بھارت میں پانچ ریاستوں چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ، میزورام اور مدھیہ پردیش میں انتخابات جاری ہیں۔ بھارتی داخلی سیاست میں ان انتخابات کی وجہ سے بھونچال آیا ہوا ہے، کیونکہ اگلے برس کے اوائل میں بھارت میں لوک سبھا چنائو ہونا ہے۔ یوں ان ریاستی انتخابات کو بھارتی لوک سبھا چنائو کا '' سیمی فائنل'' قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ان انتخابات میں بھارتی عوام کا سیاسی رجحان سامنے آئے گا۔ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان انتخابات میں کامیابی درج کرانے کے لیے اپنے '' ہندو توا ایجنڈے'' کی پوری شدت کے ساتھ دوبارہ تشہیر شروع کر رکھی ہے کیونکہ 26 اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد '' انڈیا '' کی بڑھتی مقبولیت بی جے پی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات
چھتیس گڑھ میں 7 نومبر اور 17 نومبر کو تمام 90 سیٹوںکے لیے پولنگ کی گئی مگر یہ امر قابل ذکر ہے کہ چھتیس گڑھ کی عوام نے ان انتخابات کو سرے سے مسترد کر دیا۔ چھتیس گڑھ میں راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگرس ، نریندر مودی کی بی جے پی نے نوے نوے ، اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے 71 ، مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے 53 ، ہیرا سنگھ مرکم کی گوڈوانا گنتنتر پارٹی نے 37 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے ۔ سات نومبر کو ہونیوالی پولنگ میں بھارتی حکومت کا الیکشن کا ڈرامہ پوری طرح ناکام ہو گیا۔
پانچ ریاستوں چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ، میزورام اور مدھیہ کی آبادی مجموعی طور پر یوکرین اور روس دونوں سے زیادہ ہے۔ تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17 ، راجستھان میں 25 ، مدھیہ پردیش میں 29 ، چھتیس گڑھ میں 11 جبکہ میزورام میں لوک سبھا کی ایک نشست ہے۔ یوں ان ریاستوں میں لوک سبھا کی 83 جبکہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی '' راجیہ سبھا'' کی 34 نشستیں ہیں۔ بھارتی داخلی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کے مطابقبھارتی سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں اپنی نمائندگی کو بڑھانے کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ مدھیہ پردیش میں صوبائی نشستوں کی تعداد 230 ہے۔ 2018 میں کانگرس نے اس ریاست میں 114 سیٹیں جیتکر اپنی حکومت بنائی تھی۔ کانگرس نے سرکار بنائی جو محض ڈیڑھ سال چل پائی۔ بی جے پی، کانگرس کے متعدد ارکان کو توڑنے میں کامیاب رہی اور یوں کانگرس کی حکومت گرا کر برسر اقتدار آ گئی۔
200 نشستوں والی ریاست راجستھان میں عموماً یہی رجحان رہا ہے کہ ایک کے بعد دوسری سیاسی جماعت اپنی حکومت بناتی رہی ہے۔ 2018 میں کانگرس یہاں سے بھی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری تھی مگر 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔ کانگرس راجستھان میں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کی دھڑے بندی کے باعث پارٹی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ دونوں رہنما اپنی وزارت اعلیٰ کو پکا کرنے کے لیے لابنگ میں مصروف رہے جبکہ راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی امیدوار وسُندھرا راجے سندھیا کی بھی اعلیٰ کمان سے بگڑ چکی ہے۔ تلنگانہ کی بات کی جائے تو یہاں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 119 ہے۔ یہاں بی جے پی کی مقبولیت کا گراف خاصی تیزی سے گر رہا ہے جس سے بادی النظر میں کانگرس کے میدان مار لینے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ میزورام کی صوبائی نشستوں کی تعداد محض 40 ہے۔ تقریباً پچاسی فیصد مسیحی آبادی والی اس ریاست میں حالات دگردوں ہیں۔ میزورام میں سات نومبر کو پولنگ کی گئی تھی جسے بھارت کے مین سٹریم میڈیا نے کوئی کوریج نہیں دی۔ اس کی ایک وجہ پڑوسی ریاست منی پور میں 3 مئی سے جاری عیسائی کش فسادات ہیں جن کے باعث میزورام میں عدم استحکام انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے تمام اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے یہاں پابندی عائد کر دی تھی کہ پادری کسی قسم کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے جبکہ خود آر ایس ایس کے انتہا پسند سنت سادھو دھڑلے سے عوام کو بی جے پی کو ووٹ ڈالنے کی تلقین کرتے رہے۔ اب بات کر لی جائے اس ریاست کی جہاں انتخابات کا ڈرامہ بری طرح ناکام ہو گیا اور خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہنے والے بھارت کا چہرہ ایک بار پھر عالمی سطح پر بے نقاب ہو گیا۔
چھتیس گڑھ میں انتخابات کا ڈرامہ ناکام
ایک لاکھ پینتیس ہزار 192 مربع کلومیٹر رقبے والی اس ریاست میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 90 ہے۔ یہاں کانگرس کی پوزیشن خاصی مضبوط ہے کیونکہ 2018 میں کانگرس اور اسکے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بھوپیش بگھیل نے علاقائی پہچان اور سافٹ ہندوتوا کو بنیاد بنا کر یہاں انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کا 9 واں بڑا صوبہ ہے۔ یہاں کی آبادی 3 کروڑ کے قریب ہے، یوں اسے بھارت کی 17 ویں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ ریاست کی نوے نشستوں پر انتخابات دو مراحل میں شیڈول کئے گئے تھے۔ چھتیس گڑھ میں 7 نومبر اور 17 نومبر کو تمام 90 سیٹوںکے لیے پولنگ کی گئی مگر یہ امر قابل ذکر ہے کہ چھتیس گڑھ کی عوام نے ان انتخابات کو سرے سے مسترد کر دیا۔ چھتیس گڑھ میں راہل گاندھی کی انڈین نیشنل کانگرس ، نریندر مودی کی بی جے پی نے نوے نوے ، اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے 71 ، مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے 53 ، ہیرا سنگھ مرکم کی گوڈوانا گنتنتر پارٹی نے 37 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے ۔ سات نومبر کو ہونیوالی پولنگ میں بھارتی حکومت کا الیکشن کا ڈرامہ پوری طرح ناکام ہو گیا۔ خود ٹائمز آف انڈیا کے مطابق سات نومبر کو ہونیوالی پولنگ میں کل ٹرن آئوٹ 23 فیصد سے بھی کم رہا جبکہ واقفان حال کاکہنا ہے کہ عوام سرے سے پولنگ کے لیے گھروں سے باہر نکلے ہی نہیں۔ 17 نومبر کو ہونیوالی پولنگ کے بعد مودی سرکار کے ایما پر بھارتی میڈیا کہتا رہا کہ چھتیس گڑھ میں 50 فیصد سے زیادہ ٹرن آئوٹ رہا جبکہ غیر جانبدار صحافتی اداروں کی جانب سے اس کی تردید کی گئی ۔ حالات یہ ہیں کہ 17 نومبر کو بھی نیکسلائیٹ وادیوں کے آئی ای ڈی حملے میں انڈو تبتن بارڈر پولیس کا ایک فوجی ہلاک ہو گیا۔
نکسل تحریک کی مقبولیت میں اضافہ
بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں ہر آنے والے دن کے ساتھ زور پکڑتی جا رہی ہیں ۔ بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ، چھتیس گڑھ، میزورام، میگھالیہ، منی پور، تری پورہ، ارونا چل پردیش (مقبوضہ تبت)، سکم اور آسام میں تو یہ باقاعدہ آزادی کی تحریکیں بن چکی ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں کے دوران نکسل علیحدگی پسند 12000 سے زائد بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ بھارت کے 240 سے زائد اضلاع میں نکسلائٹ تحریک زوروں پر ہے اور ہزاروں افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ چھتیس گڑھ کے عوام میں اس غم و غصہ کی وجہ مودی سرکار کی جانب سے جبراً بھارتی عوام پر ہندوتوا پالیسیوں کا نفاذ ہے۔
2021 میں آر ایس ایس نے چھتیس گڑھ کی مسلمان اور مسیحی آبادی کیخلاف ایک متشدد مہم شروع کی جو دیکھتے ہی دیکھتے فسادات کا روپ دھار گئی تھی۔ یہ فسادات ہندو اتنہا پسند تنظیموں کے احتجاج کی صورت میں شروع ہوئے۔ آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے گرگوں نے ہمیشہ کی مانند احتجاجی مظاہرے کے دوران قبائلی بستیوں پر حملہ کر دیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں بیسیوں قبائلی جان کی بازی ہار گئے جبکہ چھتیس گڑھ میں لاکھوں قبائلیوں کو حالات کی خرابی کے باعث نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔ ان فسادات میں ہندو انتہا پسندوں نے بڑے پیمانے پر گرجا گھروں اور مساجد کو نذر آتش کر دیا۔ اس غنڈہ گردی اور غیر انسانی روش پر قبائلی عوام میں بی جے پی سرکار اور ہندوئوں کے خلاف نفرت کی شدید لہر اٹھی۔ مودی سرکار کی ہمیشہ سے یہ روش رہی ہے کہ وہ نکسل وادی علیحدگی پسندوں کے نام پر قبائلیوںکو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ نکسل وادیوں کی جانب سے بھی ہندو انتہا پسندوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا رہا ہے۔ چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما رتن دوبے کو چار نومبر کو انتخابی مہم کے دوارن نکسل وادیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ مقامی لوگوں نے نہ صرف انتخابات کو مسترد کر دیا بلکہ ماؤ نواز علیحدگی پسندوں نے بھی بھارتی سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا اور فورسز کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔ چھتیس گڑھ میں علیحدگی پسند بھارتی سکیورٹی فورسز کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں ۔انہوں نے رواں سال اپریل میں دس پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔چھتیس گڑھ میں اس وقت تقریباً دس ہزار علیحدگی پسند جنگجوبھارتی حکومت کیخلاف لڑ رہے ہیں جنہیں مقامی آبادی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
منی پور میں خانہ جنگی
چھتیس گڑھ سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں میں جاری علیحدگی پسند تحاریک کی مقبولیت میں اضافے کی بڑی وجہ منی پور میں کُوکی قبائل کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف بھرپور مزاحمت ہے۔ بھارتی داخلی سیاست میں عدم استحکام بڑھتے جانے کی ایک وجہ منی پور میں تین مئی سے جاری خانہ جنگی ہے، منی پور میں کُوکی قبائل تاحال ہندو انتہا پسند قبائل کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔ فسادات میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھرہو چکے ہیں۔ قبائلی عوام نے حملہ کر کے پانچ ہزار سے زائد سرکاری ہتھیار لوٹے جبکہ 100 سے زائد پولیس اہلکار وں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ ایک لاکھ سے زائد اہلکار تعینات کرنے کے باوجود حالات مودی سرکار کے قابو سے مکمل طور پر باہر ہیں ۔
اس خانہ جنگی کے دور رس اثرات بھارتی سیاسی منظرنامے پرمرتب ہو رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے دوغلے پن سے تنگ آ کر بالآخر منی پور کے باغی قبائل نے اپنی حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انھوں نے مودی سرکار کو دو ہفتے کا الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر ان کے جائز مطالبات منظور نہ کئے گئے تو اپنی خودمختار حکومت قائم کر لیں گے۔
مضمون نگار ایک اخبار کے ساتھ بطور کالم نویس منسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے