اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 15:20
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ہلال اردو

قائد اعظم ۔ خوش پوشاک۔ خوش عادات

دسمبر 2023

اس کے لہجے میں تیقن بھی تھا تاثیر بھی تھی
 اس کی تقدیر میں شامل مری تقدیر بھی تھی
وہ نہ ہوتا تو یہ جنت نہیں مل سکتی تھی
اس کی آنکھوں میں جہاں خواب تھے تعبیر بھی تھی
کئی سال گزرے ۔ ریڈیو پاکستان کراچی نے قائد اعظم  کے یوم ولادت پر ایک کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ میں گلشن اقبال سے ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کی طرف رواں ہوں۔ شہر قائد کے رہائشی اور تجارتی علاقے میرے دائیں بائیں گزر رہے ہیں۔ یہیں سے قائد اعظم بھی کبھی گزرتے ہوں گے۔ ان کی جائے پیدائش وزیر مینشن بھی اس ایم اے جناح روڈ سے آگے جاکر پرانے کراچی میں ہے۔ وہ ایم اے جناح روڈ کے نمائش والے علاقے میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ میرا ذہن قائد اعظم کی قیادت کی شان کے مطابق مصرعے موزوں کرنے کی دھُن میں ہے۔
کتنی کتابیں۔ کتنی تقریریں میرے ذہن کے پردے پر آرہی ہیں۔ ابھر رہی ہیں۔ ان کی روشنی مجھے بار بار ایک ولولہ دے رہی ہے کہ قائد اعظم کی قائدانہ کامرانی کا اصل عنصر ان کا یقین محکم ہے۔ اپنے عزم پر، اپنے پروگرام پر یقین کامل اور پھر پورے خلوص نیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں، حامیوں اور کارکنوں کو اس کے لیے قائل کرنا۔ جس شخصیت کو بھی یہ خصوصیت حاصل ہوجاتی ہے جو یقینا خالق بزرگ و برتر کی ودیعت ہوتی ہے۔ اس کے ہمدردوں، متفقوں، پیروکاروںمیں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پھر اس کی اپنی خوش نصیبی، ان تمام ہم نوائوں کا بھی مقدر بن جاتی ہے۔ 



پھر میرے خیالات قائد اعظم اور قائد ملت کے بعد آنے والے رہنمائوں کے ارد گرد گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی بے وفائیاں۔ ان کی زر پرستی۔ ان کی اصول پامالی۔ ان کی قومی مفادات پر ذاتی مفادات کی بالادستی مجھے یہ احساس دلارہی ہے کہ اگر ہمیں تحریک پاکستان میں قائد اعظم جیسے بے لوث اصول پرست، بے خوف، قانون دوست رہنما کی قیادت میسر نہ ہوتی تو ہمیں ایک الگ وطن کبھی بھی نصیب نہ ہوتا۔ کیونکہ بعد میں آنے والے اکثر حکمرانوں کے دَور میں ہمیں ناکامیاں اور محرومیاں ہی ملتی رہی ہیں۔ 
میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہا ہوں کہ اس نے ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت سے نوازا اور ہمیں پاکستان جیسی وسائل سے مالا مال جنت عطا کی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ندامت بھی کہ ہم اس گرانقدر تحفے کی قدر نہ کرسکے، اس کی حفاظت نہ کرسکے۔
سب سے پہلے تو میں قائد اعظم کے حضور شرمندگی کا اظہار بھی کروں گا۔ اور یہ اعتراف بھی کہ ہمیں جس استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا وہ ہم نہ کرسکے۔ آپ جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، ہم وہ قائم نہ کرسکے۔ آپ نے اپنی تقاریر میں جن سماجی خصوصیات کی نشاندہی کی تھی، جن معاشرتی اصولوں کو رہن سہن کی اساس بنانے کو کہا تھا ہم نے ان سے روگردانی کی۔ آپ کے بتائے ہوئے راستوں کے انحراف کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔ آپ نے سب سے زیادہ زور دیا تھا کہ قومی مفادات پر ذاتی مفادات غالب نہ ہوں۔ آپ نے بار بار کہا کہ سرکاری امور کی انجام دہی میں بد عنوانی نہ ہو۔ ذخیرہ اندوزی کرکے گرانی نہ پیدا کی جائے۔ کرپشن کو ملک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا،  مگر ہم سب ان ہی غلط کاریوں میں مبتلا ہوتے رہے اور اس وقت ہم ایک مقام عبرت بنے ہوئے ہیں۔
اب پھر 25 دسمبر آرہا ہے۔ ہمیں پھر بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہے۔ قائد اعظم کے اصولوں کا اعادہ کرنا ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرنا ہے تو سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ زندگی ایک ڈسپلن کے تحت گزارنا ہے۔ اتحاد، یقین محکم، نظم و ضبط، عوام اور حکمرانوں کے نصب العین ہونے چاہئیں۔
قائد اعظم کو اگر اللہ تعالیٰ مزید زندگی عطا کرتے تو وہ خود اپنے اصولوں پر عمل کرواتے۔ انہی کی روشنی میں ہمارا دستور تشکیل پاتا۔ حکمرانوں، سرکاری ملازمین، مسلح افواج، عام لوگوں، تاجروں، صنعت کاروں، علمائے کرام، اساتذہ، وزیروں اور سفیروں سب کے لیے ان کی تقاریر میں واضح رہنمائی موجود رہی ہے۔
آیئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ قائد اعظم کی زندگی کے واقعات سے جاننے کی کوشش کریں کہ وہ عملی طور پر ایک پاکستانی کی شخضیت کے لیے کیا پیغام دینا چاہتے تھے۔ ہر پاکستانی کے لیے ان کی سیاسی، سماجی اور نجی زندگی ایک رول ماڈل کا مقام رکھتی ہے۔
میرے سامنے ایک انگریزی کتاب ہے۔ مہر النسا علی کی مولفہ اور مرتبہ۔ پاکستان اسٹڈی سینٹر کراچی یونیورسٹی سے مطبوعہ۔
Facets of Jinnah,s Personality and Leadership:
A collection of Anecdotes 
اس حوالے سے بہت اہم کوشش ہے کہ حیات قائد کے واقعات سے مصنّفہ نے قائد اعظم کی شخصیت کے طاقت ور پہلو  اُجاگر کیے ہیں۔
''وائسرائے ہند کی 60 رکنی لیجسٹو کونسل میں جناح بمبئی سے منتخب ہوئے۔ انہوں نے کونسل میں اپنی نشست 25جنوری 1910 کو سنبھالی ۔25 فروری 1910 کو اپنی پہلی تقریر میں جناح نے جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے بارے میں برطانوی پالیسی پر سخت تنقید کی۔ جنوبی افریقہ میں انڈین محنت کشوں کی زبوں حالی پر ایک قرارداد کی  حمایت کرتے ہوئے انہوں نے برطانیہ کے 'ظالمانہ رویوں' کی مذمت کی۔ جناح کے ان سخت تنقیدی جملوں پر اس وقت کے وائسرائے  ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا، میں معزز رکن کو یاد دلانا چاہوں گا کہ ''ظلم'' بہت زیادہ سخت لفظ ہے۔ معزز رکن کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ سلطنت برطانیہ کے ایک دوستانہ حصّے کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں۔ اس لیے انہیں لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے چاہئیں۔''
اس پر جناح نے جواب دیا۔'' مائی لارڈ۔ میں تو اس سے بھی سخت زبان استعمال کرنا چاہتا تھا، لیکن میں کونسل کے دستور سے با خبر ہوں۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی اس سے تجاوز نہیں کروں گا، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہندوستانیوں کے ساتھ رویے درشت ترہیں۔ اس پر پورے ملک میں اتفاق رائے ہے۔''
یہ ان کی الفاظ پر گرفت تھی۔ دستور سے باخبری تھی۔ اور انگریز استعمار کے خلاف جرأت اظہار۔قائد اعظم نے کبھی بھی ظلم اور سفاکی پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ انگریز سامراج کے عین عروج کے موقع پر بھی انہوں نے غلط فیصلوں، ناروا اقدامات پر بے باکی سے اپنے خیالات ظاہر کیے۔
اپنی دیانت اور امانت داری کے لیے بھی قائد اعظم ایک مثالی کردار رکھتے تھے۔ اس کتاب میں مہر النساء علی واقعہ بیان کرتی ہیں کہ ایک نوجوان بیرسٹر کی حیثیت سے قائد اعظم کی فیس 500 روپے فی پیشی تھی۔ ایک صاحب ایک کمزور مقدمے کے ساتھ آئے اور پانچ ہزار روپے دینے کے لیے کہا  ۔قائد اعظم نے اس پیشکش سے تو انکار کیا لیکن یہ کہا کہ وہ اسے ڈیپازٹ کے طور پر رکھتے ہیں۔ تین پیشیوں کے بعد وہ مقدمہ جیت گئے۔ انہوں نے اپنے مؤکل کو بلایا جو اس وقت تک ڈیپازٹ کو بھول گیا تھا۔ اسے 3500/- روپے واپس کیے اور تین سماعتوں کے 1500/- روپے بطور فیس وصول کیے۔ 
ایک اور واقعہ اسی دیانتداری کے زیر عنوان ملاحظہ کیجیے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی حکومت نے ایک ہزار کا نوٹ ختم کردیا۔ جس کے بعد کالا دھن (Blackmoney)حکومت کو واپس ملنے لگا۔ البتہ اس پر باقاعدہ ٹیکس عائد کردیا گیا۔
میرٹھ میں ایک کینٹین کے مالک نے ایک ممتاز مسلم لیگی نواب اسماعیل خان سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ دس لاکھ میں سے پانچ لاکھ مسلم لیگ کو عطیہ کرنا چاہتے ہیں۔ بات یہ تھی کہ کسی پارٹی کو عطیہ ان دنوں ٹیکس سے مستثنیٰ تھا۔ مسلم لیگ کو اگر چہ رقم کی بہت ضرورت تھی لیکن قائد اعظم نے یہ عطیہ قبول کرنے سے انکار کیا اور واضح طور پر کہا کہ'' آپ اپنی دولت کا اعلان کریں ٹیکس ادا کریں ۔ہم آپ کے کالے دھن سے ایک آنہ بھی نہیں لینا چاہتے۔''
مصنّفہ نے قائد اعظم کی حاضر جوابی ا ور بذلہ سنجی کے ایک دو واقعات سے بھی قارئین کو نوازا ہے۔ 
سندھ چیف کورٹ کے ڈویژن بینچ میں ایک مقدمے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت میں جسٹس آربی ملن نے ایک مرحلے پر جناح صاحب سے کہا کہ ''بلند آواز سے بولیں''۔ جناح نے جواب دیا'' میں بیرسٹر ہوں اداکار نہیں ہوں۔''
جج نے پھرمداخلت کی اور پھر اونچا بولنے کو کہا۔
جناح نے جواب دیا۔''اگر آپ اپنے سامنے سے کتابوں کا یہ ڈھیر ہٹادیں تو شاید آپ اس قابل ہوجائیں کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے اچھی طرح سن سکیں''۔
اس پر ظاہر ہے کہ پوری طرح بھرے کمرۂ عدالت میں قہقہے بلند ہونے لگے۔
ایک اور واقعہ سنیے۔
'' 1941میں جناح سندھ چیف کورٹ میں ایک اپیل کی وکالت کررہے تھے۔ چیف جسٹس ڈیوس نے دیکھا کہ کمرۂ عدالت کھچا کھچ بھر گیا ہے۔ انہوں نے کورٹ کے کلرک سے کہا کہ اب دروازے بند کردیے جائیں۔
جناح اٹھے اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ '' انصاف کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں۔''
مصنّفہ نے ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے کہ شملہ میں قائد سیر کے لیے نکلے، ان کی جیب میں مونگ پھلی کے کچھ دانے تھے۔ انہوں نے راستے میں بندروں کے لیے بکھیر دیے۔ وہ حیران ہوئے کہ ایک بھی بندر یہ دانے اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ پھر ایک بوڑھا ذرا بھاری جسم والا بندر ایک درخت سے نیچے اترا اور دانوں کی طرف بڑھا۔ باقی بندروں نے اسے راستہ دیا اور خاموشی سے ایک قطار میں کھڑے رہے۔ دانوں کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگایا جب تک بزرگ بندر نے دانے نہیں کھالیے۔
جناح نے اپنے اے ڈی سی سے کہا '' دیکھا تم نے بندر بھی ڈسپلن کا خیال رکھتے ہیں۔''
ہم سب کو یاد ہے کہ قائد اعظم کام، کام اور صرف کام پر یقین رکھتے تھے۔ خود بھی کام کے وقت کام کرتے تھے اور دوسروں سے بھی توقع کرتے تھے کہ وہ کام کے وقت کام پر توجہ دیں۔
خالق دینا ہال کراچی میں حکومت پاکستان کے افسروں سے 11 اکتوبر 1947 کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
'' وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ذاتی ترقی کی فکر اور اعلیٰ مراتب کے حصول کے لیے دوڑ بھاگ نہیں بلکہ تعمیری کوششوں، بے لوث کام، ثابت قدمی اور لگن کے ساتھ فرائض ادا کیے جائیں۔ مگر مجھے یہ سن کر دکھ ہوا کہ ہمارے عملے کے بہت سے ارکان دلجمعی سے کام نہیں کررہے ہیں کہ اب تو پاکستان حاصل ہو ہی گیا ہے تو اب ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ سکتے ہیں۔''
قائد اعظم نے افسروں کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
'' اگر ان رجحانات کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو یہ ہمارے بیرونی دشمنوں سے زیادہ مہلک ثابت ہوگا اور ہمارے لیے تباہی کا پیغام لائیں گے۔ آج جو لوگ یہاں جمع ہیں  آپ سب کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ اس ناسور کو جس قدر جلد ممکن ہو نکال پھینکا جائے۔ آپ کو اپنے عمل کے ذریعے وہ مثال قائم کرکے رفقائے کار میں نیا جذبہ بیدا رکرنا ہوگا۔ آپ کو انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ وہ ایک مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔''
قائد اعظم کی یہ گفتگو ایک طرف تو حالات حاضرہ سے ان کی با خبری بھی ثابت کرتی ہے دوسرے یہ کہ ایسے عمومی رویوں کے خصوصی نتائج کیا برآمد ہوسکتے ہیں اور یہ خدشہ بھی کہ یہ رویے ایک نو آزاد ملک کی بنیادوں کو کس طرح کھوکھلا کرسکتے ہیں۔
 ان کی شخصیت میں مستقبل کے بارے میں بے یقینی نہیں تھی۔ انہیں پوری طرح اعتماد تھا کہ اگر قوم نے اور پاکستان کے رہنمائوں نے کام کی اہمیت کا احساس کیا، اور۔۔فرائض کی انجام دہی سے گریز نہ کیا تو ملک کا مستقبل بہت روشن ہوگا۔
یونیورسٹی سٹیڈیم لاہور میں 30 اکتوبر 1947 کو ایک اجتماع سے خطاب میں بھی ان کی شخصیت کے اسی پہلوکا عکس ملتا ہے۔ 
وہ کہتے ہیں:
'' کام کی زیادتی سے گھبرایئے نہیں۔ نئی اقوام کی تاریخ میں کئی ایسی مثالیں ہیں جنہوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔ آپ کی تخلیق ایک جوہر آب دار سے ہوئی ہے اور آپ کسی سے کم نہیں ہیں۔ اوروں کی طرح اور خود اپنے آبائو اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے۔ آپ کو صرف اپنے اندر جدو جہد کے جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ قابل، صلاحیت کے حامل، باکرداروں اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری ہوئی ہے۔ اپنی روایت پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کردیجیے۔''
سبحان اللہ ۔ کیا ولولہ تازہ دے رہے ہیں۔ کیا توقعات ہیں اپنی قوم سے۔ جس طرح وہ اپنی گرتی ہوئی صحت کے باوجود آخری سانس تک  مملکت نو آزاد کے استحکام کی لیے مستعد رہے،  وہ اپنے ساتھیوں سے بھی اسی استعداد کی امید رکھتے تھے۔
قائد اعظم کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ ان کے دفاع کے لیے ڈٹ جاتے تھے۔
ایک اور اہم تصنیف
 ''غیر جانبدارجناح اور پاکستان''وہ حقائق جن سے قوم ناواقف ہے۔
بھی میرے سامنے  ہے۔
اس کی مصنّفہ سلینا کریم ہیں۔ ناشر ہیں۔ پیرا مائونٹ بکس کراچی۔ بہت ضخیم کتاب ہے۔ سلینا کریم نے کوشش کی ہے کہ مختلف مغربی اور ہندوستانی مصنّفوں کی طرف سے قائد اعظم کی شخصیت پر جو الزامات اور اعتراضات عائد کیے گئے ہیں ان کو شواہد اور واقعات کی مدد سے غلط ثابت کریں۔ وہ 1970 میں قائد اعظم کی بیٹی ڈینا کے پروفیسر اکبر ایس احمد کے انٹرویو کے حوالے سے قائد اعظم کی ذات کے ایک اہم پہلو کو اُجاگر کررہی ہیں۔
''میرے والد کے چند نقاد کہتے تھے کہ وہ مغرور تھے۔ یہ بات غلط ہے۔ وہ بہت زیادہ میل جول رکھنے والے شخص نہ تھے۔ وہ میری طرح بہت نجی زندگی گزارتے تھے لیکن اصولوں کے معاملے میںہمیشہ ڈٹ جاتے تھے۔ وہ نہ خود کو دھوکہ دیتے تھے اور نہ ہی لوگوں کو ان کی نجی اور عام زندگی میں فریب دیتے تھے۔''
یہ بہت اہم عادت کی نشاندہی ہے کہ وہ نہ خود دھوکہ کھاتے تھے اور نہ کسی کو فریب دیتے تھے۔ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ہر روز ایک دوسرے کو فریب دیے جاتے ہیں ۔
اس کتاب میں ''اقربا پروری'' کے زیر عنوان ایک باب میں کچھ اہم اور دلچسپ واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
''انہوں نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ کی بجائے سر عبداللہ ہارون کی اہلیہ لیڈی ہارون کو مسلم لیگ کے شعبۂ خواتین کی سربراہ مقرر کیا۔
اسی طرح ایک نوجوان کی ملازمت کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ اس کے بارے میں سفارش کی گئی تھی کہ یہ سر سید احمد خان کے پڑ پوتے ہیں۔
جب علامہ اقبال کے بڑے صاحب زادے آفتاب اقبال نے جناح کو خط لکھا اور مسلم لیگ کا ٹکٹ جاری کرنے کی درخواست کی تو جناح نے ان کو مطلع کیا کہ وہ اس سلسلے میں مقرر کردہ طریقہ کار کو اپنائیں۔
جناح اس بات کے مخالف تھے کہ کوئی اثر ورسوخ یا فائدے کی خاطر کسی کی سفارش کی جائے۔
آج کل تو کلیدی عہدوں پر اپنے دوست اور رشتہ دار متعین کرنا عام سی بات ہے۔یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ وہ اس عہدے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ جناح مقرر کردہ طریقۂ کار کے قائل تھے۔ آج کل ہر روز ہی طے شدہ طریق کار سے دانستہ اجتناب کیا جاتا ہے۔
سلینا کریم کی یہ کتاب اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب ہے۔ قائد اعظم شناسی کے عشاق کو اس کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس سے قائد اعظم کی شخصیت بہت نمایاں طریقے سے اپنے خدو خال کے ساتھ ابھر کر آتی ہے۔
اپنی اس تحریر کا اختتام بھی قائد اعظم پر مسلسل تحقیق کرنے والے ممتا ز مصنّف، محقق اور شاعر خواجہ رضی حیدر کی ایک منفرد کتاب ''قائد اعظم شناسی'' کے ایک باب سے چند اقتباسات پر کرنا چاہوں گا۔ رضی حیدر صاحب نے اس باب کا عنوان 'قائد اعظم کی خوش پوشاکی اور نفاست' رکھا ہے۔
قائد اعظم اپنے عہد کی چند نفاست پسند ہستیوں میں سے تھے۔ مصنّف نے تحقیق کے ذریعے یہ عکاسی کی ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ '' لباس کسی شخص کے ذوق جامہ زیبی، نظریات اور رجحانات کی نہ صرف عکاسی کرتا ہے بلکہ اس شخص کے علاقائی تعلق اور ثقافت کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ مشاہیر عالم نے ہمیشہ وہ لباس زیب تن کیا جو ان کی سر زمین پر آباد افراد کی روایت اور ثقافت سے ہم آہنگی رکھتا ہو۔ مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ جب کسی رہنما نے خود کو عوام کی امنگوں اور آرزوئوں کا آئینہ دار بنا لیا تو عوام نے اپنے رہنما کی عقیدت میں خود بھی وہی لباس اختیار کرلیا جو ان کے رہنما سے مخصوص تھا۔''
خواجہ رضی حیدر کی تحقیق کے مطابق ان دنوں وکیل، بزنس پیشہ افراد زیادہ تر انگریزی لباس کوٹ پتلون سے مانوس تھے۔ کراچی کے اسی ماحول میں قائد اعظم بھی نہ صرف بچپن سے ہی اس لباس سے آشنا تھے بلکہ اپنے زمانۂ طالب علمی میں بھی یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔ لندن میں تو اس لباس کی عادت اور زیادہ پختہ ہوئی۔ لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس بمبئی آکر اپنی عدالتی اور سماجی ضرورتوں کے پیش نظر کوٹ، پتلون ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے۔
 1916میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس بیک وقت ایک ہی مقام یعنی لکھنؤ میں منعقد ہوئے۔ پروگرام کے مطابق ان دونوں کا ایک مشترکہ اجلاس بھی ہونا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر لوگوں کا والہانہ استقبال دیکھ کر مسلم لیگی رہنمائوں نے محسوس کیا کہ عوام کے جذبات کے پیش نظر مسلم لیگ کے اجلاس میں قائد اعظم شیروانی پہن کر شرکت کریں تو اچھا لگے گا۔  قائد اعظم نے ایسا کوئی لباس پہننے سے انکار کردیا جس کے روایتی آداب سے وہ واقف نہیں تھے۔ پھر یہ تجویز پیش کی گئی کہ قائد اعظم سوٹ کے ساتھ ٹوپی زیب کرکے اجلاس میں شریک ہوں۔ قائد اعظم نے اس تجویز پر رضا مندی ظاہر کی چنانچہ فوری طور پر کانپور کے مچھلی بازار کی ایک دکان سے ایک درجن سے زیادہ مختلف اقسام کی ٹوپیاں لائی گئیں۔ ان میں سے ایک ٹوپی جو ترکی کی تھی قائد اعظم نے منتخب کرکے سر پر رکھ لی۔ مسلم لیگی رہنما اور کارکنوں کو قائد اعظم کی اس ادا پر بہت خوشی ہوئی۔
خواجہ رضی حیدر نے قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری مطلوب الحسن سید کا بیان نقل کیا ہے۔ 
''قائد اعظم محمد علی جناح 1936 کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طالب علموں سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے اور اکثر علی گڑھ جاتے رہتے تھے۔ ابتدا میں آپ نے علی گڑھ کاٹ شیروانی پہنی اور یہ شیروانیاں علی گڑھ کے ایک درزی کے پاس سے سل کر آتی تھیں۔
 ایک اور واقعہ تو بہت ہی دلچسپ ہے۔
ایک انگریز صحافی اور An Indian Summer کے مصنّف جیمزکیمرون نے قائد اعظم کی نفاست پسندی کا ایک ذاتی مشاہدہ اسی طرح بیان کیا ہے کہ 1945 میں وہ ان کا انٹرویو کرنے گئے ۔ انٹرویو کے لیے مقام قائد اعظم کے مطالعہ کا کمرہ طے ہوا تھا۔ جناح نہایت شاندار سوٹ میں ملبوس تھے۔ سوٹ کی سلائی کے ایک ایک ٹانکے سے نفاست عیاں تھی۔ استری اس انداز سے ہوئی تھی کہ ہر کریز تلوار کی سی دھار لیے ہوئے تھی۔ اعلیٰ قسم کے لینن کے سوٹ میں ان کی آہنی شخصیت بہت متاثر کن لگ رہی تھی۔
گفتگو کے آغاز کو ابھی شاید آدھاگھنٹہ ہی ہوا تھا کہ اچانک قائد اعظم خاموش ہوگئے اور ان کا چہرہ زرد ہوگیا۔ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں معذرت چاہی اور اٹھ کر اندر گھر میں چلے گئے ۔میں نے محسوس کیا کہ شاید ان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے میں ابھی گومگو کی صورت میں تھا کہ وہ مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر خود کلامی کے سے انداز میں معذرت کرتے ہوئے میرے مقابل بیٹھ گئے۔ 
انہوں نے میز پر رکھے ہوئے اپنے نوٹس اٹھائے اور پھر کہنے لگے '' میں معذرت خواہ ہوں اس تعطل کے لیے۔ میرے ملازم نے میری قمیض کی آستینوں میں غلط 'کف لنکس' لگادیے تھے۔ بہرحال کوئی بات نہیں اب درست ہوگئے ہیں۔''
اس واقعے سے اندازہ کرلیجیے کہ وہ اپنے لباس کے سلسلے میں جزئیات تک کا خیال رکھتے تھے۔ لباس میں نفاست، کردار میں دیانت، کام کے وقت کام، اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں۔ وائسرائے ہو، چیف جسٹس یا کوئی بھی، حق بات کہنے سے نہ ڈرنا۔ یہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کے ایسے پہلو ہیں جنہیں اپنا طرز عمل بناکر آج کے حکمراں بھی اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیںاور پاکستان کو کامیابی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔


مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]