اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 10:10
Advertisements

ہلال کڈز اردو

ایمانداری کا انعام

دسمبر 2023

گھنٹی بجی تو تمام طلباء اپنی اپنی جماعتوں سے باہر نکل آئے۔ بریک ہو چکی تھی تو عالیہ نے بھی ڈیسک پر پڑی اپنی کتابیں بیگ میں ڈالیں اور لنچ باکس نکال کر باہر آگئی۔ وہ اسکول کے سرسبز باغ میں چلی گئی۔ وہ روزانہ اپنا لنچ یہیں بیٹھ کر کرتی اور وہاں لگے پودوں اور رنگ برنگے پھولوں کو دیکھتی رہتی۔ اب بھی وہ بنچ پر بیٹھ کرکھانا کھا رہی تھی کہ پھولوں کو دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک گملے کے ساتھ گرے ایک بٹوے پر پڑی۔
’’یہ کس کا ہو سکتا ہے؟“ اس نے دل میں سوچا۔
’’ شاید کسی کا گرگیا ہو۔ ابھی لے جائے گا!“ یہ سوچ کر وہ پھر اپنے لنچ میں مصروف ہوگئی۔
اطمینان سے لنچ کرکے اس نے وہ بٹوہ اٹھا لیا۔
اب وہ پرنسپل صاحبہ کے آفس جا رہی تھی تاکہ انہیں اس کے بارے میں آگاہ کرسکے۔
’’کہاں جا رہی ہو،بیٹا؟ “آفس کے دروازے کے پاس بیٹھی آنٹی (جو میڈم کی اسسٹنٹ تھیں) نے اسے روک کر پوچھا۔
’’میم کے پاس۔ “اس نے معصومیت سے کہا۔
’’ وہ ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔ آپ تھوڑی دیر انتظار کر لیں۔“ آنٹی نے پیار سے کہا ۔
’’جی، اچھا!“ وہ سر ہلا کر انتظار گاہ میں بیٹھ کر میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔

کچھ دیر بعد جب میٹنگ ختم ہوگئی تو آنٹی نے آکر اسے اطلاع دی: ’’آجاؤ بیٹا! میڈم آپ کو بلا رہی ہیں۔“ 
عالیہ جلدی سے اٹھ کر میڈم کے کمرے میں داخل ہوئی۔
’’میم!… کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟“ دروازے کے پاس رک کر اس نے اجازت طلب کی۔
’’جی بیٹا!“ پرنسپل صاحبہ ایک کتاب کا مطالعہ کررہی تھیں جسے بند کرتے ہوئے انہوں نے عالیہ کو اندر آنے کی اجازت دی۔
عالیہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی اوراپنی کلاس میں سب سے زیادہ ذہین  تھی۔ اس کی بہترین کارکردگی پر تمام اساتذہ اس کی تعریف کرتے تھے۔ اس لیے پرنسپل صاحبہ سمیت اسکول میں سب اسے اچھی طرح جانتے تھے۔
’’السلام علیکم! “ عالیہ نے اپنی سریلی آواز میں میڈم کو سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام، بیٹا! “ میڈم نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’کیسے آنا ہوا؟“ میڈم نے شفقت سے پوچھا۔
’’میم! یہ مجھے گارڈن میں گملے کے پاس ملا تھا۔ پتہ نہیں کس کا ہے؟ میں نے سوچا آپ کو دے دوں۔“ اس نے بٹوہ میڈم کو دیتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھا کیا آپ نے، شکریہ بیٹا!“ میڈم نے عالیہ کو پیار کرتے ہوئے کہا اور اس کام پر اسے شاباش دی۔

اگلے روز جب وہ اسکول گئی تو کچھ دیر بعد پرنسپل صاحبہ ان کی کلاس میں تشریف لائیں۔ سب بچوں نے میڈم کو با آواز بلند سلام کیا۔
’’کیسے ہیں سب بچے؟ ‘‘
’’الحمدللہ! ٹھیک ٹھاک ہیں۔“ میڈم کے استفسار پر سب بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
پڑھائی کے بارے میں کچھ باتیں کرنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ وہ آج خاص طور پر عالیہ کے لیے آئی تھیں۔
’’بچو! کیا آپ کو کچھ معلوم ہے کہ کل کیا ہوا؟‘‘
سب بچے تجسس سے میڈم پرنسپل کی طرف دیکھنے لگے۔
’’بچو! کل عالیہ کو باغ میں ایک بٹوہ ملا۔ اس نے سمجھداری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے میرے حوالے کر دیا۔ وہ بٹوہ اسکول کے مالی بابا کا تھا۔ جب وہ پودوں کو پانی دے رہے تھے تب ان کی جیب سے گر گیا تھا۔“
 میڈم نے ساری کلاس کو عالیہ کے کارنامے سے آگاہ کرنے کے بعد اسے اپنے پاس بلایا اور اپنے گلے سے لگا کر اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھما دیا۔ ’’یہ رہا تمہارا انعام۔‘‘ عالیہ نے پیکٹ کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو کلاس ٹیچر اور باقی بچوں نے تالیاں بجا کر اسےداد دی۔

بریک کے دوران میڈم پرنسپل نے پھر عالیہ کو اپنے کمرے میں بلا لیا۔ جب وہ ان کے آفس گئی تو وہاں مالی بابا بھی موجود تھے۔
’’بیٹی! آپ کا نام کیا ہے؟“ سلام دعا کے بعد مالی بابا نے اس سے پوچھا۔
’’عالیہ!“
’’ما شاء اللہ! بہت پیارا نام ہے۔“ انہوں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ یہ رہا آپ کا انعام۔“ مالی بابا نے کلرز کی ایک ڈبیہ عالیہ کی طرف بڑھادی۔
’’ نہیں انکل! اس کی ضرورت نہیں“ عالیہ نے گھبرا کر میڈم کی طرف دیکھا۔
’’لے لو بیٹا! یہ بھی آپ کا انعام ہے، مالی بابا کی طرف سے۔“ میڈم کےکہنے پراس نے شکریہ کے ساتھ وہ کلرز لے لیے۔

گھر آکر عالیہ نے امی جان کو دونوں انعامات دکھائے اور آج اسکول میں ہونے والا سارا ماجرا سنایا۔
’’ارے واہ! یہ تو آپ نے بہت اچھا کام کیا۔“ امی بھی اس کی ایمانداری پربہت خوش تھیں۔
’’میری طرف سے بھی آپ کو انعام ملے گا۔“ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’سچی! “ آج کا دن واقعی عالیہ کے لیے بہت خوشیاں لایا تھا۔
’’میں ابھی آپ کے لیے سینڈوچ بنا کر لاتی ہوں۔“ امی اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کچن میں چلی گئیں۔

رات کو جب عالیہ کے بابا گھر آئے تو اس کی امی نے انہیں عالیہ کے نیک کام کی تفصیل بتائی۔ بابا بھی بہت خوش ہوئے۔ پھروہ دونوں عالیہ کے کمرے میں آئے جہاں وہ بیٹھی اپنا ہوم ورک کر رہی تھی۔ بابا کو دیکھتے ہی وہ اٹھی اور ان سے لپٹ گئی۔
’’ہوم ورک ہوجائے تو ہم آپ کی پسندیدہ آئس کریم کھانےجائیں گے۔ مجھے آپ کے نیک کام سے بہت خوشی ہوئی۔‘‘ بابا نے اسے اپنی گود میں لیتے ہوئے کہا۔ 
’’ شکریہ باباجان!…ویسے میرا ہوم ورک بھی مکمل ہے۔‘‘ عالیہ نے چہکتے ہوئے کہا۔
’’ چلو پھر،دیر کس بات کی... مزے مزے کی آئس کریم ہمارا انتظار کررہی ہے۔‘‘ تھوڑی ہی دیر بعد عالیہ اپنے بابا اور امی کے ساتھ اپنی من پسند آئسکریم کھانے باہر جا رہی تھی۔ آج وہ بہت خوش تھی۔
 پیارے بچو! دیکھا آپ نے کہ عالیہ کو اس کی ایمانداری پر کتنی ساری شاباش اور انعامات ملے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ایماندار لوگوں کو ان کی ایمانداری کا صلہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے۔