مشکلات چاہے جتنی بھی ہوں اگر انسان امید کا دامن تھام کرجرأتمندی اور پختہ عزم سے آگے بڑھے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
زندگی چاہے کتنی ہی دشوار ہو،اگر انسان کے خیالات مثبت اورسوچ اعلیٰ ہوتو نا ممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیالات دراصل توانائی کی ایک نازک شکل ہوتے ہیں جنہیں ہم اپنی مرضی سے جس طرف چاہیں موڑسکتے ہیں۔یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ انہیں منفی سمت میں لے جاتا ہے یا مثبت۔ اگروہ زندگی کی مشکل کے سامنے ڈٹ جاتا ہے اوراپنے مثبت خیالات اور سوچ سے ان پر قابو پا لیتا ہے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اگر ہم اس کی عملی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ کی شخصیت ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے۔ بلا شبہ انہوں نے زندگی کے مشکل ترین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر سائنس وتحقیق کے ایسے نئے در کھولے کہ دنیا حیران رہ گئی۔
اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ زندگی کا آغاز بالکل نارمل بچوں کی طرح ہوا۔ پڑھائی اور کھیل کود دونوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ وہ اپنی آنکھوں میں ہزاروں خواب سجائے بہت کچھ کر گزرنے کے عزم کے ساتھ ہرصبح بیدار ہوتے انہوں نے عام بچوں کی طرح اسکول کی تعلیم حاصل کی ۔جب یونیورسٹی پہنچے توان کی عمر22(بائیس )سال تھی۔ ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ان کی طبعیت خراب ہو گئی اوروہ دھڑام سے نیچے آ گرے۔ جب ہوش آیا تو ہسپتال میں تھے۔
ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ ایک ناقابل علاج مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ مرض کی شدت کی دیکھتے ہوئے طبی ماہرین نے پیشن گوئی کی کہ وہ صرف چند ماہ ہی زندہ رہ سکیں گے۔ ہسپتال کے بیڈ سے فارغ ہوئے تو وہیل چیئر ان کا مستقل ٹھکانہ بن گئی۔ بول چال بھی جاتی رہی جس کے لیے وہ طبی آلات کے رحم و کرم پر تھے۔
زندگی کی اس مشکل صورتحال میں اسٹیفن ہاکنگ نے ایک عزم کیا کہ جتنی زندگی اللہ نے انہیں دی ہے اس میں وہ دنیا کو کچھ دے کر جائیں گے اورزندگی کا ہر لمحہ اپنے مقـصد کو حاصل کرنے پر لگا دیں گے۔ اس طرح انہوں نے اپنی معذوری کو اپنے مقصد کی راہ میں کبھی حائل نہ ہونے دیا۔
اسٹیفن ہاکنگ کی اسی مثبت سوچ اور حوصلے سے متاثر ہوکر کیمرج یوینورسٹی کے سائبر ماہرین نے ان کے لیے ایک خصوصی ٹاکنگ کمپیوٹر ایجاد کیا اوراسے ان کی وہیل چیئر کے ساتھ منسلک کر دیا۔ یہ کمپیوٹر ہاکنگ کی پلکوں کی جنبش کوسمجھتا تھا۔ اس طرح ان کے خیالات پلکوں کی زبان کے ذریعے کمپیوٹر میں منتقل ہونے لگے۔ یہ الفاظ اسکرین پر ٹائپ ہوتے نظر آتے اور انہیں سنا بھی جاسکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے بے شمار کتابیں تخلیق کیں۔ ’’کوانٹم گریوٹی‘‘ اور ’’کائناتی سائنس‘‘ (کاسمالوجی) اسی نئی زبان کے کارنامے ہیں جنہوں نے کائناتی سائنس کو نیا فلسفہ بخشا۔
1990ء میں ہاکنگ نے مایوس دلوں میں امید کا دیا جلانے کے لیے لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ کمپیوٹر کے ذریعے لوگوں سے مخاطب ہوتے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اور ادارے اپنے ہاں ان کے ان لیکچرز کا خصوصی اہتمام کرتے۔ وہ براہ راست ہزاروں لوگوں کو یہ پیغام دیتے کہ اگرمیں معذوری کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہوں تو وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے صحت دی ہے اوروہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں، انہیں کامیابی سے کون روک سکتا ہے۔ عزم پیہم سے ہر منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔
1974ءمیں اسٹیفن ہاکنگ نےیہ نظریہ پیش کیا کہ خلا میں موجود’’بلیک ہولز‘‘تابکاری ( ریڈی ایشن )خارج کرتے ہیں۔اپنی غیر معمولی ذہانت کے ذریعے انہوں نے کائنات میں ایک ایسا ’’بلیک ہول‘‘ دریافت کیا جس سے روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں۔ اس بلیک ہول سے ایسی شعائیں خارج ہوتی ہیں جو کائنات میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہیں۔ ان شعاعوں کو آج دنیا انہی کے نام سے ’’ہاکنگ ریڈی ایشن‘‘ سے جانتی ہے۔ ہاکنگ طبیعات اورریاضی کے ماہر تھے۔ انہوں نے اپنی اس نئی تحقیق سے دنیا کو حیران کردیا۔
1988ء میں ان کی کتاب ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ شائع ہوئی جس کی اب تک ایک کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔
ساتھیو! اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکلات چاہے جتنی بھی ہوں اگر انسان امید کا دامن تھام کرجراتمندی اور پختہ عزم سے آگے بڑھے تو کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
تبصرے