’’ وہ دیکھو،سبزی فروش کا بیٹا حسبِ معمول پراٹھا کھا رہا ہے ۔ ‘‘حنین نے اسد کو کہنی مار کر ہاشم کی طرف متوجہ کیا ۔اسکول میں اس وقت لنچ بریک تھی۔سب بچّے کھانے پینے اور کھیلنے کودنے میں مصروف تھے۔
’’وہ ہرروز ایک ہی چیز اتنے آرام سے کیسےکھا لیتا ہے؟‘‘میری امّی توروزانہ مجھے لنچ میں کچھ نیا دیتی ہیں۔ ‘‘ اسد کیچ اَپ کے ساتھ نگٹس کھا رہا تھا۔
’’ تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ اس کا باپ کوئی امیرآدمی نہیں ہے بلکہ وہ ایک سبزی فروش ہے۔ ‘‘حنین کا لہجہ تحقیرآمیزتھا۔
’’آئو! ذرا اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔‘‘حنین نے اپنے ہنی ونگز ختم کر کے ٹشو سے ہاتھ صاف کیے اور اسد کو بازو سے پکڑ کر آگے بڑھ گیا۔
’’اوئے! کیا کھا رہےہو؟‘‘حنین کا لہجہ متکبرانہ تھا۔
’’پراٹھا کھا رہا ہوں،آؤ تم بھی کھائو۔ حنین کے لہجے کو نظر انداز کر کے ہاشم نے اسے کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
’’ہم نہیں کھاتے، تم ہی کھائو اپنا یہ شاہی کھانا۔ ‘‘اسد اسے مسلسل منع کر رہا تھا۔ سیکشن ہیڈ سر مختار پیچھے کھڑے اُن کی باتیں سن رہے تھے۔
’’ہاشم بیٹا! آپ میرے کمرے میں آئیں۔‘‘ یہ کہہ کرسر اپنے آفس کی طرف چل دئیے۔ اُن کے پیچھے پیچھے ہاشم بھی تھا۔
......
’’بیٹا! یہ سب کب سے ہو رہا ہے؟‘‘
’’پچھلے ا یک سال سے ...سر ‘‘
’’ایک سال سے؟آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ یہاں آپ کے ساتھ اس قسم کا سلوک ہو رہا ہے۔ ‘‘
’’سر! اگر میں ان باتوں میں پڑوں گا تو میرا یہاں آنے کا مقصد پیچھے رہ جائے گا اور میں ایسا کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ ہاشم کا لہجہ مودبانہ تھا۔
’’آپ کو خاموش نہیں رہنا چاہیے، یہ رویّہ اسکول ڈسپلن کے سخت خلاف ہے۔اس سے آپ کوذہنی اذیت پہنچتی ہو گی۔ ‘‘ سر مختار نے اس کی طرف دیکھا۔
’’سر! شروع میں ،مَیں بہت پریشان ہو جاتا تھا مگر میرے ابو نے مجھے سمجھایا کہ جس کا جتنا ذہن ہوتا ہے وہ اتنا ہی سوچ سکتا ہے۔ صبر اور کشادہ دلی اختیار کرو اورایسی باتوں پر دھیان نہ دو ۔ صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ اسی نصیحت نے میری سوچ بدل دی۔ ویسے میرے بہت سے دوست ایسے ہیں جو ہمیشہ میری حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘‘ ہاشم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ ٹھیک ہے ۔اب آپ جائیں ، میں اس معاملے کو دیکھتا ہوں۔ ‘‘
ہاشم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کے والد کی اتنی کمائی نہیں تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو شہر کے درجہ اوّل کے اسکول میں پڑھا سکے۔ یہ تو ہاشم کی ذہانت تھی کہ اسے اسکالرشپ پر یہاں داخلہ مل گیا تھا۔ اسکول کی روایت تھی کہ وہ ہر سال کچھ مخصوص نشستوں پرذہین طلبہ کو وظیفے پر داخلہ دیتا تھا۔ پچھلے سال ہاشم یہ امتحان پاس کر کے آٹھویں جماعت میں داخل ہوا تھا۔اب وہ نویں جماعت میں تھا۔ شروع میں اس کی جماعت کے چند لڑکوں نے اسے خوب تنگ کیا مگراس کی ذہانت ،اچھی اورمددگار فطرت کو دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ تقریباً سارے کلاس فیلوزاس کے دوست بن چکے تھے ۔
ہاشم کی کتابوں سے بہت دوستی تھی ۔ کتابوں نے اسے اتنی چھوٹی عمرمیں یہ بات سکھا دی تھی کہ تعلیم حاصل کرنا ہر بچّے کا بنیادی حق ہے۔ ہاشم شام کے وقت اپنی مصروفیت سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ نکال کر اپنے پڑوس کے تین چار ایسے بچّوں کو بھی پڑھنا لکھنا سکھاتا تھا جوغریب ہونے کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکتےتھے۔اس طرح وہ بیک وقت ایک طالب علم بھی تھا اورعلم بانٹنے والا استاد بھی ۔
......
مختار صاحب نے حنین کے ابو کو اسکول بلا کر ساری بات بتائی۔
’’میں چاہتا ہوں حنین اپنے رویے پر معذرت کرے۔ ‘‘
’’کیا ؟آپ چاہتے ہیں کہ میرا بیٹا ایک معمولی سی بات پر اس لڑکے سے معافی مانگے؟ ‘‘
’’یہ معمولی بات نہیں۔ اس نے اسکول ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے اورایک لڑکے کو مسلسل ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا ہے۔وہ لڑکا تواپنی ذہانت کے بل بوتے پر اس ادارے میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اسکول میں سب بچے برابر ہیں،ان کی جان اورعزت نفس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
سر مختار کا لہجہ دھیما تھا۔
’’معافی تو میرابیٹا کسی صورت نہیں مانگے گا۔ ‘‘
’’آپ جانتے ہیں کہ اس طرح کے معاملات میں ہمارے اسکول کے قوانین بہت سخت ہیں۔ ‘‘ اس بات پرحنین کے ابو سوچ میں پڑگئے۔
’’حنین اب ایسا نہیں کرے گا۔ ‘‘اس کے ابو کی اس یقین دہانی پرسرمختارمطمئن ہو گئے۔
اس کے بعد حنین خاموش تو ہو گیا مگروہ کبھی کبھار ہاشم کو تمسخرانہ نظروں سے دیکھتا تھا۔اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ میٹرک کے امتحانات کا نتیجہ نکلا تو ہاشم نے پورے اسکول میں پہلی اور بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔پرنسپل اوراساتذہ کوہاشم پر فخر تھا۔واقعی وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل تھا۔
......
اسکول میں تقسیم انعامات کی تقریب تھی۔ہاشم اسٹیج پر آیا تو مختار صاحب نے اسے مائیک پکڑایا کہ وہ اسکول کے طلبہ کو کوئی پیغام دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
’’مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک اچھے اسکول میں قابل اساتذہ اور بہترین کلاس فیلوز کے درمیان رہا۔ سب نے میری حوصلہ افزائی کی۔آج میں یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہوں کہ کوئی امیر ہو یا غریب، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہیےجائیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ کوئی بد دل ہو کر پڑھائی نہ چھوڑدے۔ طالب علم امیر ہوتا ہے نہ غریب ، وہ تو علم کا متلاشی ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں اس کی جو کوئی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’ کہہ دیجیے، کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔‘
شکریہ... ‘‘
ان الفاظ نے وہاں بیٹھےتمام طالب علموں کے دلوں پر گہرا اثر کیا۔ ہال میں بیٹھے سب لوگ کھڑے ہوکر ہاشم کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ان میں حنین بھی تھا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ علم کی طاقت ہر چیز پر غالب آچکی تھی۔
تبصرے