پیارے بچو! سننے میں آیا ہے کہ ایک شکاری دن بھر شکار کی تلاش میں، جنگل میں مارا ماراپھرتا رہا ۔بدقسمتی سے اسے کوئی شکار نہ ملا۔بھوک نے اسے نڈھال کردیا ۔ وہ مایوس ہو کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا تاکہ تھکاوٹ دُورکر سکے ۔اچانک اُسے کسی پرندے کے اُڑنے کی آواز آئی۔وہ اُس کی طرف متوجہ ہوا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک فاختہ اس کے سامنے والے درخت پر آکر بیٹھ گئی ۔بد نصیب فاختہ سستانے کے لیے درخت پر بیٹھی تھی۔ اسے کیا معلوم کہ دوسرے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ شکاری فاختہ کو دیکھ کر خوش ہو گیا اوردِل ہی دِل میں کہنے لگا : ’’لو جی! شکارتومیرے پاس آ گیا ہے۔ میرے خالق و مالک نےمیری بے بسی دیکھ کر میرے لیے شکار بھیج دیا۔‘‘ شکاری کو کیا معلوم کہ جسے وہ شکار کرنے کا سوچ رہا ہے وہ اس کے لیے خوراک ہے یا عبرت!
شکاری نے اپنی غلیل میں پتھر کا چھوٹاسا ٹکڑا ڈالا اور فاختہ کا نشانہ لے کر اسے دے مارا۔ فاختہ پتھر لگنے سے شدید زخمی ہو گئی اور پھڑ پھڑاتی ہوئی زمین پرآ گری ۔ وہ درد کی شدّت سے تڑپنے لگی۔شکاری خوشی کے مارے پھولے نہیں سمارہا تھا۔
شکاری فاختہ کی طرف دوڑا ۔ اس نے فاختہ کو پکڑا تاکہ اسے ذبح کر کے گھر لوٹ سکے۔اس نے جیسے ہی فاختہ کو پکڑ کر اسے ذبح کرنا چاہا ، فاختہ کواللہ تعالیٰ نے بولنے کی قوت عطا کر دی ۔فاختہ نے کہا :’’ اے انسان! میں جانتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر شے انسان کے لیے پیدا کی ہے۔ وہ اسے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے ۔ دنیا اس کے لیے مسخر کر دی گئی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کرنے،اپنی حد سے تجاوز کرنے اور فضول خرچی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔اگر انسان بغاوت کی راہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچ سکتا،اسے اپنے خالق و مالک کے احکام کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ضرور ملے گی۔‘‘
شکاری فاختہ کی باتیں سن کر حیران اورپریشان ہو گیا ۔دِل میں کہنے لگا :’’ میرے اللہ! یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔ کیا فاختہ بھی ہماری طرح بول سکتی ہے؟‘‘ اس نے یہ سوچا ہی تھا کہ اگلے لمحے خود بخود جواب مل گیا۔ اے انسان تُو اپنے خالق ومالک کو بھول گیا،وہ جیسا چاہے کر سکتا ہے۔
شکاری نے فاختہ سے پوچھا :’’کیا میرا یہ عمل درست نہیں؟ ‘‘
فاختہ بولی: ’’ہاں! تمہارا یہ عمل درست ہے لیکن بروقت نہیں۔‘‘
شکاری نے پوچھا: ’’بھلاکیسے؟ ‘‘
فاختہ بولی:’’بے شک تم میرا شکار کرسکتے ہو لیکن تمہیں میرے بچوں کو مارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘
شکاری پوچھنے لگا:’’ وہ کیسے ؟‘‘
فاختہ نے کہا :’’ میرے چار بچے ہیں جو چند دنوں کے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میری جوڑی دار فاختہ کو ایک شکاری نے شکار کر لیا اور میں اکیلی رہ گئی ۔ اس کے بچوں کو خوراک اور پانی دینا بھی میرے ذمہ ہے ۔ اگر تم نے مجھے ذبح کر دیا تو میرے بچے بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے ۔اس طرح تمہارا شماربھی ظالم لوگوں میں ہونے لگے گا۔‘‘
فاختہ نے مزید کہا:’’ اے شکاری !کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ دن پرندوں کے انڈے دینے کے ہیں ۔ان دنوں تمہیں شکار نہیں کرنا چاہیے تاکہ تم لوگ ظلم اور ناانصافی سے بچ سکو۔ ‘‘
شکاری فاختہ کی باتیں سن کر حیرت میں ڈوب گیا اور بولا:’’اے فاختہ! تم نے بہت اچھی باتیں کی ہیں ۔ ٹھہرو...میں تمہیں مرہم لگاتا اور خوراک اور پانی دیتا ہوں۔ اس طرح تم میں قوت آجائے گی اور درد بھی کم ہو جائے گا۔‘‘
شکاری نے فاختہ کو مرہم لگائی ،اسے پانی پلایا ۔ تھوڑی دیر بعد فاختہ نے اپنے پر پھیلائے۔ شکاری نے فاختہ سے کہا:’’اب مجھے اپنے بچوں تک لے جاؤ، میں اس وقت تک تمہاری اورتمہارے بچوں کی دیکھ بھال کروں گا جب تک تم تندرست نہیں ہوجاتی۔اس طرح میری غلطی کا ازالہ ہوجائے گا۔
فاختہ کے زخم پر مرہم لگنے سے درد کم ہو گیا اور دانہ کھانے سے قوت بھی آ گئی ۔فاختہ اپنے پَر پھڑ پھڑانے لگی ، تھوڑا سا اُڑتی اور پھر بیٹھ جاتی ۔ شکاری اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ آخر کار فاختہ اپنے گھونسلےکے قریب پہنچ گئی۔ وہ درخت کی نچلی شاخ پر بیٹھ کر اوپر دیکھنے لگی ۔ شکاری سمجھ گیا کہ اس درخت پر ہی اس کا گھونسلا ہے ۔ وہ درخت پر چڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ واقعی گھونسلے میں چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ شکاری نے گھونسلے سمیت فاختہ کے بچوں کو اُٹھایا اور نیچے اُترآیا۔اس نے ان کے سامنےدانہ اور پانی رکھا۔فاختہ کے بچے دانہ چگنےلگے۔جب وہ سب سیر ہو گئے تو خوشی سےبولنے لگے۔
شکاری ان سب کو اپنے گھر لے آیا ۔ ان کی دیکھ بھال کرتا رہا ۔ حتیٰ کہ فاختہ مکمل صحت یاب اور بچے بڑے ہو کر اُڑنےکے قابل ہو گئے ۔ شکاری نے یہ دیکھ کر فاختہ سے کہا:’’تُم نے مجھے ظلم کرنے سے بچایا، تمہارا شکریہ! اب تم اپنے بچوں کو لے کر جہاں جانا چاہو جاسکتی ہو۔‘‘
شکاری تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر بولا:’’اے فاختہ! میں تمہارا پیغام پھیلاؤں گا تاکہ لوگوں کو یہ بات معلوم ہو سکے کہ جب پرندوں،چرندوں کے انڈے دینے کا وقت ہو توانہیں اپنی خوراک نہ بناؤورنہ ان کی نسل ختم ہوجائے گی۔اے انسان!اس طرح اپنے ہاتھوں اپنی خوراک ختم نہ کرو ورنہ فاقوں کی نوبت آ جائے گی ۔ایسے چرند ،پرندجو نایاب ہیں یا بہت کم رہ گئے ہیں، ان کاشکار نہ کرو تاکہ وہ افزائشِ نسل کر سکیں اور اُن کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی خوبصورت پرندے اور جانور ناپیدہوچکے ہیں۔ اُن کی نسل ختم ہوتی جارہی ہے ۔ ہمیں ان کی نسل کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے ۔پرندوں کے تحفظ کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ان کا شکار نہ کیا جائے، دوسرا یہ کہ ان کے لیے آلودگی سے پاک قدرتی ماحول کو یقینی بنایا جائے اور تیسرا شجرکاری اور پانی کی دستیابی ہے۔ جس جگہ پانی اور درخت وافر ہوں گے وہ علاقہ پرندوں کی جنت کہلائےگا۔
یادرکھیں!اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں توازن رکھا ہے ۔اس میں کسی قسم کا بگاڑ پیدا کرنا زندگی کے لیے نقصان دہ ہے۔
تبصرے