتی مشوروں سے لمز (LIMS) کی معاملہ فہم قیادت کو آگاہ کیا۔ اس طرح ملکی سطح پر ہم آہنگی کے ساتھ تمام مخلص محبانِ وطن زرعی خوشحالی کی ترقی میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اعلی سطح کانفرنس میں بنفسِ نفیس اور بذریعہ انٹرنیٹ شامل ہونے والے دانشوروں کا ذکر اس مضمون میں سب سے آخر میں کیا جائے گا۔ اجلاس کے آغاز میں لمزکے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل شاہد نذیر نے زراعت کے شعبے میں اٹھائے جانے والے اقدامات اور گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔
انہوں نے ایک ویڈیو کے ذریعے واضح کیا کہ ہمارے ملک میں زراعت، مویشی پروری، ماہی پروری اور ڈیری فارمنگ کے بے حد مواقع موجود ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ کس طرح اِن شعبوں میں جدید طور طریقے اپناتے ہوئے اضافہ کیاجاسکتا ہے۔انہوں نے یقین اور پر اعتماد انداز میں سمجھایا کہ کس طرح غیر ملکی سرمایہ کاروں کو، کسانوں کو نظر انداز کیے بغیر ملک میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں گلف ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور چین سے وزیراعظم پاکستان نے اپنے سرکاری وفود کے ہمراہ دورے کر کے معاہدے بھی کیے ہیں کیونکہ یہ سب ممالک مختلف زرعی شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہت خواہش مند ہیں اس سلسلے میں ڈی جی نے پاکستان کو زرعی طور پر مزید خود کفیل بنانے کے مختصر مدتی، وسطی مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کا بھی تذکرہ کیا۔ آپ نے رجسٹرڈ جوائنٹ وینچرز اور کنٹریکٹر ماڈلز کی تفصیلات بھی بتائیں۔
ڈی جی لمزنے آگاہ کیا کہ ملک میں بیج کی حفاظت کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو کسانوں کے لیے معیاری بیجوں کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ ساتھ ہی پاکستانی کمیشن آف ایگریکلچر، کسانوں کی سہولت کے لیے ایک ایسا کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے کے حتمی مراحل میں ہے جس سے وہ اپنی کاشت کاری کے لیے ضرورت کے مطابق پیسے نکلوا کر زمینداری جاری رکھ سکیں گے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد فصلوں کو بازار میں بیچ کر قرضے واپس کر سکیں گے۔
نئے تعلیم یافتہ افراد کو ترغیبات کے ذریعے زرعی کاروبار میں شامل کرنے کا ایک بہت ہی جامع منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس میں انہیں کاشتکاری کے لیے زمین فراہم کی جائے گی اور ساتھ ہی ابتدائی چھ ماہ کے لیے سرمایہ فراہم کیا جائے گا تاکہ وہ اس زمین سے ملک میں خوشحالی لا کر خود بھی معاشی طور پر خوشحال ہو سکیں۔
جیسا کہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اس سمپوزیم میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر معیشت ، کاروبار، تحقیقی اکیڈمی اور معروف تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت فرمائی اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا:۔
l فیصلہ کیا گیا کہ زرعی شعبے میں ترقی کے لیے آئندہ این جی اوز، این پی اوز اور دیگر فلاحی تنظیموں کا تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔
l لمزکی، کسان دوست ویب سائٹ کو آسان بنایا جائے گا تاکہ علاقائی زبانوں میں ان کو زراعت کے لائیو سٹاک وغیرہ کے بارے میں ضلع، تحصیل اور گائوں کی سطح پر مشورے دیئے جاسکیں۔ جدید مشینوں، کھادوں، فصلوں اور بیجوں کے بارے میں بروقت معلومات فراہم کی جائیں۔
l زراعت کے دوران ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے واسطے تمام اقدامات کیے جائیں گے۔
l ملک میں ایگریکلچر سٹاک ایکسچینج متعارف کروایا جائے، جس میں سرمایہ کار اس کے حصص خرید سکیں اور اس طرح غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ملکی سرمایہ کاروں کی دولت کو بھی زراعت کے شعبوں میں ترقی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
l اس سمپوزیم نے معاشی، کاروباری اور سرکاری غیر سرکاری تنظیموں پر اعتماد کی بحالی کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں امیدوں کے چراغ روشن کیے اور اب وہ جان و دل سے حسب استطاعت کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
l اگر اس قسم کے سمپوزیم کے عمل کو جاری رکھا جائے اور اس میں دوسرے شعبوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس طرح اشتراک اور اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیابی کے عمل کو مزید بہتر اور فعال بنایا جاسکتا ہے۔
شرکا نے رئیل سٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ (REIT) رجسٹریشن میں بہتری لانے اور اصلاحات بڑھانے پر زور دیا، تاکہ زراعت کے لیے دستیاب زمین میں کسی بھی طور سے کمی نہ آنے پائے۔
l لاجسٹک سسٹم اور اجناس کا ذخیرہ محفوظ رکھنے کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے تاکہ فصلوں، پھلوں، سزیوں اور ان سے تیار کردہ مصنوعات کو صحت کے اصولوں کے مطابق پروسیس اور پیک کر کے بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کیا جاسکے۔
l جس طرح ملک میں افراد کی مردم شماری ہوتی ہے اسی طرح کم ازکم ہر پانچ سال بعد مویشیوں کی تعداد کو بھی شمار کیا جائے، ان کی کمی بیشی کا حساب کتاب رکھنا، ان کی افزائشِ نسل کے طریقوں پر نظر رکھنا، سب جانورں، چرند، پرند کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کا ریکارڈ رکھنا، ان کی صحت و امراض و علاج کا ریکارڈ مرتب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
l سیلابی پانی پر قابو پانا اور آبپاشی کے لیے نیا نہری نظام لے کر آنا، کھیتوں کو پانی دینے کے لیے نئے طریقہ کار متعارف کروانا۔
l فصلوں کی بیجوائی اور کٹائی کے لیے جدید مشینوں کو استعمال کرنا۔
ڈی جی کے بعد، ڈاکٹر وقار ڈائریکٹر لمزنے ادارے کی ویب سائٹ کی بیش قیمت تفصیلات سے آگاہ کیا، یہ پچاس (50) ٹیرا بائٹ کی زراعتی معلومات سے بھرپور بہترین ویب سائٹ ہے۔ جو کسانوں کو درج ذیل معلومات بہم پہنچاتی ہے۔
کسان اپنی زمینوں کے دو ہفتے کے پیشگی موسم سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں فصلوں کی بیجوائی، کٹائی، پانی دینے یا نہ دینے کا بروقت فیصلہ کر سکیں۔
کوئی بھی کسان ویب سائٹ www.limspakistan.com پر لاگ ان کرکے فوراً درج ذیل معلومات حاصل کرسکتا ہے کہ:۔
l اس کی زمین پر کون کون سے پھل، سبزیاں اور فصلیں اگانا بہتر ہے۔
l کس کھیت میں کتنی نمی یاخشکی موجود ہے اور اسے کس جگہ پر کتنا پانی دینا ہے۔
l کس جگہ کتنی اور کون سی کھاد ڈالنا بہتر ہے۔
l کس کھیت کے کتنے حصے پر سفید مکڑی یا دیگر جرثوموں نے حملہ کر دیاہے اوروہاں کس جراثیم کش سپرے کی ضرورت ہے۔
l کسانوں کی سہولت کے لیے حکومت کی طرف سے کِن کِن مراعات کا اعلان کیا گیا ہے اور کسان ان سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اس سے قبل 11 اکتوبر 2023 کو اسلام آباد میں وفاقی کمیٹی برائے زراعت کی ایک اعلی سطح کی میٹنگ ہوئی جسکی سربراہی وفاقی وزیر نیشل فوڈ سیکورٹی ، پروفیسر ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کی جس میں میجر جنرل شاہد نذیر، ڈی جی ، لمز بھی شریک ہوئے اور زراعت کی ترقی کے لیے ربیع سیزن سال 2023-24 کے دوران فصلوں کے اہداف مقرر کیے گئے۔ جس کا مختصراً اس سمپوزیم میں بھی تذکرہ کیاگیا جو زراعت میں آنے والی ترقی و خوشحالی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 8.9 ملین ہیکٹر کے رقبے پر گندم کا ہدف 32.12ملین ٹن مقرر کیا گیا۔ جبکہ چنے، آلو، پیاز اور ٹماٹر کے پیداواری اہداف بالترتیب 410، 6330، 2494 اور 666 ہزار ٹن مقرر کیے گئے ۔ اجلاس کی صدارت نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کی۔ کمیٹی نے خریف فصلوں (2023-24) کی کارکردگی اور ربیع کی فصلوں کے پیداواری منصوبے (2023-24) کا جائزہ لیا۔ کمیٹی نے ربیع کی فصلوں (2023-24)کے لیے ان پٹ کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
کپاس کی پیداوار کا تخمینہ 2.4 ملین ہیکٹر کے رقبے سے 11.5 ملین گانٹھوں پر لگایا گیا ہے جس کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 126.6 فیصد کا بمپر اضافہ ہے۔ 2023-24 کے لیے چاول کی پیداوار کا تخمینہ 3.35 ملین ہیکٹر کے رقبے سے 8.64 ملین ٹن لگایا گیا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں بالترتیب رقبہ اور پیداوار میں 12.7% اور 18% کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ 2023-24 کے لیے مونگ کی پیداوار کا تخمینہ 143.6 ہزار ٹن ہے جس کے رقبے میں 198 ہزار ہیکٹر رقبے میں 9.2 فیصد کی کمی ہے تاہم گزشتہ سال کے مقابلے پیداوار میں 6.4 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2023-24 کے لیے ماش کا تخمینہ 7.36 ہزار ہیکٹر کے رقبے سے 5.28 ہزار ٹن لگایا گیا ہے جو پچھلے سال کے مقابلے رقبہ اور پیداوار میں بالترتیب 12.95% اور 24.65% کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ 2023-24 کے لیے مرچوں کی پیداوار کا تخمینہ 1.36 ہزار ٹن ہے جس کا رقبہ 122.1 ہزار ہیکٹر ہے جو پچھلے سال کے مقابلے رقبہ اور پیداوار میں بالترتیب 1.4% اور 2.3% کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
ربیع کی فصلوں کے لیے بیج کی دستیابی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور ڈی جی، ایف ایس سی اینڈ آر ڈی نے بتایا کہ ربیع 2023-24 کے لیے تصدیق شدہ بیج کی دستیابی تسلی بخش رہے گی۔
ربیع 2023-24 کے لیے IRSA ایڈوائزری کمیٹی نے ربیع کے سیزن کے دوران پنجاب اور سندھ کے لیے پانی کی 15 فیصد کمی کا اندازہ لگایا ہے۔ صوبوں کو 31.66 MAF پانی مختص کیا گیا ہے۔ موجودہ موسمی حالات معاون ہیں اور قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ایوان کو بتایا گیا کہ ملک میں غذائی تحفظ کی صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت ایک طرف کسانوں کو کم قیمتوں پر اِن پٹ فراہم کر کے سہولت فراہم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی پیداوار کی بہتر قیمتوں کو یقینی بنانے کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہے۔
زرعی شعبے کے فروغ کے لیے حکومت کے ایجنڈے کی پیروی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) نے 100000 روپے کا سالانہ زرعی قرضے کی تقسیم کا ہدف مقرر کیا ہے۔ 47 اداروں کو مالی سال 2023-24 کے لیے 2,250 بلین روپے، جو کہ گزشتہ سال کی رقم 1776 بلین سے 26.7 فیصد زیادہ ہے۔ ۔ اس کے مطابق، جولائی-اگست 2023 (مالی سال 2023-24) کے دوران، زرعی قرض دینے والے اداروں نے روپے کی تقسیم کی۔ 326 بلین، جو کہ مجموعی سالانہ ہدف کا 14.5 فیصد ہے اور 44 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 226 ارب روپے کمائے گئے تھے۔ ہائوس کو یہ بھی بتایا کہ آئندہ ربیع 2023-24) نومبر - دسمبر) 2023کے دوران یوریا اور ڈی اے پی کی فراہمی کے مستحکم رہنے کی امید ہے۔
پہلی مرتبہ ملکی زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے 7 دسمبر 2023 کو لمز (LIMS) کے زیر اہتمام جس اعلی سطح سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا اس میں پاکستان سے جن دانشورں اور ماہرین نے شرکت کی۔
اب جبکہ پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت سے لیکر ملٹری لیڈر شپ اور دیگر تمام ملکی دانشور اور تنظیمیں پاکستان میں زراعت کی ترقی و فروغ کے لیے سر جوڑ کر ہم آہنگی سے جدوجہد کر رہی ہیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب راشد منہاس کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہوگا۔
زمین سونا اگا رہی ہے
بہار نغمے سنا رہی ہے
تبصرے