پیارے بچو! ایک گھنے جنگل میں دو چڑیاں رہتی تھیں، بالکل چھوٹی سی! ایک کا نام تھا چُن اوردوسری کا نام تھا مُن۔ چُن ویسے تو بہت اچھی تھی لیکن اس کی ایک بُری عادت تھی۔ وہ یہ کہ وہ سب سے الگ تھلگ رہتی۔ کسی سے ملتی جلتی نہ کسی کا خیال رکھتی۔ درخت پر رہنے والے باقی سب پرندے اکٹھے اُڑتے، دانہ تلاش کرتے اور اسے مل جل کر کھاتے۔ یعنی سب کا آپس میں بہت اتفاق تھا۔
چُن چڑیا اکیلے ہی اپنا دانہ دنکہ اٹھانے باہر جاتی۔ پھر اپنے گھونسلےمیں آکر اکیلی ہی کھا لیتی۔ وہ کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی اور نہ اپنی کوئی چیز کسی سے شیئر کرتی تھی۔ اس نے کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ کچھ دانے اپنے پڑوس والوں کو ہی دے دوں یا کسی پرندے سے ہی پوچھ لوں کہ آج اس کو کھانا ملا ہے یا نہیں۔ وہ تو بس اپنے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ اس کے اس رویے کی وجہ سے دوسرے پرندے بھی اس کے پاس کم کم ہی جاتے۔ بس ایک مُن تھی جو اس کی خیر خبرلے لیتی اور موقع ملنے پر اسے اس کی اس عادت سے آگاہ بھی کرتی۔مگر چُن پر اس کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوتا۔
ایک بار ہوا یوں کہ جنگل میں زور کا طوفان آ گیا۔ تیز ہوا نے کئی درختوں کو جڑ سے اُکھاڑ دیا۔ چُن مُن کا درخت گرنے سے تو بچ گیا لیکن اس پر موجود بہت سے گھونسلے ٹوٹ چکے تھے۔ خیر! سب پرندوں نے مل جل کرانہیں ٹھیک کیا اور دانے دنکے کی تلاش میں نکل گئے۔
چُن کا گھونسلا بھی ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ اس نے اس کی مرمت شروع کردی۔ ابھی اس نے تھوڑا سا کام ہی کیا تھا کہ اس کے پَروں میں درد ہونے لگا۔وہ بہت تھک چکی تھی ۔شام تک اس کو ہلکا سا بخار بھی محسوس ہونے لگا۔ اس کے پاس دانہ دُنکا بھی نہ تھا اور نہ ہی وہ اسے تلاش کرنے کی ہمت رکھتی تھی۔
’’اب کیا کروں؟‘‘ اس نے سوچا۔
بھوک کی شدت سے اس کا برا حال تھا۔ آس پاس بھی کوئی نہ تھا کہ جو اس مشکل میں اس کی مدد کرتا۔سارے پرندے تو دانے دنکے کی تلاش میں نکل چکے تھے۔ چُن بے بس ہو کر اپنے ٹوٹے گھونسلے میں ہی بیٹھ گئی۔
تھوڑی دیربعد اسے بہت ساری آوازیں سنائی دیں۔ پرندے دانہ چن کر واپس آ گئے تھے۔ ان کے پاس بہت سارا دانہ اور کیڑے مکوڑے تھے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر مل جل کر کھانے لگے۔
کھانا کھاتے ہوئے مُن کو اچانک چُن کی یاد آ گئی۔ اس نے اس کے گھونسلے کی طرف دیکھا جو ٹوٹا ہوا تھا اور چُن اس میں آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ مُن فوراً اُس کے پاس پہنچی۔
’’چُن! کھانا کھالو۔ تم نے شاید ابھی تک کچھ نہیں کھایا، لگتا ہے گھونسلہ ٹھیک کرتے کرتے تھک گئی ہو۔‘‘ مُن نے چہکتے ہوئے اسے کہا۔ اس دوران دوسرے پرندے بھی ان کے پاس آکر بیٹھ گئے۔
’’اوہ! اس کا تو سارا گھونسلہ ہی ٹوٹ چکا ہے۔ چلیں! سب مل کر اس کو ٹھیک کرتے ہیں۔‘‘ ایک چڑیا بولی۔
یہ سن کر چُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بہت شرمندہ تھی۔ اس نے تو آج تک کسی کی مدد نہیں کی تھی حتیٰ کہ کسی پرندے کو کبھی دانہ تک نہ دیا تھا۔ اس کے اس رویے کے باوجود دوسرے پرندے اس کی مدد کو آئے تھے۔
وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس دوران مُن نے چاول کے کچھ دانے اس کے سامنے رکھ دیے۔ چاول کے دانے دیکھ کر چُن کی بھوک اور بھی بڑھ گئی تھی۔ اس نے انہیں جلدی جلدی اپنی چونچ میں لے لیا۔
دانہ کھانے سے چُن کی بھوک تو مٹ گئی لیکن ابھی اس کے گھونسلے کی مرمت باقی تھی جبکہ اس کی صحت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ مُن اوردوسرے پرندوں نے مل جل کر چُن کے گھونسلے کی مرمت کی اور جب تک وہ مکمل صحت مند نہ ہوگئی اس کا خوب خیال رکھا۔
دوستو! چُن چڑیا کو معلوم ہوگیا تھا کہ اتفاق میں ہی برکت ہے۔ اب وہ دوسرے پرندوں کےساتھ نہ صرف مل جل کررہنےلگی۔
بلکہ ان کے ساتھ کھیلتی کودتی،دانہ دنکہ تلاش کرتی ۔اور ان کا خوب خیال بھی رکھتی ۔
تبصرے