اتوار کا دن تھا۔ بچوں نے ناشتے کے بعد ہی شور مچانا شروع کر دیا کہ انہیں کسی واٹر پارک جانا ہے۔ یہ نام میر دلاور کے لیے نیا تھا۔اس کاتعلق سندھ کےعلاقے جامشوروسےتھا۔وہ اپنے ماموں کے گھر کچھ دن چھٹیاں گزارنے لاہور آیا ہوا تھا۔ اس دن اس کے ماموں جان کو دفتر سے چھٹی تھی۔ماموں جان نے بچوں کی فرمائش سنی تو یہ کہتے ہوئے وہاں جانے کی حامی بھر لی کہ اسی بہانے سب بچوں کی تفریح ہو جائے گی اور وہ واٹر پارک بھی دیکھ لیں گے۔ انہوں نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر کی طرف چل دیئے۔
چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے واٹرپارک میں ننھے منھے چہروں کا خوب رش تھا۔ گھر سے نکلتے وقت ممانی جان نے کھانے پینے کا کچھ سامان بھی اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔پارک کے اندر داخل ہوتے ہی بچوں نے جھولوں کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ ہر کوئی اپنی اپنی پسند کے جھولے پر بیٹھنا چاہتا تھا۔ ماموں جان نے یہ دیکھا تو انہیں ایک جگہ روک کر ٹکٹ بوتھ کی جانب بڑھے اور کچھ ٹکٹس خرید لائے۔ سب سے پہلے صائمہ ڈولی والے جھولے پر بیٹھی، پھر ہادی کی باری تھی وہ اپنی پسند کے گول گھومنے والے گھوڑے پر بیٹھنا چاہتا تھا۔ ابوجان نے اسے اٹھا کر گھوڑے پر بٹھایا تووہ خوشی سے چہکنے لگا۔
وہاں سے فارغ ہوئے تو احمد نے واٹر فال سلائیڈ کی طرف اشارہ کر دیا۔ابو جان سمجھ گئے۔ اگلے ہی لمحے وہ سلائیڈ پر بیٹھا مسکرا کرایسے ہاتھ لہرا رہا تھا جیسے اس نے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ سلائیڈ سے ہوتا ہوا پانی کے اندر موجود تھا۔ وہاں اور بھی بچے موجود تھے جو ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے تھے۔نیلے رنگ کا بہت سارا صاف پانی سلائیڈ کے نیچے بنے ہوئے تالاب سے باہرآ رہا تھا۔ میر دلاور پھٹی پھٹی نظروں سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس سے پہلےاس طرح کا پارک نہیں دیکھا تھا۔اس کے علاقے میں ایسی کوئی تفریح گاہ موجود نہیں تھی اور نہ ہی اس قدر صاف پانی۔اس نے تعجب سے ماموں جان کی طرف دیکھا تو وہ سمجھ گئے۔ انہوں نے تمام بچوں کو ساتھ لیا اور مسکراتے ہوئے دلاور کا ہاتھ پکڑ کر ٹرین میں سوار ہو گئے۔
ٹرین پارک کے گرد چھکا چھک چلتی جا رہی تھی ۔ لوگ جگہ جگہ بیٹھ کر کھانے پینے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ دلاور کی حیرت تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اس نے پارک میں بہت سارا کچرا دیکھاجس میں پلاسٹک سے بنی صاف پانی کی چند بوتلیں بھی تھیں۔ کوئی پانی سے آدھی بھری ہوئی تھی تو کوئی نصف سے زیادہ۔دلاورکے علاقے میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت تھی۔دیہی سندھ کے بہت سارے علاقوں میں پینے کے ساتھ ساتھ زمینوں کو سیراب کرنے اور جانوروں کو پلانے کے لیے بھی صاف پانی کمیاب تھا۔تھر کےعلاقوں میں تو یہ حال تھا کہ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترستے تھے۔ وہاں کے لوگوں کو صاف پانی حاصل کرنے کے لیے کئی میل پیدل چلنا پڑتا تھا۔
دلاور کی زبان پر بہت سارے سوال تھے جنہیں ماموں جان بھانپ چکے تھے کیونکہ ان کا بچپن بھی سندھ میں ہی گزرا تھا۔ اس کی توجہ پا کر ماموں جان کہنے لگے:’’ بڑے شہروں میں اکثر ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ صاف پانی کی قدر نہیں کرتے اور اسے بے جا ضائع کرتے ہیں۔ شہروں میں صاف پانی کی کئی پائپ لائنیں پھٹ جانے کی وجہ سے سڑکوں پر پانی بہہ کر ضائع ہوتا رہتا ہے اور لوگ اس کی پروا نہیں کرتے۔ حالانکہ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔‘‘
اب دلاور کے ساتھ دوسرے بچوں نے بھی ان کی باتیں غور سےسننا شروع کر دی تھیں۔جب انہوں نے سب کو متوجہ دیکھا تو کہنے لگے:’’اس وقت دنیا میں دو ارب سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ وہ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ہرسال ہزاروں بچے اور بڑے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پانی کی قلت کی ایک بڑی وجہ آبادی میں اضافہ بھی ہے۔‘‘ ٹرین اپنی منزل پر رُکی توماموں جان ایک کھلی جگہ پر بیٹھ گئے۔
پارک میں لوگوں کا رش بڑھتا ہی جارہا تھا۔ماموں جان نے ایک نظر ان پر دوڑائی اور پھر گویا ہوئے:
’’دنیا کی کل آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر رہی ہے۔ ویسے تو ہماری زمین کے کل رقبے کا 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے مگر اتنے زیادہ لوگوں کے لیے پینے کا صاف پانی صرف تین فیصد ہی ہے۔97فیصد پانی قابل استعمال نہیں ہے۔ یہ معاملہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ بھی ہے۔ تو ذرا آپ سب سوچو کہ پسماندہ اور غریب ممالک کا کیا حال ہو گا؟ دنیا میں پائے جانے والے تین فیصد صاف پانی میں سے دو فیصد پہاڑی تودوں میں موجود ہے۔ اسے وہاں سے نکالنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کا ایک فیصد پانی پینے کے قابل رہ جاتا ہے وہ بھی زیرزمین یا کچھ قدرتی ندیوں، چشموں اورجھیلوں میں پایا جاتا ہے۔اب دنیا بھر میں صاف پانی کے کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ اگر ہم نے پانی کا بے دریغ استعمال کم نہ کیا اور اس بیش بہا نعمت کی قدر نہ کی تو آنے والے دنوں میں ہم اسے بھی کھو دیں گے۔‘‘
بچوں نے آبادی کے بڑھنے اور صاف پانی کی کمی کے بارے میں یہ حیرت انگیزمعلومات سنیں تو پریشان ہوگئے۔ احمد دھیمی آواز میں بولا:’’میں اب پانی ضائع نہیں کروں گا۔‘‘ احمد کے دیکھا دیکھی دیگر بچوں نے بھی پانی کو ضائع نہ کرنے کا عزم کیا ۔ کسی نے کہا کہ وہ دانت صاف کرتے وقت واش بیسن پر نل کو مسلسل کھلا نہیں رکھے گا۔ کسی نے کہا کہ شاور کے بجائے بالٹی بھر کر نہائے گا ۔ صائمہ کہنے لگی کہ وہ آج کے بعد گلاس میں صرف اتنا پانی ڈالے گی جتنا اس نے پینا ہوگا۔
پارک میں بچوں کی تفریح مکمل ہو چکی تھی لیکن انہیں ایک سبق بھی مل چکا تھا کہ پانی زندگی ہے،اس کی بچت زندگی بچانے کے مترادف ہے۔ ماموں جان نے اس حوالے سے بچوں کا عزم اور جوش و خروش دیکھ کر سب کو شاباش دی اورپھروہ سب گھر کی طرف چل دیئے۔
تبصرے