اس فانی دنیا میں ہر انسان کو ایک معینہ مدت کے لیے زندہ رہنا ہے اور اس کے بعد بادشاہ ہو یا فقیر، اس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہمیشہ کے لیے قائم و دائم اللہ کی ذات ہے۔ جن لوگوں نے قوم و ملک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ایسے لوگ زندہ و جاوید رہتے ہیں، تاریخ میں ان کو سنہرے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور قوم و ملک ایسے لوگوں کے مقردض ہوتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہماری مسلح افواج اپنے شہداء کے خاندانوں کا بہت خیال رکھتی ہیں جس سے انہیں اپنایت کا احساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ان کو اس کا اجرِ عظیم دے(آمین)۔ از روئے قرآن مجید''جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہوں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے پروردے گار کے ہاں ان کو رزق دیا جا رہا ہے۔'' ایک عام انسان کی سوچ کے مطابق رزق صرف روٹی، چاول اور دوسرے اجناس تک ہی محدود رہتا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔ان شہداء کو کس طرح کا رزق ملتا ہے اس کی کیمسٹری اور Nutritional Value کیا ہے، اس کا علم اللہ تعالی کی ذات کو ہے جو ہر چیز پر قادر ہے۔ہا ں اس سلسلہ میں جن لوگوں نے ریسرچ کی ہے یا علم رکھتے ہیں اس کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے۔ شہداء کو ہر ملک و قوم میں عزت، احترام، وقار اور عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
ان عظیم شہدائے وطن میں میجر واصف حسین شاہ شہید (ستارہ بسالت) بھی شامل ہیں۔جن کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے سادات کاکاخیل خاندان سے ہے جو کہ خاص طور پر پختونوں میں قابل احترام اور مذہبی قوم جانی جاتی ہے۔ میجر واصف حسین شاہ ایف ایس سی ایف جی کالج منگلا کینٹ سے پاس کرنے کے فوراً بعد106 پی ایم اے لانگ کورس میں شامل ہو گئے اور 2002 میں پی ایم اے کاکول سے پاس آئوٹ ہوئے۔ 2007میں اُن کی ترقی لیفٹیننٹ سے کیپٹن کے عہدے پر ہوئی اور 2010 میں کیپٹن سے میجر کا رینک ملا اور اُن کی پوسٹنگ کھاریاں چھائونی میں ہوگئی۔ کھاریاں چھائونی سے وہ2011میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت کانگو سینٹرل افریقہ گئے اور یہاں اقوام متحدہ کے جھنڈے کے نیچے ایک سال مثالی خدمات سرانجام دیں اور ملک پاکستان اور اس کی مسلح افواج کا نام روشن کیا۔ گانگو سے واپسی پر اُن کی اٹیچمنٹ آزاد کشمیر رجمنٹل سنٹر اٹک میں ہوئی بعد ازاں ان کی پوسٹنگ شمالی وزیرستان ہوگئی۔ شمالی وزیرستان میں آپ کوایکبلوچ رجمنٹ کاکمپنی کمانڈر بنا دیا گیا۔ آپ نے شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بڑی بہادری، شجاعت، جانفشانی اور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر اپنے فرائض منصبی انجام دیئے۔
دتہ خیل شمالی وزیرستان کے نزدیک پیشرا غر اور زڑم سر کا بلند و بالا پہاڑی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ افغانستان سے تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے،جہاںسے ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں کے لیے انہیں منظم کیا جاتا تھا اور دتہ خیل پر راکٹ یہیں سے داغے جاتے تھے۔ آخر کار2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کردیاگیا اور ان شرپسند وں کے خلاف میجر واصف حسین شاہ کے نصیب میںیہ سعادت لکھی تھی اور انہوں نے 24 /25 اکتوبر 2014 کی درمیانی شب معمولی نفری کے باوجود اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لے لیا جو آج تک ہماری افواج کے قبضے میں ہے۔ اس بڑی کامیابی پر میجر واصف شاہ کو فاتح زڑم سر کہنا حق بجانب ہوگا۔ یہاں میں ایک اہم بات کا ذکر نہ کروں تو سریحاً ناانصافی ہوگی وہ یہ کہ میجر واصف شاہ نے زڑم سر کے علاقے پر قبضہ کرنے کے بعداس سنسان اور پُر خطر میدان جنگ ،جس میں دشمن کا دوبارہ حملہ خارج امکان نہیں تھا۔ تین راتیں مسلسل کھلے آسمان تلے گزاریں اور جب تک سب جوان اپنے مورچوں میں نہ چلے گئے انہوں نے اپنا خیمہ نہ لگوایا۔ یہ ہوتی ہے ایک فوجی افسر کی قیادت، جذبہ ہمدردی اور خیال اپنے جوانوں کے بارے میں۔ تو پھر کیوں نہ جوان اپنے افسر کے گن گائیں۔
15 نومبر 2014کی شام پانچ بجے تقریباً 400 تخریب کاروں، نے بڑے منظم طریقے سے جدید اسلحہ سے لیس اچانک ایک پوسٹ پر تین اطراف سے حملہ کر دیا۔اس پوسٹ سے میجر واصف شاہ کا کمانڈ ہیڈ کوارٹر تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جبکہ بٹالین ہیڈ کوارٹر تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلے پر۔ میجر واصف شاہ کو جب اس اچانک حملے کا علم ہوا توآپ نے بغیر وقت ضائع کیے اپنی نفری سے کہا کہ جس نے شہید ہونا ہے وہ میرے ساتھ چلے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میں ان شر پسندوں کو سبق سکھائوں گا۔ میجر واصف شاہ بڑی برق رفتاری سے اپنے جوانوں کے ساتھ جس پوسٹ پر حملہ ہوا تھا اس کی فرنٹ لائن پر پہنچ گئے اور پوزیشن سنبھال کر دشمنانِ وطن پر ٹوٹ پڑے۔ دشمن کی پیش قدمی کو روکا اور انہیں بھاری نقصان پہنچایا۔ اس مقابلہ کے دوران آپ کو دو گولیاں لگیں مگر اس کے باوجود نہایت جوان مردی، مستقل مزاجی، شجاعت اور عالی ہمت سے ملک کے دفاع کے لیے لڑتے رہے۔ انہوںنے اپنے زندہ رہنے کے بجائے قوم و ملک کے امن و سلامتی اور بقا کے لیے بہادری سے لڑ کر شہادت کو ترجیح دی۔
شام تقریباً 7 بجے میجر واصف حسین شاہ کے بنکر جو دہشت گردوںنے تین اطراف سے گھیر لیا اور نزدیک سے R.P.G کا فائر کیا جو اُن کی شہادت کا سبب بنا۔ شہید کو ان کے آبائی علاقے میں فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
تبصرے